جان سٹوارٹ مل نے کہا تھا’’اندھیرے سے ڈرنے والے بچے کو تو ہم آسانی سے معاف کر سکتے ہیں مگر المیہ تو اس وقت جنم لیتا ہے جب بڑے مرد روشنی سے ڈرتے ہیں‘‘۔روشنی سے ہم اس وقت ڈرتے ہیں جب خواہشات انسان پر اس قدر غالب آ جائیں کہ وہ اخلاق ‘ ضابطے سے بھی ٹکرانے پر اتر آئے۔ پاکستان کا المیہ تو یہ بھی رہا ہے کہ یہاں اخلاقیات تو دور کی بات قانون کو بھی طاقت کے بل بوتے پر اپنی خواہش اور مفاد کے لئے ناچنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی عدالتوں سے اپنی خواہش کے مطابق فیصلے لینے کی تاریخ رہی ہے۔ آج اقتدار کو طول دینے کے لئے جس طرح مسلم لیگ ن اداروں کو اپنی مرضی سے ہانکنے کی کوشش کر رہی ہے یہ بھی کوئی نئی بات نہیں۔ 28 نومبر 1997ء کو ملک کی سب سے بڑی عدالت کا فل بنچ اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں عدالت کے کمرہ نمبر 1میں میاں نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کے مقدموں کی سماعت کر رہا تھا امید تھی کہ اس دن عدالت فیصلہ سنادے گی اس وقت عدالت میں موجود آج کے مسلم لیگ ن کے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے عدالت سے باہر جانے کی اجازت چاہی۔عدالت نے خواجہ آصف کو باہر جانے کی اجازت دے دی تو چند لمحوں میں سپریم کورٹ کی راہداری میں شور بلند ہونا شروع ہوا۔ عدالت کے باہر موجود دو صحافیوں زاہد حسین اور فخر الرحمان کمرہ عدالت میں داخل ہوئے اور بلند آواز میں کہا ’’مائی لارڈ وہ آ رہے ہیں‘‘۔ سجاد علی شاہ نے حملہ کے خوف سے ۔فیصلہ سنائے بغیر سماعت ملتوی کی اور کمرہ عدالت سے نکل گئے۔ عدالت پر ہلہ بولنے کے بعدجب چیٖف جسٹس نہ ملے تو ’’ شکار‘‘ کو بھگانے کی پاداش میں راولپنڈی سے مسلم لیگ کے ایم پی اے سردار نسیم نے فخر الرحمان پر حملہ کر دیا اور ملک کی سب سے بڑی عدالت کے مخالف سمجھے جانے والے جج صاحبان کے خلاف نعرہ بازی اور عدالت میں توڑ پھوڑ شروع ہو گئی۔1997ء میں ملک کی سب سے بڑی عدالت سے روا رکھے جانے والے سلوک پر عام پاکستانی کا ردعمل جو بھی تھا اس سے اہم بات یہ ہے کہ عدالت کے چیف جسٹس کے خلاف نعرے لگانے والے جتھوں اور جن کی شہ پر انصاف کو اس کی ’’اوقات ‘‘یاد دلائی گئی۔ ریاست اور ریاستی اداروں سے بڑھ کر خود عدالتوں نے ان غنڈوں سے کیا انصاف کیا۔ اگر عدالت اپنا تقدس برقرار نہ کر سکی تو ریاست نے اپنے ادارے کی توقیر کو پامال کرنے والوں سے حساب کیوں نہ لیا؟ ان سوالوں کا جواب ملک کی سب سے بڑی عدالت اور ریاست تو نہ دے سکی مگر سر ونسٹن چرچل نے اس قسم کے حالات کی وجہ بہت پہلے بتا دی تھی ’’جب اندر کوئی دشمن نہ ہو تو باہر کے دشمن آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے‘‘ ریاستی طاقت کے ہوتے ہوئے عدالت کی بے توقیری کی نوبت کیوں آئی اس کا جواب اس سانحے کے بعد سپریم کورٹ کی عمارت میں دو متوازی عدالتیں لگنے سے مل جاتا ہے۔