تفتیشی رقم یا تفتیش کی رقم وہ مختص شدہ رقم ہوتی ہے جو محکمہ ِپولیس مختلف مقدمات کی تفتیش کے دوران خرچ آنے والی رقم کی مد میں تفتیشی افسران و اہلکاران کو دیتا ہے۔اِسے پولیس کی زبان میں کاسٹ آف انوسٹی گیشن کہا جاتا ہے۔ یہ رقم جرائم کے مقدمات کی تفتیش کے دوران خرچ کرتے ہیں۔کسی بھی جرم کے سرزد ہونے پر فوری طور پر پولیس پر جانبداری کا الزام تھوپ دیا جاتا ہے۔کہیں کوئی قتل ہو،کوئی چوری ہوجائے، کہیں ڈکیتی کی واردات ہوجائے حتی کہ ٹریفک حادثات میں بھی پولیس کوموردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ شاید کسی نے انِ جرائم کے پیچھے کارفرما ء عناصر کی جانب توجہ مبذول ہی نہیں کی۔ہر جرم کے پیچھے کئی طرح کی وجوہات شامل ہوتی ہیں۔اکثر اوقات غربت، مہنگائی، کم دنوں میں امیر ہونے کا لالچ جیسے عوامل جرم کی وجہ بنتے ہیں۔ غربت مٹانا یا مہنگائی کم کرنا یا کسی کے اندر کی بڑھتے ہوئے لالچ کو کم کرنا یقینی طور پر پولیس کا کام نہیں ہے۔ پولیس جرم سرزد ہونے کے بعد ہی موقع پر پہنچتی ہے اور جرم کی تفتیش کرتی ہے۔ پولیس کا کام انصاف دلانا بھی نہیں ہے۔ پولیس کا کام مظلوم کو انصاف دلانے اور ظالم کو سزا دلوانے کے لئے محض حقائق اکٹھا کرنا ہے۔ تفتیش میں پولیس کو کن وسائل کی عدم دستیابی اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا؟ یقینا ہم نے آج تک اس پہلو پر غور کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ جب ایک قتل ہوتا ہے تو قاتل فوراََ فرار ہوجاتا ہے۔ لواحقین تک قاتل کے متعلق پولیس کو بتانا گوارا نہیں کرتے۔ جب قتل کی ایف آئی آر درج ہوتی ہے تو کیس ایس ایچ او سے کسی تفتیشی افسر (عمومی طور پر اسسٹنٹ سب انسپکٹر یا سب انسپکٹر) کے سپرد کردیا جاتا ہے۔ تفتیشی افسر فوری طور پر پولیس کی گاڑی پر کچھ اہلکاروں سمیت جائے وقوعہ کا دورہ کرتا ہے۔ نوے فیصد سے زائد چانسز یہی ہوتے ہیں کہ قاتل پولیس کے ہاتھ نہیں لگتا اور پولیس پہلی ریڈ میں ناکام لوٹتی ہے۔ مگر ایک چکرلگانے میں کم از کم دس سے بیس لٹر پیٹرول خرچ ہوتا ہے۔ چار سے پانچ پولیس ریڈ کے بعد کسی نہ کسی طرح پولیس قاتل کو گرفتار کرلیتی ہے۔ضمنی در ضمنی پر پولیس پارٹی کو کئی بار مختلف جگہوں پر ریڈ کرنا پڑتی ہے۔ ہر ریڈ کی صورت میں پانچ سے دس ہزار خرچ آنا معمولی سی بات ہے۔ فرانزک، آڈٹ، کال ریکارڈنگ، گواہان وغیرہ پراٹھنے والے اخراجات علاوہ ہوتے ہیں۔ قتل کے کیس کی تفتیش جاری ہوتی ہے مگر تفتیشی افسر پر ایس ایچ او، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ، سپرنٹنڈنٹ، اور دیگر اعلیٰ افسران، سیاستدانوں، بیوروکریٹس، میڈیا اور دیگر معاشرتی دباؤ تلوار کی مانند لٹکتا رہتا ہے۔ یہ ایک کیس نہیں ہوتا بلکہ ایک ہی وقت میں ایک تفتیشی افسر کئی کیسز کی تفتیش کررہا ہوتا ہے۔ دورانِ تفتیش اْسے یہ ہوش ہی نہیں رہتا کہ اْس نے کھانا کب کھایا، کہاں کھایا، کیا کھایا، کن پیسوں سے کھایا، کیس کی تفتیش پر اْٹھنے والے اخراجات کیسے پورے ہو رہے ہوتے ہیں یہ سب تفتیشی افسر بھول چکا ہوتا ہے۔ تفتیشی افسر ان کا تحت الشعور تک مرچکا ہوتا ہے کیونکہ ہمارا نظام ہی ایسا بن چکا ہے کہ اعلیٰ پولیس افسران تک کو معلوم ہوتا ہے کہ دورانِ تفتیش سبھی تفتیشی افسران ہر دو صورت میں مدعی یا الزام علیہ سے رشوت لیتے ہیں کیونکہ قتل کے کیس پر شاید بہ مشکل پچیس ہزار روپے ایک تفتیشی افسر کو ملتے ہیں۔ عمومی طور پر یہ پیسے تفتیشی افسر تک نہیں پہنچ پاتے بلکہ پہنچتے پہنچتے ان پیسوں کی گڈی کا وزن اتنا کم ہوچکا ہوتا ہے کہ تفتیشی افسر اپنے اندر اپنے افسران سے یہ پیسے لیتے ہوئے رشوت لینے جیسے احساسات پیدا کرچکا ہوتا ہے۔ اسی اوسط سے باقی جرائم کی تفتیش کے لئے تفتیشی افسران کو محکمہ کی جانب سے پیسے ملتے ہیں۔ شاید 2010ء میں وجاہت سے بھرپور مونچھوں والے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس کی زبانی معلوم ہوا تھا کہ لاہور میں ایک تھانہ چلانے کے لئے ایس ایچ او کو کم از کم ایک لاکھ پچیس ہزار روپے ماہانہ رشوت لینا پڑتی ہے اس لئے پولیس کے اعلیٰ افسران اس رقم کو رشوت نہیں سمجھتے بلکہ جو ایس ایچ او اس سے زیادہ پیسے لے تو اْسے بے ایمان سمجھا جاتا ہے۔ ایک کانسٹیبل سے لے کر اسسٹنٹ سب انسپکٹر تک کی تنخواہ، الاؤنسز کی شدید کمی، سرکاری رہائش کہ عدم موجودگی اور دیگر وسائل کے مسائل نے پولیس کے چھوٹے طبقے کو پیس کر رکھا دیا ہے۔ پولیس کا نظام ہی ایسا بنا دیا گیا ہے کہ بنا رشوت تھانے چلانا مشکل ہوگیا ہے۔ شاید ایک دہائی قبل کی معلومات کے مطابق لاہور کے تین درجن تھانوں کی عمارتیں کرائے پر لی گئی تھیں۔ صحت کی سہولیات کی کمی کی بدولت چھوٹے رینک کے پولیس اہلکاروں میں کئی طرح کی بیماریاں جنم لے چکی ہیں جن میں ہیپا ٹائٹس بی اور سی سرِ فہرست ہیں۔ ان پولیس اہلکاروں کو اپنے بچے پڑھانے کی سہولیت میسر نہیں ہوتی۔ اکثر اوقات ان کی ڈیوٹی گھر سے کوسوں دور ہوتی ہے اس لئے یہ پولیس اہلکاران اپنے بیوی بچوں تک کو وقت نہیں دے پاتے۔پیشہ ورانہ زندگی کے دوران جب کوئی پولیس اہلکار کسی ڈاکو کی گولی کا شکار ہوجائے تو میڈیا صرف اتنا رپورٹ کرتا ہے۔ ’ڈاکوؤں کی فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار جاں بحق‘۔ اس خبر کے بعد میڈیا سمیت کوئی ادارہ یہ پوچھنا گوارا نہیں کرتا کہ اس جاں بحق پولیس اہلکار کے بیوی بچوں پر کیا بیتی۔ اْنہیں پنشن جیسی جائز رقم کے حصول کے لئے کتنے دفاتر کے چکر لگانے پڑے اور کیسی کیسی نظروں کا سامنا کرنا پڑا۔ کاش ہم آج سے ہی ان چھوٹے رینک کے پولیس اہلکاروں کو محض انسان ہی سمجھنا شروع کردیں۔ کسی وقت بنا کسی غرض و غایت کے کسی چوک پر تپتی دھوپ میں کھڑے اہلکار سے اْس کی صحت کا ہی پوچھ لیں۔ اْسے پانی کی بوتل، کچھ پھل ہی دے دیں۔ اْسے سلیوٹ کریں کہ وہ دہائیوں سے ہماری حفاظت میں اپنی پھولوں جیسی زندگی کو زنگ لگا چکا ہے۔یقین جانیں چوک چوراہوں پر کھڑے پولیس اہلکار بھارت یا امریکہ کی پولیس سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ ہمارے اپنے بہن بھائی ہیں۔ محکمہ پولیس کے اعلیٰ افسران کو تفتیشی رقم سمیت چھوٹے رینک کے پولیس ملازمین کی تنخواہوں، الاؤنسز اور دیگر سہولیات کے متعلق واقعی ٹھوس اقدامات کرنے چاہیں تاکہ یہ محکمہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے اور ہمارے معاشرے میں انصاف کا بول بالا ہو۔