عمران خان کی اس آڈیو سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران نے یہ سارا گیم پلان بناکر اسے سسپنس سے بھرپور ایک فلم میں تبدیل کردیا۔ یہ لگتا ہے کہ عمران خان جب بطور وزیراعظم اپنے پرنسپل سیکریٹری کے ساتھ گفتگو کررہے ہیں تو اعظم خان نے بھی انہیں کچھ طریقے سمجھائے۔ عمران کو یہ پتہ تھا کہ ان کیخلاف کسی قسم کی کوئی سازش نہیں ہوئی ہے‘ لیکن انہیں یہ بھی احساس تھا کہ ان کی کرسی ہچکولے کھارہی ہے اور بالآخر تحریک عدم اعتماد میں انہیں Defeat ہوجائے گی۔ اس لئے انہوں نے اس مکتوب میں سنسنی خیزی پیدا کرکے یہ طے کیا کہ یہ اس موقع پر یہ چال عام پاکستانی کو اس بات پر اکسائے گی کہ عمران کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ اب امریکی سازش کی کہانی عمران خان کی زبانی عوام کے سامنے آگئی ہے۔ عمران تین روز سے ان آڈیو لیکس پر یہ کہہ رہے تھے کہ دیکھیں حکومت کرنے والے کیا کیا پلان بنارہے ہیں۔ اس طرح میرے اندیشے صحیح ثابت ہورہے ہیں‘ لیکن اب عمران خان کی اس آڈیو لیک نے ایک نیا ٹرن لیا ہے۔ کہانی کا رخ اور اس کا متن یکسر بدل گیا ہے۔ اس سے یہ پہلو بھی سامنے آگیا ہے کہ وزیراعظم کا وہ دفتر جس میں پہلے عمران خان بیٹھے تھے اور اب شہباز شریف صاحب بیٹھے ہیں یہ دفتر انتہائی غیر محفوظ ہے۔ عمران خان جب وہاں بیٹھے تھے ان کی گفتگو سامنے آگئی ہے اور اب شہباز شریف کی گفتگو بھی سامنے آگئی ہے۔ نامعلوم اب آنے والے دنوں میں کیا کیا نیا آنے والا ہے۔ آپ ان گفتگوؤں کا جائزہ لیں‘ ایک پرنسپل سیکریٹری اعظم خان ہے جو عمران کے ساتھ کام کررہا تھا اور ایک پرنسپل سیکریٹری توقیر شاہ ہے جو شہباز شریف کے ساتھ کام کررہا ہے۔ توقیر شاہ ایک پروفیشنل بیورو کریٹ کی طرح بات کررہے ہیں اور ان کی باتوں سے یہ نہیں لگ رہا ہے کہ وہ سیاسی کھیل کا حصہ ہیں بلکہ وہ وزیراعظم شہباز شریف کو کسی بھی کام کیلئے تمام ضروری کارروائیوں سے بھی آگاہ کررہے ہیں۔ وہ رولز اور ریگولیشن پر عملدرآمد کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ وہ کہیں یہ تاثر نہیں دے رہے ہیں کہ کوئی کام ’’جو گاڑ‘‘ سے ہوسکتا ہے یا کیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف اعظم خان اپنے وزیراعظم سے جو باتیں کررہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عمران خان کو نئی نئی ترکیبیں بتارہے ہیں۔ عمران اس سائفر کی تحقیقات کی بات کررہے ہیں۔ اپنا بیانیہ بنانے کیلئے ان سے وہ بات کہی جس کی کوئی بنیاد ہی نہیں تھی۔ امریکیوں سے تعلقات خراب کرائے۔ اپنی پوری تحریک کی بنیاد اسی سائفر پر رکھی۔ یہ تو ایسا ہی ہوگیا کہ کیا عمران خان سوچ سکتے تھے کہ جاوید میانداد‘ وسیم اکرم اور انضمام الحق کے بغیر ہم 92 کا ورلڈکپ جیت سکتے تھے ہرگز نہیں‘ لیکن وہ سارا کریڈٹ خود اپنی جھولی میں ڈال لیتے ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ بھی اس آڈیوز سے ثابت ہوگیا ہے کہ وزیراعظم سیکریٹریٹ میں وزیراعظم کا دفتر انتہائی غیر محفوظ ہے۔ اس کو محفوظ بنانے میں انٹیلی جنس بیورو پہلے بھی ناکام تھی اور آج بھی ناکام ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران نے سائفر کی کچھڑی کیسے پکائی۔ یہ مراسلہ دھمکی بناکر کیسے پیش کیا گیا۔ شروعات کہاں سے ہوئی ۔ وہ جس تیز رفتاری سے اپنے بیانیے بدلتے جارہے ہیں۔ اس صورتحال سے ثابت ہوتا ہے کہ عمران خان جھوٹ بول رہے ہیں اور اس سے ان کے سابق بیانیے کا کٹھا چٹھا کھل کر سامنے آگیا ہے۔ وہ اپنے پرنسپل سیکریٹری کو بتارہے ہیں کہ سائفر سے کھیلنا ہے امریکہ کا نام نہیں لینا۔ اس کو غیر ملکی سازش بنادینا ہے۔ اعظم خان نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ وزیر خارجہ اور سیکریٹری خارجہ کا اجلاس بلائیں وہ سائفر پڑھ کر سنائیں وہ یہ پڑھ کر سنائیں گے اور منٹس ہم خود ڈرافٹ کرلیں گے۔ وہ مشورہ دے رہے ہیں کہ ہم اس کا تجزیہ اس طرح کریں گے کہ یہ سفارتی زبان میں دھمکی ہے۔ عمران خان اب جھنجھلاہٹ کا شکار ہوکر کہہ رہے ہیں کہ یہ شہباز شریف کے لوگوں نے لیک کی ہے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ سارا سائفر ہی لیک ہوجائے۔ حالانکہ یہ تو بہت بڑی سازش ہوئی ہے۔ ابھی تو میں نے اس پر کھیلا ہی نہیں ہے۔ یہ ایکسپوز کریں گے تو پھر کھیلیں گے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی آڈیوز سے لیڈروں اور عوام کے مابین جو اعتماد کا رشتہ بنتا ہے وہ یقینا اس سے متاثر ہوگا۔ لوگ یہ ضرور سوچیں گے کہ ہم نے کسی لیڈر کیلئے جو تاثر قائم کیا تھا وہ بالکل غلط نکلا۔اس سے عوام کا اعتماد متزلزل ہوجاتا ہے۔ وہ اگر یہ تاثر قائم کرلیں گے کہ لیڈر ان کے ساتھ دھوکہ کررہے ہیں تو یہ اعتماد کی فضا مجروح ہوتی ہے۔ لوگ مایوس ہوجاتے ہیں۔ اس خط کو Rewrite کیا گیا ہے۔ یہ بات تو بڑی خطرناک ہے۔ آڈیو لیک کا جو سلسلہ شوکت ترین صاحب سے چلا ہے یہ چل رہا ہے اور نہ جانے آگے کتنا چلے گا اور اس کی لپیٹ میں نہ جانے کون کون آئے گا۔ اس سے ہو کیا رہا ہے اس سے پاکستان کو نقصان ہورہا ہے۔ پاکستان کے سیاستدان متاثر ہورہے ہیں۔ جب پرائم منسٹر ہاؤس سیف نہیں ہے تو پرائم منسٹر کیسے سیف ہوسکتا ہے۔ اس سے اندازہ کریں کہ ہم کتنے کمزور ہوگئے ہیں۔ وہ پرائم منسٹر کوئی بھی ہو وہ جو بات کرے گا وہ لیک ہوجائے گی۔ یہ کیا بات ہوئی۔ ان کی سیکورٹی بھی غیر محفوظ ہوگئی ہے۔ ان کے ٹائمنگ پر نظر ڈالیں ہو یہ رہا ہے کہ جب کسی کی لیک آتی ہے تو دوسرا جشن مناتا ہے۔ جب دوسرے کی لیک آتی ہے تو پہلا بغلیں بجاتا ہے۔ یہ کوئی نہیں سوچ رہا کہ اس کہانی کا مصنف کون ہے۔ اس کا ہیکر کون ہے۔ اس کے پیچھے کون لوگ ہیں یہ کیسے ہورہی ہے کیوں ہورہی ہے۔ جب تک اس کی تہہ تک نہیں پہنچا جائے گا کسی کو بھی یہ نہیں پتہ کہ اس کے پاس کیا کیا چیزیں موجود ہیں۔ وہ کیا تہلکہ مچانے والا ہے۔ کون کون سی چیزیں آگے چل کر آنے والی ہیں۔ نیشنل سیکوریٹی کمیٹی کیا فیصلے کرتی ہے۔ کم از کم یہ تو مانیں کہ بحیثیت قوم ہم کتنے پر خطر راستے پر چل پڑے ہیں۔ کس قدر ڈینجر زون میں داخل ہوگئے ہیں۔ ان آڈیو لیکس کا تعلق پاکستان کی خارجہ پالیسی سیکورٹی پالیسی سے آجاتا ہے اور جب یہ لیکس ہوئی ہیں تو اس کو غیر ممالک بھی دیکھیں گے۔ کچھ ہو یا نہ ہو بحیثیت قوم ہماری سبکی ضرور ہوگی۔