ملک کی سب سے بڑی عدالت پر حملہ کرنے والوں کو یہ حوصلہ اس وقت بھی سپریم کورٹ کے ججز میں تقسیم اور نفاق نے فراہم کیا تھا۔ معاملہ شروع تو میاں نوازشریف کے صدر مملکت کے قومی اسمبلی کی برطرفی کے اختیار کو 13ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ختم کرنے سے شروع ہوا، کیس عدالت میں گیا تو چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں صدر کے اختیار کو بحال کر دیا گیا مگر اسی دن سپریم کورٹ کے دوسرے بنچ نے جسٹس سعیدالزماں صدیقی کی سربراہی میں چیف جسٹس کے فیصلے کو معطل کر دیا۔ معزز جج صاحبان کے باہمی اختلافات واضح تقسیم میں بدلے اور کوئٹہ میں سپریم کورٹ رجسٹری میں جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سجاد علی شاہ کو بطور چیف جسٹس کام کرنے سے روک دیا اور بعد میں سپریم کورٹ کے 10رکنی بنچ نے سجاد علی شاہ کا بطور چیف جسٹس نوٹیفکیشن مسترد کر دیا۔ عدلیہ کی تقسیم اس حد تک مخاصمت سے بڑھ کر دشمنی میں بدل گئی کہ سجاد علی شاہ کی رخصتی پر کورٹ ریفرنس تک نہ ہوا اور 2009ء میں افتخار چودھری کے چیف جسٹس بننے کے بعد جسٹس سجاد علی شاہ کو پنشن اور مراعات کی بحالی کا حکم ہوا۔ 1997ء میں سیاسی جماعتوں کے اختلافات جب پارلیمنٹ میں حل نہ ہوئے اور سپریم کورٹ میں پہنچے تو عدالت میں قانون اور آئین کے بجائے خواہشات کے مطابق فیصلوں کی ہٹ دھرمی ملک کی سب سے بڑی عدالت کا مذاق بننے کا سبب بنی۔ معزز ججز کے ہیلی کاپٹر میں بریف کیس پہنچانے کے قصے زبان زد عام ہوئے۔ عدالتوں سے سیاسی جماعتوں کو ان کی خواہش کے مطابق فیصلے تو مل گے مگر آخر کارانجام مارشل لا ۔ 25 سال بعد ایک بار پھر پاکستان تاریخ کے اسی دوراہے پر کھڑا ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت ہے عدالت کے ججز صاحبان کی عوامی جلسوں میں نام لے لے کر تذلیل کی جا رہی ہے۔ پارلیمنٹ کو خواہش کے مطابق قانون سازی کے لئے استعمال کے الزامات ہیں۔ اس بار خواہش صرف ایک سیاسی جماعت یا لیڈر کو سیاست سے بے دخل کرنا ہی نہیں بلکہ عدالت کے اختیارات بھی محدود کرنا ہے۔ سانحے سے بڑھ کر المیہ تو یہ ہے کہ پارلیمنٹ سیاسی خواہشات کے لئے قانون سازی کر رہی ہے تو ملک کی سب سے بڑی عدالت کے معزز جج صاحبان کا آئین فہمی کا اختلاف ذاتی مخاصمت کی طرف بڑھتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ سکندر اعظم نے کہا تھا ’’ یاد رکھیں ہر ایک کے طرز عمل پر سب کی تقدیر منحصر ہے‘‘۔پاکستان اگر آج سماجی معاشی اور معاشرتی زوال کا شکار ہے تو اس کا ذمہ دار بھلے ہی سارے پاکستانی نہ ہوں مگر ہر ایک بالخصوص صاحبان اقتدار و اختیار کا طرز عمل ضرورہے ۔یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان کو باہر کے دشمنوں سے زیادہ اندر کے دشمنوں سے نقصان پہنچا ہے اور اس وقت تک نقصان پہنچتا رہے گا جب تک ہم میں سے ہر کوئی ماضی سے سیکھنے اور اندھیرے سے روشنی کی طرف سفر کی خواہش نہ رکھے گا یہ اسی صورت ممکن ہو گا جب ہمارے ارباب اختیار روشنی سے ڈرنا چھوڑ دیں گے۔