ٹیکس دینا کسے اچھا لگتا ہے۔ جی چاہتا ہے آمدن ہوتی رہے اور بے حساب ہوتی رہے ۔ میری کمائی میں سرکار کا حصہ کیوں ہو؟سرکار مجھے دیتی ہی کیا ہے۔ نہ صحت ، نہ میرے بچوں کی تعلیم ، نہ میری جان و مال کی حفاظت کا ذمہ،نہ تفریح کے معیاری مواقع نہ بنیادی سہولیات اور نہ ہی ترقی کے امکانات۔ ایسے میں سرکار ٹیکس کی حقدار ہے تو نہیں لیکن پھر بھی ، براہ راست ٹیکس کی مد میں وہ مجھ سے اچھا خاصہ اینٹھ ہی لیتی ہے۔ سرکار جو ہوئی۔ اب ٹی وی لائسنس فیس ہی کو دیکھ لیں۔ اس میں کوئی قباحت نہیں اگر میرے گھر میں چار ایل سی ڈی ہر بیڈروم اور لاونج میں لگے ہوئے ہیں اور سارا سارا دن بلا وجہ چلتے رہتے ہیں۔کون سرکاری اہلکار میرے گھر آکر ٹی وی گن رہا ہے۔ مجھے تو وہی پینتیس روپے سکہ رائج الوقت یا جتنا بھی وہ ہے، بھرنا پڑتا ہے۔اچھی خاصی بچت ہوجاتی ہے۔یہ ٹیکس تو اس بیچارے امام مسجد کو بھی دینا پڑتا ہے جس کے حجرے میں سرے سے ٹی وی ہی نہیں ہے۔ سرکار کا انصاف سرکار جانے۔ پہلے بھلے زمانے تھے بجلی کے بل بھی فکس ہوجایا کرتے تھے۔ مزے سے دن رات اے سی چلاتے تھے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ بارہ بارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ کا البتہ کوئی علاج نہیں تھا۔ اب بجلی بھی پوری آتی ہے اور بل بھی۔کہیں ایڈجسٹمنٹ ہو نہیں پارہی۔ ہاں جس بھری پری مارکیٹ میں میری چار دکانیں ہیں، وہاں کنڈا سسٹم خوب چلتا ہے۔ بل آتا ہی نہیں یا برائے نام آتا ہے۔ جو آتا ہے وہ ہم مل بانٹ کر آپس میں تقسیم کرلیتے ہیں۔ اچھا گزارا ہوجاتا ہے۔ میرابھائی ایک مصروف بازار میں پھلوں کی ریڑھی لگاتا ہے۔ یہ وہ مثالی غریب آدمی ہے ، پولیس جس کا ریڑھا الٹ کر چلی جاتی ہے، مفت میں پھل کھا جاتی ہے اور بلاوجہ جرمانے لگا دیتی ہے۔ ان دنوں ذرا سختی ہے ۔پلاسٹک بیگز اور ڈی پی او ریٹ لسٹ کی چیکنگ ہوتی ہے اور دونوں پہ جرمانہ ہوتا ہے۔میرا بھائی منڈی سے پھل اٹھاتا ہے۔ڈی پی او ریٹ ائیر کنڈیشنڈ دفتروں میں اہلکار بناتے اور وہیں سے تقسیم کردیتے ہیں۔منڈی والے من مانی کرتے ہیں۔ان پہ چیکنگ کا ایک ہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ انسپکٹر کا ماہانہ بڑھا دو۔ منڈی والے یہی کرتے ہیں۔وہ آنکھیں اور مٹھی بند کرلیتا ہے۔ میرا بھائی اسی ریٹ پہ فروٹ اٹھاتا اور من مانے منافع پہ بیچتا ہے۔ عوام کو اول تو ریٹ لسٹ کا پتا ہی نہیں ہوتا۔کوئی سرپھرا پوچھ بھی لے تو وہ کچھ ایسے جواب دیتا ہے۔ ریٹ لسٹ بھائی کے پاس ہے اور وہ نماز پڑھنے یا کھانا کھانے گیا ہوا ہے۔یہ اور بات ہے ہ اس کا بھائی انار کلی میں چار دکانوں کا کھاتہ بٹھانے کے چکر میں ایف بی آر اہلکار کے ساتھ چائے پانی کررہا ہے جس نے بیس لاکھ کا ٹیکس چالان پکڑا دیا ہے۔ معاملہ دو لاکھ میں ڈن ہوجائے گا اللہ اللہ خیر صلا۔اسی طرح ان روز افزوں کاروباروں کا آپس میں بھی کوئی تعلق نہیں۔کوئی مائی کا لال ثابت نہیں کرسکتا کہ یہ دکانیں ان کی ہیں۔ ٹیکس دینے کے لئے ایک الگ کاروبار کھول رکھا ہے۔آج کل سختی بہت ہے نا۔نئے ماڈل کی گاڑی لئے گھومتے ہیں اور ایف بی آر آخرت والے سوال دنیا میں کرنے لگی ہے۔