میرا ایک لنگوٹیا دوست، یونیورسٹی کا کلاس فیلو، بے تکلف بڈی، ایک دن حیران کُن انداز میں چڑیا گھر کے مین گیٹ سے برآمد ہوا تو ہم سمجھے شاید اس کے اندرونی جذبات کا ظاہر کی دنیا میں انکشاف ہو جانے کے بعد محکمہ جنگلی حیات والوں نے اسے کسی دلچسپ حیوانی، نفسانی موازنے کی غرض سے طلب کیا ہے۔ ویسے بھی دنیا بھر کے ماہرینِ نفسیات اس امر پہ متفق ہیں کہ اگر اس اشرف المخلوق کے باطنی مکاشفات، کبھی ظاہری جذبات کا بدن اوڑھ لیںتو روئے کائنات پر چڑیا گھر کم پڑ جائیں۔ چڑیا گھر کی بات چلے تو مجھے اپنی ایم اے کی وہ نٹ کھٹ کلاس فیلو بھی ضرور یاد آتی ہے، جو ہماری ایم اے اُردو کے بے تکلف گروپ کے ہمراہ حیرانی اور جولانی کے عالم میں اِس حیوانی پارک کی سیر کے دوران مجھے چھیڑنے کی غرض سے کہنے لگی: ’’سنو مسٹر! مَیں نے پتہ کروایا ہے، یہاں ایک پنجرا خالی ہے!‘‘ ہم نے بھی روا روی میں نمٹایا ۔ لیکن اپنے اس دوست سے تو اس دورۂ خیر سگالی کی بابت دریافت کرنے پر تو معاملہ ہی اور نکلا۔ ہم نے بے تکلفی کی پٹاری کھولتے ہوئے دریافت کیا: ’’ ابھی تک تمھارے چڑیا گھر، گڑیا گھر والے شوق ختم نہیں ہوئے؟‘‘ کہنے لگا:’’ یار! وہ بات نہیں‘‘ ’’پھر کیا مسئلہ ہے؟‘‘ ’’اصل میں مَیں جب بھی یہاں آتا ہوں تو تمھاری نہ ہو سکنے والی بھابھی سے ملاقات ہو جاتی ہے۔‘‘ ’’مطلب؟‘‘ ’’مطلب یہ کہ اُردو شاعری کے مطابق میری اس دلبر جانی کی آنکھیں ہرنی سے، چال کبکِ دری سے ، زلفیں ناگن سے، کھلے بال گھٹاؤں سے، کمر چیتے سے، رقص مور سے، کینہ اونٹ سے مشابہ ہے، اور اس وقت مَیں تمھاری بھابی سے بائی پارٹس مل کے آ رہا ہوں۔‘‘ بعض سیانوں کے نزدیک تو انسان اور حیوان میں بنیادی فرق حیا کا ہے، ویسے آپس کی بات ہے ’حیوان‘ میں ’حیا‘ کے سارے ہجے موجود ہیں، جب کہ انسان اور نسیان میں بہ ظاہر قریبی نسبت ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ گدھا، حماقت اور بے وقوفی کا استعارہ ہونے کے باوجود دیانت، استقامت کی زندہ مثال ہے۔مرغی گھر کی ہو یا فارم کی حضرتِ انسان کے پیٹ اور پلیٹ کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہی ہے۔ بکرے، چھترے، دنبے، اونٹ، ویہڑے، جھوٹے، گائے وغیرہ کو نسل در نسل قربانی کی بھینٹ چڑھتے چلے جانے کے باوجود شکوہ کناں نہیں دیکھا گیا۔ بھینس اپنی ساری کاہلی، سست روی اور بھولپن کے باوجود ہمیشہ خالص دودھ دیتی پائی گئی ہے۔ مدھو مکھی اپنی تمام تر تُندی، تیزی، تلخی، آوارہ پروازی کے باوصف انسان کو خالص اور نرویا شہد فراہم کرتی ہے لیکن یہ دونوں نعمتیں حضرت انسان کے ہتھے چڑھتے ہی اصلیت سے دُور جا پڑتی ہیں۔ جس زمانے میں مغرب کے نوابی مشغلوں سے عاری سائنس دان اپنے شب و روز، کیمیائی، زنگ آلود پُرزیائی لیبارٹریوں جیسی بور، بد بودار اور بک بکی جگہ پہ بسر کرتے تھے ان خوب صورت وقتوں میں ہمارے نازک مزاج شاعروں کو کوچۂ رقیب میں سر کے بل جانے، کسی اَن دیکھی حسینہ کے دربان کی خوشامد کرنے، سنگِ آستاں پہ سر پھوڑنے، محبوب کی ٹھوڑی کو غبغب، زلفوں کو سانپ، کمر کو دھوکا، قامت کو سرو، گردن کو صراحی، آواز کو شعلہ اور چال کو قیامت قرار دینے سے فرصت نہیں تھی۔ ایسے ایسے بادشاہوں کو ’شاہِ زمن‘ کی ویکسین پلائی جا رہی تھی، جن کو اینٹوں والے غسل خانے جانے کے لیے بھی انگریز پولیٹیکل ایجنٹ کی اجازت کی ضرورت ہوتی تھی۔ ایسے اقتدار کو ’مہرِ نیم روز‘ کی گھُٹی دی جا رہی تھی، جس کے بجٹ میں شوق سے منعقد کردہ مشاعروں میں بھی ڈھنگ سے موم بتی جلانے کا یارا نہ تھا۔ جو بادشاہ قبر میں ٹانگیں لٹکائے بیٹھے تھے انھیں عمرِ خضر اور ’ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار‘کا لارا لگا کے بیوقوف بنایا جا رہا تھا۔ مسجدوں مندروں میں دو وقت کی روٹی کے عوض ایسے بادشاہوں کے دائمی اقتدار کی منتیںمانی جا رہی تھیں، جن کے تخت اور تختہ میں ہائے ہوّز کی بجائے محض ہائے ہائے کا فاصلہ باقی تھا۔ میرے گاؤں اور امریکا میں بس اتنا فرق ہے کہ امریکا میں 1882ء میں بلب ایجاد ہوا تھا اور میرے گاؤں میں 1982ء میں بجلی آئی تھی۔ اس وقت میرے سائنسی اور دنیاوی علم سے بے نیاز، شاہی مزاج دادا جی کو متعدد شادیوں اور متفرق دادیوں کو درجنوں پوتے پوتیوں کے سپرد کر کے خاک اوڑھے صرف دو سال ہوئے تھے۔ بس کچھ ایسا ہی امتیاز وطنِ عزیز اور یورپ کا بھی ہے۔ لالہ بسمل کے بقول یورپ اور پاکستان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ یورپ ’ی‘ کی انتہا پسندی سے شروع ہو کے ’پ‘ سے پرواز میں مگن ہے اور پاکستان پاکیزگی کی ’پ‘ سے آغاز پانے کے باوجود ’ن‘ ، ’ق‘ کے بکھیڑوں سے نکونک ہوا ہوا ہے۔ پھر ماضی کا قصہ بھی آپ سب کو معلوم ہے کہ جس زمانے میں یورپ میں ریڈیو، ٹیلی فون ، ریلوے، ٹیلی وژن، ہوائی جہاز ایجاد ہو رہے تھے، ہمارے بے دھڑک شعراء ہزار ہزار شعروں پہ مشتمل لامیہ، نونیہ، میمیہ قصیدوں کی بُنتر میں پوری نمک حلالی کے ساتھ مگن تھے۔ فکر اس بات کی تھی کہ کہیں کوئی سمعی، بصری، اثری، قولی، فعلی، جعلی، صوتی قافیہ، قیافے کے حدود اربعے سے باہر بھٹکتا رہ گیا تو ریاستِ خیالی کے والی کو کیا منھ دکھائیں گے؟ انیسویں صدی کے نصف میں لکھنو کے نواب شاہی محلات میں راجا اِندربنے کہیں تیتروں، بٹیروں، مرغوں کے جنگجو سپہ سالاروں جیسے نام رکھے اپنے زمانے کا مردِ میدان قرار دینے میں مصروف تھے اور کہیں شاہی محلات میں ’رادھا کنہیا‘ نامی ناٹکوں میں کنہیا کا رُوپ دھارے کئی کئی درجن رادھاؤں کے ساتھ من پرچانے کا ڈراما کر رہے تھے کہ ان کے ساتھ 1857ء والا حقیقی ڈراما ہو گیا۔ آج اس ارضِ وطن سے اٹوٹ محبت کرنے والے اپنے اس جنت نظیر ملک کا موازنہ دنیا کی کم عمر ریاستوں سے کرتے ہیں تو ان کے آنسوؤں کی لکیریں غریب آدمی کی حسرتوں کی طرح طویل ہوتی جاتی ہیں۔ پون صدی کے بعد بھی یہاں اقتدار کے بھونڈے ڈرامے کھیلے جا رہے ہیں۔ جب چار ماہ کا یہ ناکام سیریل ہمیں چار ہزار ارب میں پڑنے والا ہے۔ اس وقت بھی سیاسی پارٹیاں اپنے کٹ کھنے مشیروں، وزیروں کی زبانوں سے نکلنے والی آگ کو اپنی کارکردگی سمجھ رہی ہیں ۔ کیا ہم بھی خدا نخواستہ کسی نئے ڈرامے کی راہ دیکھ رہے ہیں؟