گڈ گورننس کی ویسے تو بہت سی تعریفیں ہیں لیکن آسان لفظوں میں اگر بیان کیا جائے تو اچھی انتظامی استعداد کو بروئے کار لانے کے لئے کسی بھی حکومت یا ادارے کو دو چار صلاحیتوں کی ضرورت پڑتی ہے جس کے بعد دوسرے معاملات خود ہی اپنی جگہ بنا لیتے ہیں اور پھر حکومت یا ادارے کی گاڑی درست سمت پر چل پڑتی ہے۔ کار حکمرانی بھی چند عوامل یا خصوصیات پر انحصار کر کے بہتر او ر منظم ہوتا ہے۔ اگر ہم ان تین پر ہی اکتفا کرلیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ شفافیت ‘ احتساب اور قانون کی عملداری۔ حکومتوں کا فرض ہے بلکہ ان سے تقاضا ہے کہ وہ اپنے تمام کاموں کو فہرستاً عوام کے سامنے پیش رکھیں اور اگر ان کاموں سے متعلق جواب طلبی کا مطالبہ کیا جائے تو بغیر تامل اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کر دیں۔ اسی طرح ملک میں قانون کے نفاذ کے ذریعے اس کی بالا دستی کو یقینی بنانا بھی گڈ گورننس کا اہم جزو ہے۔ جیسا کہ ذکر کیا یہی تین عوامل ہیں جن پر عمل کر کے نہ صرف حکومتیں بلکہ نجی یا حکومتی ادارے ترقی کر سکتے ہیں۔ یہ جاننا عوام کا حق ہے کہ حکومت جو رقم اندرونی و بیرونی قرضوں کی مد میں لیتی ہے اسے کہاں اور کس انداز میں خرچ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح عوام کو حکومت کے تحت چلائے جانے والے منصوبوں کی درست لاگت‘ منصوبہ بندی اور اس سے حاصل ہونے والے نتائج سے مطلع کیا جانا چاہیے۔ ابھی تک پاکستانی عوام چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ نہیں۔ ایک وقت تھا جب اس بارے بہت شور اٹھایا گیا۔ بلکہ مسلم لیگ ن کے دور میں پی ٹی آئی اور دیگر جماعتیں و گروپ اس راہداری کے معاملات میں شفافیت کا مطالبہ کرتے رہے۔ آج بھی اس معاملے میں بہت سے راز مخفی ہیں۔ ویسے تو حکومت وقت اپنی کارکردگی کے گوشوارے شائع کرتی رہتی ہے لیکن عوام کو ان تک رسائی کے لئے بہت کم انتظامات کئے گئے ہیں حالانکہaccess to information act کے پاس ہونے کے بعد عام آدمی بھی حکومتی گوشواروں تک پہنچ سکتا ہے لیکن اس معاملے میں عدم واقفیت کی وجہ سے یہ دستاویزات الماریوں کی گرد کے حوالے ہو جاتی ہیںیہاں تک کہ کسی صحافی کی ان پر نظر پڑ جائے۔ چونکہ تحقیقی صحافت بھی تقریباً دم توڑ گئی ہے اس لئے اہم معاملات پر تحقیقی پروگرام کرنے یا لکھنے کی بجائے روائتی معلومات سے استفادہ کر کے کام چلایا جاتا ہے‘ سانپ بھی مر جائے لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور بات بھی کر دیں۔ بہرحال اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان میں کچھ بھی درست نہیں ہو رہا یا یہ کہ گڈ گورننس کسی بھی جگہ نافذ العمل نہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پچھلی ایک دہائی میں سرکاری اور نجی اداروں میں گڈ گورننس کے رجحانات میں بہت اضافہ ہوا۔ اس کی مثل اس سے لیجیے کہ کیمبرج انٹرنیشنل فنانس ایڈوائزری (کیمبرج آئیفا)پچھلے پانچ سالوں سے پاکستان کے متعدد سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کو پانچ جہتوں پر کامیابی سے کام کرنے کی صلاحیت رکھنے کی بنا پر ایوارڈ دے چکا ہے۔ یہ پانچ جہتیں شفافیت‘ سماجی ذمہ داری‘ نتیجہ خیزی ‘ استحکام اور اختراع ہیں۔ کیمرج آئیفا کے 3G ایوارڈ کی بنیاد 2016ء میں استنبول میں ہونے والے اقوام متحدہ کی عالمی انسان دوست سمٹ کے دوران رکھی گئی۔ یہ ادارہ UNDPکے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے گڈگورننس کی آزمائش پر پورا اترنے والے اداروں کو انعامات سے نوازتا ہے تاکہ یہ ادارے مزید استحکام کے ساتھ آگے بڑھیں۔ 2016ء میں تعلیم فائونڈیشن کو بلوچستان میں خواتین کو سستی اور معیاری تعلیم دینے کی بنا پر 3G ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اسی سال شاہد آفریدی فائونڈیشن کو 3G ایوارڈز دیا گیا۔ پھر 2017ء میں شوکت خانم میموریل ہسپتال کو ایوارڈ دیا گیا۔ پاکستان ہائر ایجوکیشن کمیشن کو بھی گڈگورننس اپنانے کی بنا پر دو ایوارڈ 2015ء اور 2016 ء میں دیئے گئے۔ پاکستان کی کومسیٹ یونیورسٹی واحد ادارہ ہے جس نے سب سے زیادہ پیٹنٹ کی درخواستیں دیں اور حاصل کیا۔اسے بھی گڈگورننس کا ایوارڈ ملا۔ 2021‘ 2020 میں یو مائیکرو فنانس اور اس کے بانی کبیر نقوی کو 3G ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ایوارڈ کے بانی ڈاکٹر پروفیسر ہمایوں ڈار کا کہنا ہے کہ پاکستان مایوسیوں کی آماجگاہ نہیں بلکہ امید کاسیل رواں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اداروں میں باصلاحیت اور میرٹ پر بھرتیاں کریں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ جتنے بھی اداروں کو انہوں نے 3G ایوارڈ سے نوازا ہے ان کے روح رواں وہ سربراہ ہیں جو Vision اور امید جیسے اوصاف سے مالا مال ہیں۔ پاکستان زندہ باد۔ گڈگورننس کے حوالے سے جو بات ضروری ہے‘ جس کے بغیر گڈگورننس کا تصور مکمل نہیں ہوتا وہ بلدیاتی انتخابات ہیں۔ پی ٹی آئی اپوزیشن میں تھی تو عمران خان اس حوالے سے شدید تنقید کیا کرتے‘ مسلم لیگ نون نے بلدیاتی انتخابات کروائے بھی لیکن جس طرح کے اختیارات ان بلدیاتی اداروں کو منتقل کئے جانے تھے وہ نہ ہو سکے۔ میئر کو فنڈز کے لیے ڈپٹی کمشنر کے پاس جانا پڑتا تھا‘ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ میئر کو ڈی سی کی چاکری کرنا پڑتی تھی۔ پی ٹی آئی نے حکومت میں آ کر اپنے بہت سے وعدوں کے برعکس کام کیا۔ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے پی ٹی آئی سنجیدہ نہیں جس کی وجہ سے نچلی سطح پر اختیارات تو دور کی بات بہت سے انتظامی امور میں پیچیدگیاں اور خلا نظر آتا ہے۔ بڑے شہروں کی کشادہ سڑکیں دیکھ کر ہم اندازہ نہیں لگا سکتے کہ شہر کی انتظامی حالت کیا ہے۔ اعلیٰ سے لے کر ماتحت عدلیہ تک میں انصاف کے مسائل دیکھ کر قیاس کیا جا سکتا ہے کہ دیہات میں رہنے والوں کو حصول انصاف کے لیے کیا کچھ کرنا پڑتا ہوگا‘ اندرون پنجاب و سندھ میں انصاف کی فراہمی کیسے ہو اس پر کوئی غور نہیں کیا جارہا۔ عام آدمی کے تمام مسائل کا حل اچھی انتظامیہ کے پاس ہے‘ ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ عوام دوست گورننس کے انتظامی و سیاسی مظاہر کو ترویج دینے کا اہتمام کیا جائے گا۔