واشنگٹن،نیویارک،لندن( ندیم منظور سلہری سے ،نیوزایجنسیاں،نیٹ نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملک میں فوج تعینات کرنے کی دھمکی پر امریکہ بھر میں فسادات میں مزید شدت آگئی۔ پوسٹمارٹم رپورٹ میں سیاہ فام جارج فلائیڈ کی موت کو قتل قراردیدیا گیا جبکہ ریاست ڈکوٹا میں ایئر فورس بیس میں فائرنگ کے نتیجہ میں 2 اہلکار ہلاک ہوگئے ۔امریکی میڈیا کے مطابق گزشتہ روز صدر ٹرمپ نے دھمکی دی کہ اگر پُرتشدد واقعات بند نہ ہوئے تو پورے ملک میں فوج تعینات کر دی جائیگی۔ میری حکومت انتشار پھیلانے والوں کیساتھ سمجھوتہ نہیں کریگی ، انہوں نے صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے مزید کہا کہ جارج فلائیڈ کی ہلاکت پر پُرامن مظاہروں کی حمایت کرتا ہوں لیکن اسکی آڑ میں لاقانونیت کو برداشت نہیں کیا جا سکتا ۔دریں اثنا پُرتشدد واقعات کی روک تھام کیلئے فوجی اہلکاروں نے اہم شاہراہوں پر گشت شروع کر دیا جبکہ امریکی مسلح افواج کے سربراہ چیئرمین چیف آف سٹاف جنرل ملی نے واشنگٹن میں امن کیلئے متعین فوجی دستوں کا معائنہ کیا۔مسلح فوجی دستے وائٹ ہاؤس کے باہر گشت کرتے رہے جبکہ ہزاروں مظاہرین بھی ٹس سے مس نہ ہوئے ،وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن میں ساتویں روز بھی جھڑپیں ہوئیں۔ گورنر نیویارک انڈریو کومو اور گورنر الینوئس جے رابرٹ پریٹزگر نے فوج تعیناتی کے اعلان پر ٹرمپ کو ہدفِ تنقید بنایا اور کہا کہ فلائیڈ کی ہلاکت امریکی تاریخ کا شرمناک باب ہے ۔ گورنر نیویارک اینڈریو کومو اور سٹی میئر بل ڈی بلازیو نے نیویارک سٹی میں رات 11 بجے سے صبح 5 بجے تک کرفیو کا اعلان بھی کردیا جو 7 جون تک نافذ رہے گا۔مظاہرین نے بھی ٹرمپ کی فوج تعیناتی کی دھمکی کو مسترد کر دیا اور نیویارک سمیت متعدد علاقوں میں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کا سلسلہ جاری رہا ۔مین ہیٹن مڈٹاؤن میں دنیا کی سب سے بڑے تاریخی Macy's سٹور کو بھی لوٹ لیا گیا۔ لاس اینجلس میں ایک شاپنگ مال کو نذر آتش کردیا گیا۔ امریکہ بھر میں پرتشدد واقعات میں مزیدکئی افراد زخمی ہوگئے ،مشتعل مظاہرین کی جانب سے گاڑیوں اور دیگر املاک کو نذر آتش کیا گیا،سینٹ لوئس میں4 پولیس افسروں کو گولی مار کر زخمی کردیا گیا۔ڈینور پولیس کے چیف پال پیزن نے خطرے کو بھانپتے ہوئے پروٹوکول بالائے طاق رکھ کراظہار یکجہتی کیلئے مظاہرین کیساتھ ہاتھوں کی زنجیر بنا ئی، مظاہرین نے بھی پولیس کیساتھ مکمل تعاون کیا ۔ایئر فورس ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق فائرنگ کا واقعہ شمالی ڈکوٹا میں گرینڈ فورکس ایئر فورس بیس میں پیش آیا جس میں 319 ریکوننینس ونگ کے 2 ایئرمین ہلاک ہوگئے ۔ فائرنگ صبح ساڑھے چار بجے ہوئی اور اڈے موجود ہنگامی ٹیم نے موقع پر ایکشن لیا، حکام کے مطابق صورتحال قابو میں ہے ۔ پیرکی رات کولاس ویگاس نیواڈا میں کیسینو کے قریب ایک پولیس افسر کو بھی گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔خبر ایجنسی رائٹرز کے مطابق قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے افسروں نے مظاہرین پر ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس استعمال کرکے صدر ٹرمپ کیلئے چرچ جانے کا راستہ صاف کیا۔ ٹرمپ نے واشنگٹن میں چرچ پہنچ کر بائبل کو اٹھائے اپنے بیٹی ایوانکا اور امریکی اٹارنی جنرل ولیم بار کے ہمراہ تصاویر بنوائیں۔ وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا کہ علاقے کو کرفیو کے نفاذ کے بعد خالی کرالیا گیا ہے ۔سابق امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن نے ٹویٹ میں کہا کہ امریکہ کے صدر نے ایک فوٹو سیشن کیلئے امریکی فوج کو پر امن مظاہرین کوآ نسو گیس اور ربڑ کی گولیوں سے نشانہ بنانے کیلئے استعمال کیا،یہ ہمارے ہی شہریوں کیخلاف صدارتی طاقت کا خوفناک استعمال ہے ۔نیویارک کے گورنرنے کہا کہ ٹرمپ نے پر امن مظاہرے کو ختم کرنے کیلئے فوج کو طلب کیا تاکہ وہ چرچ کے باہر تصاویر بنوا سکیں، یہ صدر کیلئے محض ایک ریئلیٹی ٹی وی شو ہے ۔علاوہ ازیں ہالی ووڈ سے موصول فوٹیجز میں بھی ایک میڈیکل سٹور میں شہریوں کو لوٹ مار کرتے ہوئے دکھایا گیا جہاں سٹور کا دروازہ، کھڑکیاں توڑی گئیں۔ سرکاری پوسٹمارٹم رپورٹ میں جارج فلائیڈ کی موت کو قتل قرار دیدیا گیا، گردن سختی سے دبانے کی تصدیق بھی ہوگئی۔ رپورٹ کے مطابق جارج فلائیڈ کو پہلے سے دل کی بیماری تھی اور دوران حراست دل کا دورہ بھی پڑا تھا، موت دم گھٹنے سے ہوئی اور تین افسروں نے انکے قتل میں معاونت کی۔جارج کے قتل پر گرفتار سفید فام پولیس افسر ڈیریک چووین کیخلاف تھرڈ ڈگری ٹارچر سے قتل کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔ جارج کے بھائی ٹیرنس نے مناپولس میں جائے وقوعہ پردعائیہ تقریب میں کہا کہ فسادات سے میرا امن پسندبھائی واپس نہیں آجائیگا۔ مظاہرین بدلہ لینے کیلئے خود کو اس قابل بنائیں کہ انہیں پتا ہو کہ وہ کس کو ووٹ دے رہے ہیں۔امریکی شہر ہیوسٹن کے پولیس چیف آرٹ اسیویڈونے ایک انٹرویو میں کہا کہ صدر ٹرمپ کے گورنرز کو احکامات لوگوں کو خطرے میں ڈالنے کے برابر ہیں، صدر ٹرمپ اگر آپ کوئی تعمیری بات نہیں کرسکتے تو اپنا منہ بند رکھیں۔امریکی سیاہ فام شہری کے قتل کیخلاف احتجاجی مظاہرے برطانیہ، جرمنی، آسٹریلیا، نیدرلینڈ، نیوزی لینڈ اور دیگر ممالک میں بھی پھیل گئے ۔یورپی یونین اور روس نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ مظاہرین پر تشد د کو روکے اور مذاکرات سے مسئلہ کا حل تلاش کیا جائے ۔