ایک قول حضور نبی کریمﷺ سے منسوب ہے کہ مری امت کسی غلط بات پر متفق نہیں ہوتی۔ میرے خیال میں سچی جمہوریت کے حق میں اس سے مضبوط دلیل اور کیا ہو سکتی ہے۔ ترکی کے اسلامی مفکر ہیں۔ انہوں نے ایک اور حدیث کی ایک بہت خوبصورت تعبیر کر رکھی ہے۔ عام طور پر ہمارے ہاں اس قول نبیؐ کو اس کی روح کے مطابق نہیں سمجھا جاتا ہے مگر آزاد ترک فضائوں میں پروان چڑھنے والا یہ دانشور اس کے کیا خوبصورت معنی بیان کرتا ہے۔ انھوںنے کہیں لکھ رکھا ہے کہ یہ جو حدیث مبارکہ ہے کہ جیسے لوگ ہوتے ہیں‘ ہم اس پر ویسے ہی حکمران مسلط کر دیتے ہیں۔اس آزاد منش دانشور نے بیان کیا کہ جمہور کے معنی ہے جھاگ۔دودھ کے اوپر جو مکھن نکلے گا وہ اس دودھ کی ترجمانی کر رہا ہو گا۔ جیسا دودھ ہو گا ویسی اس کے اوپر یہ جھا گ یامکھن۔اس لئے جمہوریت کی شان اس قول نبیؐ کے مطابق ہی بنتی ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے ان کی روح کے مطابق ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ بہترین بھی ہوتے ہیں۔ یہ سب باتیں میں ان لوگوں کے لئے لکھ رہا ہوں جن کو یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ اسلام کا نظام سیاست اور جمہوریت کا کوئی میل نہیں۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسلام میں سارے اختیار حاکم اعلیٰ کو حاصل ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں نواز شریف اسلام کا نام لیتے تھے‘ مگر انہوں نے بھی جب شریعت بل پیش کرنا چاہا تو یہ تصور کر کے کہ ہمارے نظام میں خلیفہ حاکم مطلق ہو تا ہے‘ کچھ ایسی شقیں رکھیں جن کے بارے میں عام طور پر یہ سمجھا گیا کہ یہ اسلام کی جمہوری روح کے منافی ہیں اور خاص آمرانہ ہیں۔یہی نتیجہ ہے کہ یہ بل پاس نہ ہو پایا اور نواز شریف کی حکومت نے بھی اس پر اصرار کرنا ضروری نہ سمجھا۔دراصل یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان کے اسلامی حلقوں پر سعودی فکر کا غلبہ تھا چنانچہ بعض لوگوں کے خیال میں ضیاء الحق کے زمانے سے ہمارے ہاں جو اسلامی قوانین نافذ کرنے کی کوشش کی گئی وہ اسی فکر کے نمائندہ تھے۔ یہ فکر بھی کوئی آسمان سے نہیں ٹپکی۔ وہاں امام احمد بن حنبل کا مسلک حاوی ہے۔ ان کے بعد امام ابن تیمیہ اور آخر میں امام محمد بن عبدالوہاب کی تشریحات رہنما ہیں۔ ان سب پر ہماری جان بھی فدا مگر یہ سب سعودی مزاج کے قریب ہے‘ ان کے طرز حکمرانی کو بھی مناسب ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس دور میں رائج بہت سے اسلامی قوانین ہمارے ہاں اپنی روح کے مطابق نافذ نہ ہو سکے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں دین پر غالب قوتیں وسط ایشیا سے آئیں بلکہ اس پر خلافت عثمانیہ کے اثرات غالب ہیں۔ ہمارے فقہ‘ ہمارا تصوف‘ ہماری ثقافت‘ ہمارے کھانے‘ ہماری عادات سب ادھر سے آئیں ہیں۔حتیٰ کہ ہماری زبان کا نام بھی ترکی زبان سے ما خوذ ہے۔ ترکی زبان میں اردو کا مطلب لشکر ہے۔اسلامی دنیا میں تین عناصر غالب رہے۔ ایک عرب اشرافیہ خلیفہ کی صورت میں‘ دوسرے ایرانی بیورو کریسی اپنی کئی شکلوں میں اور تیسری ترک فوج‘ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارا مزاج جمہوری بھی ہے اور عسکری بھی۔ ہمارا فقہ حنفی‘دینی مزاج صوفیانہ‘ کھانوں میں پلائو قورمہ یہیں سے آئے۔وسط ایشیا میں شاید تاشقند میں ایک مسجد غالب کے نام پر بھی ہے۔ جی ہاں‘ ہمارے شاعر کے نام پر ،مختصر بات یہ ہے کہ ہمارے دور آخر میں بھی جس شخص نے ہمارے مزاج کا تعین کیا وہ شاہ ولی اللہ تھے جن کا یہ قول ہے کہ دین جہاں جاتا ہے وہاں کے مقامی اداروں کے ذریعے نفوذ کرتا ہے۔ اقبال نے تو یہ تک کہا کہ دوسری صور ت میں خطرہ ہے کہ ہم کہیں عرب ملوکیت کو اسلام کے نام پر رائج نہ کر بیٹھیں۔ میں یہاں بچ بچ کر بہت سی باتیں کر رہا ہوں۔ زیادہ گہرائی میں کسی مصلحت دینی کی وجہ سے نہیں بلکہ سیاسی مصلحتوں کی بنا پر اجتناب کر رہا ہوں۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ اس وقت ایسے دین دار لوگ بھی موجود ہیں جو جمہوریت کو نظام کفر کہتے ہیں۔ یہ کوئی ایرے غیرے نہیں بلکہ ایک بڑی تحریک کالعدم حزب التحریر والوں کا فلسفہ ہے۔ایک زمانے میں ہمارے ہاں بھی اس طبقے کا بڑا چرچا تھا۔ ان میں کئی پڑھے لکھے نوجوان بھی شامل تھے جو مثال کے طور پر برطانیہ کی یونیورسٹیوں سے پڑھ کر آئے تھے۔ صاف اردو بھی بول نہ سکتے تھے مگر اسلام کے شیدا۔ اب میں ان پر مزید تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔ ہمارے ہاں البتہ یہ فکر غالب رہی کہ اسلام کا شورائی نظام جمہوریت کی روح کے مطابق ہے۔ اس میں سید مودودی بھی پیش پیش تھے۔ جنہوں نے مجتہدین کی جو فہرست تیار کی ان میں امام ابن تیمیہ ؒ بھی تھے۔ تاہم برصغیر میں آتے آتے وہ مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ کی فکر کے معتقد تھے۔اس نے انہیں بھی اپنے تہذیبی سرچشموں سے دور نہیں ہونے دیا۔ یہ باتیں جانے میں کیوں لکھ رہا ہوں اس لئے کہ مجھے خدشہ ہے کہ کہیں ہم بہک نہ جائیں۔ ہمارے ہاں آج بھی ریاست مدینہ کا چرچا ہے مگر ہم نہیں جانتے کہ وہ کیسے لوگ تھے جنہوں نے صحرائوں سے نکل کر روماکی سلطنت کو الٹ دیا تھا۔اس وقت دنیا میں دو ہی سامراجی طاقتیں تھیں۔ ایک عیسائیوں کی سلطنت روما اور دوسری ز ر تشتیوں کی حکومت ایران۔ یہ تاریخ کا ایک خوبصورت مطالعہ ہے جو بتاتا ہے کہ ان سامراجیوں کی رعایا نے کیوں اسلام کو قبول کیا۔ نہ صرف قبول کیا بلکہ اسے اپنا لیا۔دنیا میں اور بھی بڑے بڑے حملہ آور ہوئے ہیں۔مثال کے طور پر چنگیز خان ہی کا چرچا ہے مگر کسی قوم ‘ کسی تہذیب اور کسی ملت نے انہیں شکست کھانے کے باوجود قبول نہ کیا۔ ایچ جی ویلزسے مجھے اس کے کئی فقروں کی وجہ سے چڑ ہے ،مگر وہ بھی کہتاہے کہ اسلام اس لئے پھیلا کہ یہ اس زمانے کے تقاضوں کے مطابق تازہ ترین سیاسی نظام تھا۔