پاکستان میں ایسے عظیم دانشور بھی موجود ہیں جن کا خیال ہے کہ جس دن اس ملک میں ان کے محبوب مشروب سے نام نہاد ہی سہی،سرکاری پابندی اٹھ گئی، مملکت خداداد میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی جن میں گردن گردن غرق راوی چین ہی چین لکھے گا اور جس دن جابجا مے خانے کھل گئے وہاں ساقی سمیت ہر دو ٹکے کا مے خوار دانش کے موتی رولتا پھرے گا۔جس دن عیش و نشاط کے مخصوص اڈے معاف کیجیے گا میں اپنی دقیانوسی تربیت کے ہاتھوں یہ لفظ استعمال کرنے پہ مجبور ہوں ورنہ مجھے عیش و نشاط کے مراکز لکھنا تھا، ہر گلی کے کونے پہ قائم کردئیے جائیں گے اسی دن اس قوم کی بدحالی، جہالت اور تنگ نظری پچھلے دروازے سے منہ چھپاتی رخصت ہوجائے گی ۔ اس تمہید غیر دل پذیر کا پس منظر بھی سن لیجیے۔ وزیر اعظم بننے سے قبل ہی عمران خان خیبر پختونخواہ میں دور دراز سیاحتی مقامات دریافت کرتے اور دنیا بھر کو سیاحت کی دعوت دیتے نظر آتے تھے۔ گزشتہ روزدبئی میں ورلڈ گورنمنٹ سمٹ میں بھی انہوں نے پاکستان میں سیاحت کے روشن امکانات اور معیشت میں اس کی حصہ داری پہ زور دیا جس سے اس مخصوص میدان میں ان کی دلچسپی اور سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔عمران خان کافی عرصے سے اس پہلو پہ کام کررہے ہیں اور انہیں اندازہ ہے کہ ماضی میں پاکستان کی سیاحتی انڈسٹری سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھایا جاتارہا اور اس کااظہار وہ وقتا فوقتا کرتے رہے ہیں۔ایسے ہی ایک بھلے روز ، وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان میں سیاحت کے فروغ سے متعلق اعلان کیا اور یار لوگوں کو فکر پڑ گئی کہ ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں ،کھائیں گے کیا؟ سیاحت تو نام ہی سیر وتفریح کا ہے، خوش وقتی کا ہے اور عیش و عشرت کا ہے۔ ایسے روکھے سوکھے دیس میں جہاں ہر پرائی عورت کاٹ کھانے کو دوڑتی ہو،مشروب کے نام پہ سوائے سافٹ ڈرنک اور لسی کے کچھ کھلے عام دستیاب نہ ہو اور پہلو گرم رکھنے کا کوئی معقول انتظام نہ ہو وہاں سیاحت جیسی عیاشی بھی نری مشقت بن کے رہ جائے گی۔یہ موسم یہ مست نظارے اس لئے تو نہیں کہ ان سے آنکھیں سینک کر ٹھنڈے ٹھنڈے گھر واپسی کی راہ لی جائے ۔خنک موسم میں خشک سیاحت بھلا کس کام کی۔ سیاح نکاحی بندشوں سے پنڈ چھڑا کے سرسبز وادیوں میں مٹر گشت کرنے اور بہتے ہوئے پانی میں اپنا عکس دیکھنے تھوڑی آتا ہے؟ جہاں مسافر کی راہ میں دیدہ و دل فرش راہ کئے قدم قدم پہ عفیفائیں نہ لوٹتی پھریں، حیف ایسی سیاحت پہ۔یہ نظریہ اگر واقعتاً سنجیدگی سے پیش کیا گیا تھا تو مجھے حیرت ہے اور اگر ازراہ تفنن محض اپنی خواہشات کا بے حجابانہ اظہار تھا تب افسوس کہ کسی بندہ مومن کا چہرہ ایسی بے باکی پہ سرخ کیوں نہ پڑا۔ان گنت توپوں کی سلامی کے بعد عرض ہے کہ وہ سرمائے کی نفسیات سے واقف ہی نہیں ہیں۔ اگر انسانی زندگی کے بعد کوئی شے اپنی بقا کی جنگ نہایت کامیابی سے ہر قسم کے حالات میں لڑ سکتی ہے تو یہی سرمایہ ہے۔سرمائے کو خوب علم ہوتا ہے کہ اسے اپنا راستہ کیسے بنانا ہے۔