کیا یہ صرف نا اہلی کا معاملہ ہے۔ ایسا ہے تو اللہ کا شکر ہے ہم صرف نا اہل ہی ہیں۔ کوئی اور معاملہ نہیں ہے۔ کوئی سازش نہیں ہے۔ یہ خیال اس لیے پیدا ہو رہا تھا کہ ہم نے دو تین ماہ سے طرح طرح کی سازشی افواہیں پھیلا رکھی تھیں۔ اس میں نازک بات یہ ہے کہ ان میں کوئی ایک بات ایسی نہیں ہے جسے کھلے دل سے بیان کیا جا سکے اور اس سے بھی نازک تر معاملہ یہ ہے کہ ہر بات کی طرف کھلم کھلا اشارے ہو رہے تھے۔ اگر ان باتوں پر غور کیا جائے تو گماں گزرتا ہے کہ جیسے لوح محفوظ پر لکھا ہوا کوئی سکرپٹ اس سوہنی دھرتی پر اتر آیا تھا اور اس پر عمل ہو رہا تھا۔ ایسے میں جب ہم نے بڑی غیر یقینی کی صورت حال میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ خدا نے خیر کی، کوئی اداروں کا ٹکرائو نہیں ہوا، پاکستان کے دشمن ناکام رہے تو ایسے لگا کہ ہم سکھ کا سانس لے سکتے ہیں۔ ہمیں اس طرح مطمئن ہو کر بیٹھ نہیں رہنا چاہئے۔ میرا مطلب یہ بھی نہیں کہ پردہ غیب میں بہت کچھ ہے۔ میرا مطلب مگر یقینا یہ ہے کہ ہم اس معاملے پر جس طرح باتیں بنا رہے ہیں، یہ معاملات کو بگاڑ سکتا ہے۔ ابھی معاملہ ختم نہیں ہوا۔ یہ کوئی ایسی چھوٹی سی بات ہے کہ شیخ رشید انگوٹھا دکھاتے ہوئے یہ کہے کہ یہ چھ ماہ، تین سال ہی ہیں۔ اس بیان کے الفاظ دیکھ لیجئے اور باڈی لینگوئج بھی یوں لگتا ہے کسی کو اکسایا جا رہا ہے اور اس بات کا تاثر دیا جا رہا ہے کہ کوئی کسی کو مات دینا چاہتا تھا، مگر خود مات کھا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس معاملے میں سب نے تحمل سے کام لیا۔ خاص طور پر داد دینا پڑتی ہے اس شخص کی جس کا منصب جلیلہ زیر بحث آیا تھا۔ اس ملک میں اقتدار کی رسہ کشی کئی انداز سے چلتی رہی ہے، تا ہم یہ ایک مسلمہ حقیقت رہی ہے کہ فوج کے سربراہ کو کبھی متنازعہ نہیں بنایا گیا۔ یہ تو ایک مناسب بحث ہے کہ فوج کا اقتدار میں کیا کردار ہو، سول بالادستی کا تذکرہ بھی ہوتا، فوج کے ملک پر قابض ہونے کی باتیں بھی ہوئیں مگر یہ بات اس تناظر میں ہوتی تھی کہ ہماری فوج ایک منظم فوج ہے۔ جو بھی اس کی کمان سنبھال لیتا ہے، سب اس کی اطاعت کرتے ہیں اور وہ بھی ملک کے بہترین مفاد میں کام کرتے ہیں۔ اسے ہی اسٹیبلشمنٹ کہتے تھے اور اس دعوے پر اعتراض تو کرتے تھے مگر یہ سمجھتے تھے کہ ملک کو راہِ راست پر رکھنا ہماری اسٹیبلشمنٹ اپنا حق اور اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوا تھا کہ یہ سوال اٹھا ہو اور سرعام بحثیں ہو رہی ہیں کہ اس منصب پر حق کس کا ہے اور کس طریقے سے ہے۔ یہ ایسا نازک معاملہ ہے کہ میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہوں۔ یہ ملک کی تاریخ کا شاید سب سے بڑا بحران ہے۔ کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ طے ہو گیا ہے تو وہ غلطی پر ہے۔ ہم نے جن حماقتوں کو پال رکھا ہے اور جس طرح کی نالائقیوں کا ثبوت دیتے آ رہے ہیں، ان کے پس منظر میں ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے کہ چشم فلک نے کبھی اتنی ساری حماقتوں کو ایک ہی چھت کے تلے اکٹھے ہوتے شاذ ہی دیکھا ہو۔ اب اس کی نئی نئی تعبیریں نکالنے کی کارروائی شروع ہو چکی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے سے لے کر ان کی واپسی تک اور واپسی کے بعد دعوئوں تک، ان دعوئوں کے جواب میں جوابی دعوئوں تک، میاں نواز شریف کی علالت اور ملک سے باہر جانے کے سارے عمل تک اور اس کے بارے میں حکومت کے اظہار تعجب تک، جو کچھ بھی ہوا نا اہلی ہرگز ہرگز نہیں ہے۔ پھر یہ بھی خدا کی قدرت دیکھئے کہ ایک شخص اچانک نمودار ہوتا ہے اور وہ بھی اس وقت جب معاملہ آخری دموں پر ہے۔ ایک درخواست دائر کرتا ہے جس پر غور کرنا عدالت ضروری سمجھتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے اس میں تو ایسے سوال ابھر کر سامنے آ رہے ہیں جن پر ماضی میں کسی کی نظر تک نہیں پڑی تھی۔ ملک کا سب سے بڑا لاء آفیسر گڑ بڑا جاتا ہے، اسے معلوم ہی نہیں کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت 3سال کیسے ہوتی ہے۔ اسے توسیع کس قانون کے تحت دی جا سکتی ہے۔ یہ تو ہو سکتا تھا کہ اچانک کسی نے مقدمہ کر دیا۔ اس مقدمے پر کارروائی بھی شروع ہو گئی مگر کیا کسی کو خبر تھی کہ ہم اتنی بڑی حماقتوں کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ وہ حماقتیں نہیں جو ان دنوں صبح و شام کی، بلکہ وہ جو ایک تسلسل کے ساتھ کرتے آئے ہیں۔ فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف افراد کی غلطیوں اور ملت کے گناہوں کا فرق مجھے اب سمجھ آیا ہے اور یہ بات بھی پہلے بڑی ہے کہ ہمارے گناہ معاف کیوں نہیں ہوتے تھے۔ عرض کیے دیتا ہوں کہ یہ نہ سمجھئے کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ اگر ایسا سوچا تو یہ ایک بہت بڑی غلطی ہو گی۔ اتنے دبائو کے باوجود حکومت نے یہ رٹ لگانا شروع کر دی ہے کہ یہ کوئی بات ہے ہی نہیں، ایک طرف یہ کہا جا رہا ہے، دوسری طرف یہ راگ الاپا جا رہا ہے کہ بھارت کے ایجنٹ اور ملک کے دشمن اس کی پشت پر ہیں۔ وہ لوگ ملک کا پیسہ لوٹ کر سب کچھ باہر لے گئے۔ دوسری طرف سے یہ جواب بھی شروع ہو گیا ہے، ہم تو پہلے کہہ چکے ہیں کہ دھرنے کے مقاصد حاصل ہو چکے۔ آنے والے دوچار ماہ میں نئے انتخاب ہونے والے ہیں، ورنہ تبدیلی تو ناگزیر ہے۔ جب ہم اس بات پر غور شروع کرتے ہیں کہ کون سی تبدیلی، کیسی تبدیلی اور کیوں کر ناگزیر تو بے شمار سوال پیدا ہوتے ہیں جو نازک سے نازک تر ہیں۔ جب مشرقی پاکستان کا المیہ جنم لے رہا تھا تو ہمارے بہت سارے بزرگ سمجھاتے تھے کہ حالات جس قدر خراب ہیں ان کا علاج صرف ایک ہے کہ اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو سونپ دیا جائے اور وہ لوگ جو ملک سے معاملات پر کاٹھی جمائے بیٹھے ہیں، ان سے بڑے سلیقے سے معاملات واپس لے لیے جائیں۔ حالات کی سنگینی کا واویلا دے دے کر دہائی دی جاتی تھی کہ بڑے تھریٹ ٹکرا رہے ہیں، ہمیں اس کا احساس ہونا چاہئے۔ اب بھی یہ سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ یہ لڑائی جو شروع ہو چکی ہے، اسے قابو کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہمہ شمہ کے درمیان کوئی متصادم نہیں، بات بہت بگڑ سکتی ہے۔ یہ ہم سب کی حب الوطنی کا امتحان ہے اور ہمارے پاس اور کوئی راہ عمل نہیں ہے کہ ہم اس امتحان سے کامیاب ہو کر نکلیں۔ ہمارے بڑوں نے بھی بڑی غلطیاں کی ہیں، مگر غلطی کا جیسا مگر مچھ اب کی بار منہ کھولے کھڑا ہے، وہ انتہائی خطرناک ہے۔ بات کو مختصر طور پر دہرا کر ختم کرتا ہوں۔ یہ کہ ایسا نہ سمجھئے مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ صرف یوں سمجھئے کہ معاملے کو بڑی دُور رسی سے ٹال دیا گیا ہے۔ آنے والے دن ہمارا اصل امتحان ہو گا۔ بعد میں تجزئیے کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، ہمیں قوم کی حیثیت سے سمجھ لینا چاہئے خطرہ ختم نہیں ہوا، خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی ہیں۔