مسلمان جہاں بھی گئے انہوں نے انسانوں کو انسان سمجھا‘ چور ڈاکو اور لٹیرے نہ سمجھا۔اگر کہیں یہ گمان بھی ہوا کہ ان کی غیر مسلم رعایا پر کسی طور پر زیادتی ہو رہی ہے تو ان کی سہولت کی خاطر قوانین بدل ڈالے۔ میں آج کل اکثر مثال دیا کرتا ہوں کہ مدینے کی ریاست کی بنیاد جس دستاویز پر رکھی گئی اسے میثاق مدینہ کہتے ہیں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انسانوں کی تاریخ میں پہلا تحریری دستور تھا۔ اس میثاق مدینہ کا پہلا فقرہ یہ ہے کہ مسلمان اور غیر مسلم (یہودی اور عیسائی وغیرہ) امت واحدہ ہیں۔ ذرا تصور کیجیے پہلا اصول ہی کیا ہے۔اس کا اگلا فقرہ یہ تھا کہ وہ اپنے مذہب میں آزاد ہیں اور ہم اپنے مذہب میں۔ یہاں مذہب کی بنا پر مختلف ہونے پر پکڑ نہ تھی‘ وہاں چھوٹے موٹے سیاسی اختلاف کے پیش نظر کوئی مخاصمانہ رویہ کیسے ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں نے کمال رواداری کا مظاہرہ کیا اور حتیٰ الامکان کوشش کی کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو اور فساد فی الارض نہ پھیلے۔کیا ہم اس وقت سوچ سکتے ہیں کہ ہم اس پر عمل کر رہے ہیں۔ ہم اینٹ کا جواب پتھر سے اور وار کے مقابلے میں وار کی فلسفہ پھیلا رہے ہیں۔ سچ پوچھیے کہ ہر روزتکلیف ہوتی ہے مگر حالیہ انتخابی معرکے کی ذیل میں شبلی فراز کا بیان پڑھ کر بڑی تکلیف ہوئی۔ اس تکلیف کی کئی وجوہ ہیں۔ جب کوئی کہتا ہے تم قانون توڑوں گے تو ہم بھی گویا ایسا کریں گے تو یہ بات یقینا تشویش ناک ہے۔ جب شاہد خاقان عباسی‘احسن اقبال وغیرہ پر حملے کے جواب میں ایسا کیا گیا تو میں نے سوچا ہو گا کہ یہ تشدد کا فوری ردعمل ہے اور فطری ہی ہو گا۔ جلد ہی بات سنبھل جائے گی اور آخر دونوں طرف سے سنبھل گئی مگر یہ تو بات بہت بڑھ گئی ہے۔ برا نہ منائیے کیا ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جانے کی تیاریاں ہیں۔ ایسا نہیں تو کیا مارشل لاکو دعوت دی جا رہی ہے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ اس زمانے میں مارشل لاء کا مطلب کیا ہو سکتا ہے۔وہ زمانے چلے گئے اب اس کا مطلب مزید تباہی ہے۔ ملک پہلے ہی بہت پیچھے رہ چکا ہے۔ خیال آتا ہے کبھی اس بات پر غور کروں کہ ہمارے ساتھ کیا ہوتا ہے کہ ٹھیک ٹھاک آگے بڑھتے ہوئے اچانک پٹڑی سے اتر جاتے ہیں۔ کیا کسی کو اندازہ ہے کہ اس وقت بھی آگے یا کہیں قابو میں آ جائیں تو بھی ہم کم از کم پانچ سا ت سال پیچھے رہ چکے ہیں۔دنیا کی کوئی طاقت ہمارے اس نقصان کا تدارک نہیں کر سکتی۔اعداد و شمار پیش کر کے عرض کرتا آیا ہوں کہ ہم مقابلے کے اس عہد میں مسلسل پیچھے رہتے جا رہے ہیں کوئی معجزہ ہی ہو جب اب نہیں ہو سکتا۔ چلیے کوئی کرامت ہو جائے کہ ہم اپنے راستے پر چل سکیں۔وگرنہ ہم بہت کچھ گنوا بیٹھے ہیں۔ ہم تو اپنی زندگیوں میں بدلے ہوئے پاکستان کے خواب دیکھ رہے تھے مگر سب کچھ خواب و خیال ہوتا جا رہا ہے۔