10 اپریل 2022 کے بعد پہلی بار موجودہ حکومت کی صفوں میں پریشانی کا عالم نظر آیا ہے۔ پٹرول کی قیمت جو یکم فروری کو بڑھانا تھی ، اس حکومت کے وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار تین دن پہلے ہی اضافے کی پہلی قسط کا اعلان کرنے پر مجبور ہو گئے۔ 28 جنوری کی شام کے بعد پٹرول پمپ پر تیل غائب ہو چکا تھا۔جیسے ہی یہ افواہ چلی کہ حکومت تیل کی قیمت یکم فروری کو بڑھا دے گی پٹرول پمپ مالکان نے تیل کی سیل بند کر دی کیونکہ انکا خیال تھا کی تیل نئی قیمت پر بیچا جائے گا۔اب صورتحال یہ پیدا ہوگئی تھی کی تین دن تک ملک سے پٹرول غائب تھا۔ حکومت مجبور ہو گئی کہ وہ عارضی طور پر 35 روپے کے اضافہ کا اعلان کرے تاکہ دو دن تو ملک میں پہیہ چل سکے۔ اب شنید یہ ہے کہ پٹرول کی قیمت 300 روپے فی لیٹر سے تجاوز کرے گی اور دوسری طرف ڈالر بھی ٹرپل سنچری کی طرف گامزن ہے جس طرح سے دو تین دن میں اضافہ ہوا ہے امید کی جا سکتی ہے کہ 300 والا ٹارگٹ جلد حاصل ہو جائے گا۔ دوسری طرف سونا بہت کم مدت میں 150000 سے 200000 تک چلا گیا ہے۔ سونے نے ڈبل سنچری کا ہدف بہت کم دنوں میں حاصل کر لیا ہے۔ افراط زر کی شرح جو کہنے کو پہلے 35 فی صد تھی اب پچاس فی صد سے تجاوز کر جائے گا۔ اگر پٹرول 215 سے 310 تک جا سکتا ہے تو اس کا اثر ہر ایک چیز پر پڑے گا۔ جہاں کرایہ 45ہزار تھا وہ بڑھ کر 60 ہزار ہو گیا ہے۔ گیس کا سلنڈر 4000 کی حد کراس کر چکا ہے۔ اب تنخواہ دار اور مزدور طبقہ اس چکی میں پھنس چکا ہے۔ مہنگائی کا جو طوفان اب آئے گا اس میں لوگوں کو سیاست وغیرہ سب کچھ بھول جائے گا اور صرف روٹی کی فکر ہو گی۔ جن کو روٹی بھی نہیں ملے گی وہ لوگ سب سے زیادہ خطرناک ہوجا ئیں گے۔ ملک کے حالات بہت سنگین بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ہمارا حکمران طبقہ ابھی تک شتر مرغ کی طرح ریت میں گردن دیئے بیٹھا ہے۔ جس طرح کے حالات چل رہے اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ پنجاب اور کے پی کے میں صوبائی اسمبلی کے الیکشن ہوں اور اگر الیکشن نہ ہوئے تو صورتحال بہت خراب ہو سکتی ہے۔ معاشی صورتحال میں بہتری صرف سیاسی استحکام سے آ سکتی ہے۔ اور سیاسی استحکام کے آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے۔ خدا ناں کرے ہما را ملک ان حالات کا شکار ہو جس میں گزشتہ چالیس سال میں لاطینی امریکہ کے کئی ملک ہو چکے ہیں اور اسلامی ممالک میں الجزائر اور مصر میں بھی صورت حال پہلے اسی طرح سے تھی۔ ہمارے ارباب اختیار کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے۔ اب عوام تمام سیاسی قیادت سے مایوس ہو چکے ہیں۔ اب سے بہت عرصہ پہلے گاوں میں جب امن عامہ کی صورتحال خراب ہو تی تھی تو کچھ سادہ لوح دیہاتی کہتے تھے کہ اب مارشل لا لگ جائے۔ مگر اب کوئی مارشل لا کی بات نہیں کرتا۔ عوام سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے طاقتور عناصر سے بھی شاکی نظر آتے ہیں۔ بہت عرصہ پہلے مرحوم منو بھائی نے ایک کالم لکھا تھا جس میں انہوں نے اس خدشہ کا اظہار کیا تھا جیسے جیسے تعلیم یافتہ طبقہ پاکستان سے ہجرت کر رہا ہے ایک دن ایسا آئے گا یہاں جنگل کا قانوں ہو گا۔ ہماری ساری کریم پچھلے چالیس سال میں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جا چکی ہے۔ ہمارے بہت سے ڈاکٹر، انجینئر، زرعی ماہرین اور معاشی ماہرین یہاں سے جا چکے ہیں۔ ایک تو ہمارے ہاں سے ہنر مند اور تعلیم یافتہ افرادی قوت کا انخلا ہوا دوسرا ہمارے ملک سے زر مبادلہ کا انخلا بھی بہت سپیڈ سے ہوا ہے۔ پہلے جو بھی لوگ ناجائز پیسہ بناتے تھے وہ پاکستان میں رہتا تھا۔ اب وہ پیسہ ڈالر میں تبدیل ہوتا ہے اور پھر دوسرے ملکوں کے بینکوں میں چلا جا تا ہے۔ ہماری اکانومی بیٹھنے کی بڑی وجہ یہی ہے دونوں قسم کا کیپٹل یہاں سے چلا گیا ہے۔ اچھے اور ہنر مند افراد چلے گئے اور بلیک منی بھی ملک سے چلی گئی۔ اب یہاں قحط رجال بھی ہے اور قحط مال بھی ہے۔ سپین میں مسلمانوں کی حکومت ایک دن میں ختم نہیں ہوئی تھی تین چار سو سال کا زوال تھا جو آخر کار 1492 عیسوی کو ختم ہوا۔ اورنگ زیب 1707 میں فوت ہوا ور 1857 میں مغلیہ خاندان کا رسمی اقتدار بھی ختم ہو گیا حالا نکہ 1762 میں بکسر کی جنگ کے بعد مغل اقتدار کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تحریک 1951 کے بعد شروع ہو گئی تھی جو آخر کار 1971 میں اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ پاکستان کی معاشی بدحالی کا بیج 1985 میں بویا گیا تھا جس کی فصل اب تیار ہو چکی ہے۔پاکستان میں 1985 کے غیر جماعتی الیکشن میں جو سیاستدان طبقہ اقتدار میں آیا ابھی تک وہی مختلف کمبی نیشن کے ساتھ اقتدار میں ہے۔ 1985 کے سیاست کو کاروبار کے طور پر ہمارے معاشرے میں جگہ ملی۔ اب جو کاروباری تھے وہ سیاستدان بن گئے اورجو سیاستدان تھے وہ کاروباری ہو گئے۔ اب چور اور چوکیدار کا گٹھ جوڑ اپنے عروج پر ہے۔ خدا کرے کہ وہ ان لوگوں کے دلوں میں نیک خیال ڈال دے۔ چنگیز خاں کی اولاد میں سے وسطی ایشیا اور ہندوستان میں مضبوط مسلم حکومتیں وجود میں آئیں۔ اب خدا کی رحمت سے امید کی جا سکتی ہے ورنہ زمینی حقائق تو بہت خوفناک ہیں۔ ایک طرف سردی کا موسم ختم ہو رہا ہے اور بہار کی آمد ہے تو دوسری طرف گیم آف تھرون کا ایک فقرہ بار بار کانوں میں گونج رہا ہے۔ سردی آرہی ہے ونٹر از کومنگ۔ خدا کرے میرے ملک پر ہمیشہ بہار رہے اور وہ اس کو نظر بد سے بچالے۔