وزیر اعظم پاکستان محترم عمران خان نے قوم سے اپنے دوسرے خطاب میں خوشخبری دی تھی کہ وہ عوام کو ایک بڑا ریلیف پیکج دینے جارہے ہیں۔اس سے پہلے وہ اس حقیقت کا اعتراف کرچکے تھے کہ پاکستان میں مکمل لاک ڈاؤن اور کرفیو نافذ کرنا اس لئے ممکن نہیں کہ 25فیصدپاکستانی عوام daily wagesیعنی دیہاڑی پر کام کرتے ہیں۔وزیر اعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ انہیں کرونا وائرس سے زیادہ اس بات کا خو ف ہے کہ کہیں یہ لوگ جن کا سارا گذر بسر روزانہ کی آمدنی پر ہے ،ملک میں ایک بڑی افراتفری کا باعث نہ بن جائیں۔اور پھر وزیر اعظم عمران خان کے اس اعلان کے دو دن بعد مشیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ یہ اعلان کرتے ہیں کہ حکومت کی اقتصادی کونسل کے فیصلے کے مطابق ڈیلی ویجز یعنی دیہاڑی کام کرنے والوں کو 3ہزار مہینہ دیا جائے گا۔25فیصد یعنی کم و بیش ساڑھے پانچ کروڑ عوام کے لئے تین ہزار ماہانہ کی پیشکش معروف اصطلاح میں پہلے ہی سے غربت کے زخم خوردہ عوام کی زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ڈاکٹر حفیظ شیخ سمیت تحریک ِ انصاف کی حکومت کے وزیروں ،مشیر وں کا تعلق جس طبقے سے ہے،یا تو وہ ان 25فیصد یعنی ساڑھے پانچ کروڑ عوام کے مسائل سے آگاہ نہیں ، یا وہ اپنے تئیںانہیں بے وقوف سمجھتے ہیں۔کہ وہ ان کے دئیے ہوئے زیرے سے خوشی سے پھولے نہیں سمائیںگے۔اور خاں صاحب اور ان کی حکومت کے لئے زندہ با د کے نعرے لگاتے ہوئے جوق در جوقطاریں لگا کر تین ہزار روپے کے لئے اپنے گھروں سے دوڑ پڑیں گے۔ یہ جومیں نے گھروں سے دوڑ پڑنے کا ذکر تو کر دیا ، مگر پہلا سوال تو یہی پیدا ہوتا ہے کہ حکومت اور میڈیا عوام سے تواتر سے اپیل کررہا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں۔حکومت کے ان کھڑپینچوں نے ابھی تک اُس طریقہ کار کی وضاحت نہیں کی کہ آخر ان دیہاڑی لگا نے والو ں کو تین ہزار روپے کس طرح اور کیسے پہنچیں گے۔ ۔ ۔ ہفتہ،ایک تو گزر ہی گیا ہے ۔بنیادی بات یہ ہے کہ حکومت کے پاس ایسا کوئی مکینزم یا سسٹم ہی نہیں ہے کہ جس سے ان 25فیصد لوگوں تک یہ 3 ہزار روپے پہنچ سکیں۔ابھی چند دن پہلے قرنطینہ میں جانے سے پہلے سندھ کے صوبائی وزیر محترم سعید غنی میڈیا کو ایک پریس بریفنگ دیتے ہوئے فرما رہے تھے کہ ہم نے 28کروڑ روپے ڈیلی ویجز یعنی دیہاڑی لگانے والوں کے لئے مختص کردئیے ہیں۔سعید غنی صاحب نے جو طریقہ کار بتایا تھا اس کے مطابق اگلے 24گھنٹے میں سندھ حکومت ایک نمبر جاری کرے گی۔اس نمبر پر عوام اپنا شناختی کارڈ نمبربتائیںگے ۔پھر شناختی کارڈ کو اسٹیٹ بینک بھیجا جائے گا۔اسٹیٹ بینک اس شناختی کارڈ کے ذریعے یہ معلوم کرے گا کہ 3ہزار روپے کی درخواست کرنے والوں کے اکاؤنٹ میں کیا اتنے پیسے ہیں اور وہ اِس بات کے مستحق ہیں کہ حکومت انہیںیہ 3ہزارروپے دے۔سعید غنی صاحب کا فرمانا تھا کہ چار مرحلوں سے گذر کر جب حکومت کو یقین ہوجائے گا کہ یہ مستحق لوگ ہیں ،تو پھر ان کے اکاؤنٹ میں یہ تین ہزار روپے منتقل کردیئے جائیں گے۔ سعید غنی صاحب میڈیا پہ اس اعلا ن کے اگلے 12گھنٹے بعد قرنطینہ میں چلے گئے ۔ہاں،اسکرینوں پر گاہے بہ گاہے نمودار ہوتے نظر آتے ہیں۔سعید غنی صاحب کی یہ ذمہ داری ایک اور صوبائی وزیر امتیاز شیخ کو دے دی گئی ہے۔تاہم ابھی تک وہ نمبر سندھ حکومت کی طرف سے اسکرینوں پر نہیں آیاکہ جس پہ daily wagesیعنی دیہاڑی والے رابطہ کرسکیں۔ وطن ِ عزیز میں یہ حال ہے اُس صوبے کا جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اُس کے وزیر اعلیٰ کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں سب سے بہترین کردار ادا کررہے ہیں۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ سندھ حکومت کے شناختی کارڈ کے ذریعے بینک اکاؤنٹس میں رقم منتقل کرنے کے حوالے سے جب میں نے نادرا کے اسلام آباد کے ایک ترجمان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ کراچی کی ڈیڑھ کروڑ آبادی میں ابھی بھی 25لاکھ افراد شناختی کارڈ سے محروم ہیں۔یقینا ان 25لاکھ میں بڑی اکثریت ان کی ہوگی کہ جنہیںشناختی کارڈ کی ضرورت پیش ہی نہیں آتی ہوگی۔اسی تناظر میں اگر وفاقی حکومت کے ان سرخیلوں اور بڑ بولوں سے پوچھا جائے کہ یہ جو آپ 3000روپے کی تقسیم اور ساتھ ہی راشن دینے کا اعلان کررہے ہیں،تو اس کا ابھی تک آپ نے کیا فارمولا اور ضابطہ تیار کیا ہے؟ اول تو ان سے یہ سوال کرنا ہی تضیع اوقات ہے کہ حکمراں جماعت میں اب کوئی بھی ایسا مشیر،وزیر ،اقتصادی یا میڈیا منیجر نظر نہیں آتا کہ جس کا تعلق غریب ،محنت کش طبقے سے ہو۔یا حقیقی معنوں میں وہ اس طبقے کے رو ز مرہ کے مسائل سے آگاہ ہو۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب ساری دنیامیں کرونا وائرس کے سبب آہکار مچی ہوئی ہے ۔اور بیشتر امیر ہی نہیں ،ہماری طرح کے غریب ممالک بھی اپنی عوام کو بنیادہ سہولتیں پہنچا رہے ہیں،یہاں یہ حال ہے کہ تبدیلی حکومت کے اقتصادی منیجر دو ہفتے گذر جانے کے باوجود ابھی تک یہ طے نہیں کرپائے کہ ۔ ۔ ۔ 25فیصد یعنی ساڑھے 5کروڑ عوام کے گھر کے چولہے کس طرح جلیں کہ ۔ ۔ ۔ وہ اپنے بال بچوں کا پیٹ پال سکیں۔تین ہزار روپے کا اعلان یوں بھی ان 25فیصد لوگوں کے ساتھ ایک ہولناک مذاق ہے۔کہا جاتا ہے کہ غریب ترین آدمی کی آمدنی کا پیمانہ ایک ڈالر روزانہ ہے۔ پاکستان میں سرکاری اور نجی اداروں کو قانونی طور پر پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنے ملازمین کی اجرت کم سے کم 16ہزار روپے رکھیں۔ ۔ ۔ غالباً کسی بھی ترقی پذیر ملک ہونے کے دعویدار ملک نے آئینی طور پر کسی ملک میں یہ اجرت نہیں ہوگی ۔ مگر دلچسپ مذاق دیکھیں کہ باقاعدہ ٹیلی وژن پر ہمارے حکمراں اپنی قوم کے پانچ کروڑ سے اوپر عوام کو 3ہزار روپے ماہانہ دینے کی پیشکش کررہے ہیں اور اُس کے طریقہ کار کاتعین بھی،ہفتہ اوپر ہونے کو آرہا ہے، نہیں کیا جاسکا: خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک اس سے بھی زیادہ اسکرینوں پر جو خبریں آرہی ہیں، کہ کس طرح صرف تین دن میں ڈالر 150روپے سے 170روپے پہ آگیا، سونا 1لاکھ روپے تولہ سے اوپر ہوگیا،سبزیاں ،دالیں،چاول ،آٹا،گھی ۔ ۔ ۔ حکومت کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ذخیرہ کر لیے گئے اور دوگنا قیمتوں پر بیچے جارہے ہیں۔اسکرینوں پر نظر آنیوالی خبریں جب ساری دنیا میں دکھائی جارہی ہونگی تو کپتان کی حکومت کے لئے شرمندگی کا باعث نہیں ہوں گی؟ گزشتہ کالم میں بھی لکھا تھا۔ ۔ ۔ کہ بدقسمتی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان 73سال بعد بھی دنیا کے 5غریب ترین ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔لیکن ہمارے ان بے حس حکمرانوں کو جو عالی شان ایوانوں میں بیٹھے ہیں ، اتنی شرم بھی نہیں آتی کہ کم از کم قوم کے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جھوٹے وعدے اور تسلیاں تو نہ دیں۔