یعنی مال کہاں کمایا اور کہاں لگایا۔ اگر کماتے نہیں تو دو کنال کے گھر اورنئے سال کی گاڑی کیسے رکھی ہوئی ہے۔زندگی عذاب بن گئی ہے۔اب کیا بندہ کاروبار نہ کرے۔ایک اور دوست نے جو گڑھی شاہو میں چھوٹی سی دکان کرتے تھے،کل جمع پونجی جو لاکھوں ڈالر میں بنتی ہے، سونے کی شکل میں ہانڈی میں بھر کے صحن میں دفنا دی ہے اور خود اس پہ ناگ بن کے بیٹھ گئے ہیں۔ملک الموت لے جائے تو لے جائے ، سرکار کیوں لے جائے۔بھلا زمانہ تھا جب ہم آمدنی چھپانے کے لئے این جی اوز کھول لیتے تھے۔ فنڈنگ آتی رہتی تھی۔ آڈٹ بھی ڈھیلا ڈھالا ہوجاتا تھا۔ سرکار الگ دباو میں رہتی تھی۔ٹیکس ٹھکانے لگتا رہتا تھا۔ ظالم سرکار نے آتے ہی یہ دھندہ بھی بند کردیا۔ اب کیا بندہ خدمت خلق بھی نہ کرے۔ ٹیکس دینے کے لئے ہم ہی رہ گئے ہیں۔کیا ہوگیا جو صرف چارلاکھ تاجر ٹیکس دیتے ہیں۔ بڑے کاروباری گروپوں میں سے پانچ فیصد ہم سب کا بوجھ اٹھا تو رہے ہیں۔ شناختی کارڈ کی شرط لگا کر ہمیں کیوں اس خواری میں حصہ دار بناتے ہو۔اب ہم کاروبار کریں یا تفتیش کرواتے رہیں۔یہ بیوپار ہے کوئی نکاح تھوڑی ہے کہ لکھت پڑھت ضروری ہو۔ودہولڈنگ ٹیکس بڑھا کر سرکار نے اچھا نہیں کیا۔ خالص منافع پہ ٹیکس لینے کی بجائے کل منافع پہ ٹیکس کی کیا تک ہے بھلا۔ہم امپورٹ پہ ٹیکس دیتے ہیں کیا و ہ کافی نہیں ہے ۔ اب وہ ٹیکس سرکار تک نہیں پہنچتا تو اپنے بندے ٹھیک کرے۔ہم تو معاہدے کے مطابق جس کا جتنا بنتا ہے پہنچا دیتے ہیں۔آگے وہ جانیں سرکار جانے۔اب یہ کیا کہ سالانہ بنیاد پہ ٹیکس ریٹرن، ششماہی بنیاد پہ ودہولڈنگ ریٹرن اور ہر ماہ سیلز ٹیکس ریٹرن جمع کرواتے پھریں۔ ہم ان جھنجھٹوں میں پڑ گئے تو کاروبار کب کریںگے۔ سرکار ہمارے بچوںکو نہ تعلیم دیتی ہے نہ تفریح،مجبورا ہمیں اس کا انتظام بیرون ملک کرنا پڑتا ہے۔ان کا کیا ہوگا؟ایسے نہیں چلے گا سرکار۔ہاں کراچی میں ہم بھتے دیتے رہے۔لاکھوں نہیں اربوں کے بھتے۔تو وہ ہم بچوں کی جان کا صدقہ سمجھ کر دیتے تھے۔مجال ہے جو کوئی ہمارے کاروبار اور زن بچہ کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے۔ ٹیکس البتہ ہم مارے باندھے ، گوشوارے ٹھیک ٹھاک کرکے تھوڑا بہت دے دیا کرتے تھے۔یہی حال لاہور میں تھا۔ سابق وزیر اعلی نے، اللہ ان کی مشکلات آسان کرے،باقاعدہ ٹیکس فورس بنا رکھی تھی جو ایسے وصولیاں کرتی تھی جیسے بینک والے اپنے نادہندگان سے۔مجال ہے جو ہم نے کبھی چوں بھی کی ہو۔ ہر ماہ خاموشی سے ہتھیلی پہ دھر دیا کرتے تھے۔اب اگر یہ وصولیاں ریوینیو میں نظر نہیں آتی تھیں تو خادم اعلی سے پوچھو۔ہم نے تو لین دین میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔اب بھی یہی نظام چلتا رہے تو کیا برا ہے بھائی۔ کاہے کو مہذب دنیا کے نقش قدم پہ چلنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے ایف بی آر ، نادرا اور اسٹیٹ بینک کو زحمت دیتے ہو۔ٹیکس اینٹھنے کے لئے تنخواہ دار طبقہ ہے نا،جس کی نہ آمدنی بڑھتی ہے نہ اثاثے۔ جسے جی ایس ٹی اور ودہولڈنگ کے علاوہ وہ انکم ٹیکس بھی دینا ہے جو اس کی تنخواہ میں سے پہلے ہی منہا کرلیا جاتا ہے۔ہم درویشوں کو کیوں ستاتے ہو۔