آپ نے دیکھا کہ قیمتی شیمپواور آرائش گیسوکے لوازمات کس طرح مارکیٹ میں پھیلائے گئے اور ہر عورت نے حسب توفیق انہیں اپنا لیا۔ بے پردگی کا ایک طوفان پبا کیا گیا تاکہ آرائش حسن کے لوازمات کی منڈی ترقی کرسکے۔اس کے باوجود حجاب کرنے والیوں نے حجاب ترک نہ کیا۔سرمائے نے یہاں بھی سرنگ لگا لی اور ایسے شیمپو مارکیٹ میں آگئے جو حجاب والیوں کے لئے مخصوص تھے یعنی ایسے شیمپو جو سارا دن حجاب لینے کے باعث پیدا ہونے والی نمی اور خشکی کا خاتمہ کرسکیں۔لیجیے ایک اور انڈسٹری کھڑی ہوگئی اور تو اور پردہ خود ایک صنعت بن گیا۔ بڑے بڑے برانڈ حجاب بنانے لگے۔اسٹیٹس کی ایک دوڑ شروع ہوئی اور باحجاب خواتین اپنے قیمتی عبایا سمیٹے اس میں شریک ہوگئیں۔سرمایہ پھر جیت گیا۔یہی حال سیاحت کا ہے۔دنیا بھر کے مسلمانوں کی بڑی تعداد جو سیاحت کے لئے یورپ اور جنوبی ایشیائی جزائر کا رخ کرتی ہے، سرمائے کی نظرکرم سے محروم کیسے رہ سکتی ہے لہٰذا ایک متوازی انڈسٹری حلال سیاحت قائم کی گئی تاکہ مسلم سیاحوں کو ان کی مذہبی تعلیمات کے مطابق سہولیات فراہم کی جائیں اور آبادی کا ایک بڑا حصہ بددل ہوکر اس صنعت میں حصہ ڈالنے سے انکار نہ کردے۔ حلال سیاحت کے زیر اہتمام سیاحتی مقامات میں ہوٹل نہ صرف ممنوعات فراہم نہیں کرتے بلکہ حلا ل کھانے اور نماز کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔خواتین اور مردوں کے لئے علیحدہ ساحلوں اور پیراکی کے مقامات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔لندن میں2007ء میں ورلڈ ٹریول مارکیٹ میں یورو مانیٹر انٹرنیشنل رپورٹ پیش کی گئی جس میں مشرق وسطی میں حلا ل سیاحت کے بھرپورامکانات کا انکشاف کیا گیا اور تجویز پیش کی گئی کہ حلال سیاحت کے فروغ کے لئے ایسی پروازیں شروع کی جائیں جن میں شراب اور سور کا گوشت ممنوع ہواور مر دو خواتین کے لئے علیحدہ کمپارٹمنٹ ہوں چناچہ دنیا بھر میں حلال سیاحت کا آغاز ہو ا اور ہوٹلوں نے حلال ذبیحہ اور نمازوں کا اہتمام شروع کیا۔ایک رپورٹ کے مطابق صرف 2014 ء میں حج اور عمرہ کے علاو ہ مسلمانوںنے سیاحت پہ چین اور امریکہ کے بالترتیب 160 اور 143بلین ڈالر کے مقابلے میں 142بلین ڈالر خرچ کئے اور سیاحت کے کل عالمی اخراجات کا گیارہ فیصد رہے۔گلوبل مسلم ٹریول انڈیکس کے مطابق مسلمانوں نے سیاحت کی مد میں عالمی جی ڈی پی میں 156 بلین ڈالر کا حصہ ڈالا جو 2020 ء تک 220 بلین ڈالر ہوجائے گا اور اس کی بڑی وجہ دنیا بھر میں حلال سیاحت کا فروغ ہے۔دنیا کے تمام مغربی ممالک مسلمانوں کی اس بڑی تعداد کو راغب کرنے کے لئے حلال سیاحت کی تنظیمیں بنا رہے ہیں ۔جاپان، جنوبی کوریا، انڈونیشیا،ملائیشیا اور دیگر سیاحتی ممالک مسلم دنیا سے آنے والے اس سرمائے کو لپکنے کے لئے ایوارڈز اور مقابلے منعقد کروارہے اور بجٹ کا بڑا حصہ مختص کررہے ہیں اور یہاں کچھ دانشوروں کا سوال ہے کہ شراب وشباب کے ہنگامے کے بغیر پاکستان میں سیاحت کیسے پنپ سکتی ہے۔کوئی ان سے پوچھے کہ اگر سیاحت اسی عیش ناو نوش کا نام ہے تو یورپ کے سیاح کو اپنی جنت چھوڑ کر پاکستان کے خشک شمالی علاقہ جات میں آن مرنے پہ کون مجبور کرتا ہے۔