شمسی تقویم کے مقابل قمری تقویم میں تحرک ہے،زندگی ہے، اسی کی برکت ہے کہ ہمارا یوم آزادی کبھی رمضان المبارک سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے، کبھی ذی الحج سے،کبھی ربیع الاول سے تو کبھی محرم الحرام سے۔دو نسبتیں مل جاتی ہیں تو سوچ کے ہزاروں نئے در وا کردیتی ہیں۔آزادوطن کے پچھہتر برس بعدجس ریاستِ مدینہ کا ہمارے ہاں چرچا ہے،امام حسینؓ اسی ریاست مدینہ کی روح کوبرقرار رکھنے کے لیے اٹھے تھے۔یہ ریاست وہ تھی جس کے لیے نبیِﷺ مہربان نے تیرہ برس تیاری کی تھی، حرم کا صحن،مکہ کی گلیاں،کوہِ صفا،شعب ابی طالب کے پتھر، طائف کے باغات، غارِ حراسے غارِ ثورتک کی کہانی کا ایک ایک منورورق اس زندہ رہنے والی داستان کا گواہ ہے۔اس تیاری پر آپﷺ نے اپنے جانثاروں کے ساتھ ایسی عمارت اٹھائی کہ اگلے دس برس میں اسلام ابد تک ایک ناقابلِ تردید حقیقت بن گیا۔آپﷺ نے ایسی ریاست بنا کر، چلا کر دکھا دی کہ آپﷺ کے وصال کے بعد بھی ایک کے بعد ایک خلیفہ ِراشدانہی بنیادوں پرقائم رہا۔ یوں آپﷺنے محض بائیس برس میں وہ انسان بنا دیے جنہیں ذرا سا بھی شبہ نہ تھا کہ حکمران کیسا ہونا چاہیے اور حکمرانی کا کیا مطلب ہے۔مسجد نبوی حکومت کا مرکز تھی۔ایک طرف وہ بطور عبادت گاہ روحانی بلندیوں کے حصول کا ذریعہ تھی تو دوسری طرف وہ بطور یونیورسٹی علم وفضل کامرکز،پارلیمان،سٹیٹ بنک،عدلیہ اورجی ایچ کیوبھی تھی۔مسجد کے امام ہی خلیفہ یعنی حکمران تھے۔ خلیفہ کا تصور اسلام میں بڑا انوکھا ہے جسے مغربی جمہوریتوں کے گرد بْنے ہوئے علوم سے متاثردماغ آسانی سے سمجھ نہیں پاتے۔آج ہمیں لیڈرشپ کا تصور مغرب کی امپورٹ لگتا ہے۔ مگرتصور توکیا، پندرہ صدی پہلے یہ لیڈر، ہمارے نبیﷺ نے خلفائے راشدین کی شکل میں ہمیں بنا کربھی دکھا دیے تھے۔ یہ خلیفہ نہ عالم دین ہے نہ جرنیل،نہ ٹیکنو کریٹ ہے نہ بزنس مین، نہ بادشاہ ہے نہ آمر، نہ اشرافیہ کا رکن نہ جاگیردار۔یہ توبس ایک لیڈر ہے لوگوں کے بھروسے کا،جو بہترین اخلاقی صفات اورصلاحیتوں کے ساتھ اپنے لوگوں کاسچا خیرخواہ ہے اور ان کی مادی اوراخلاقی ترقی کا ذمہ دار،ان کی دین اور دنیا کی بہتری کا ضامن،اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کا ادراک رکھنے والا،ان کی ادائیگی کے لیے منصوبے بنانے اوران کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والاپْرعزم، دلیر، انتہائی زیرک انسان۔ملکی امانتوں کامحافظ اوراپنے ذرائع آمدن (منی ٹریل) کے لیے جوابدہ،خواہ معاملہ کْرتے کے زائدکپڑے کا ہو۔انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے آزاد کرانے والااور خدائے واحد کی غلامی میں لے کر آنے والااورپھر اس آزادی کی حفاظت کرنے والا۔ ہمیں بھی یہ آزادی ہمارے بڑوں نے لے کر دی تھی۔آج ہمیں زخم کھاتے پچھہتر سال بیت گئے ہیں، ہمیں آج تک معلوم نہ ہوسکا کہ حکمران کیسا ہونا چاہیے۔معمولی قیمت کے موبائل کی جان سے بڑھ کر حفاظت کرتے ہیں اورملکی خزانے سونپنے کے لیے خائن، بددیانت کو بخوشی ووٹ ڈال کر آتے ہیں چاہے کسی عنوان سے ہو،بلکہ ساتھ زندہ بادکے نعرے بھی لگاتے ہیں۔اس قوم کی بدنصیبی کا کیا کہنا جس کو حسینؓ نصیب ہوں اوروہ پون صدی سے یزیدوں میں گھری ہو۔عوام کا ذکر نہیں کہ ان کو اپنی روزی روٹی کی پڑی ہے،مگرتعلیم یافتہ، خوشحال ،اخبار پڑھنے،دس چینل دیکھنے والا،سوشل میڈیا پہ سرگرم طبقہ امام حسینؓ کی جدوجہد کو اپنے قومی تناظر میں کس مقام پہ رکھتا ہے؟میرا ماننا ہے کہ ہر پاکستانی خواہ کیسا بھی گیا گزرا بدعمل ہودین سے محبت رکھتا ہے۔مگردین کوشعوری طور پہ اپنانے والے لوگ بھی جوکثیر تعداد میں ہیں،اپنے اپنے جھنڈوں کے سائے میں قید ہیں اور دینی تعبیرات کی باریکیوں اورنکتہ آفرینیوں میں اس قدرغرق ہیں کہ قومی تقاضوں کو آج کے تناظر میں دیکھنے کی اہلیت سے تقریباً عاری ہو چکے ہیں الا ماشاء اللہ۔ایسے میں رہنمائی کون کرے؟یزید کی تخت نشینی کو کثیر تعداد میں اکابرین امت نے ماننے سے انکار کیا تھا۔ان میں صحابہؓ کرام بھی تھے، اوردیگراہل الرائے افراد بھی۔یہ اس دور کےLeaders Opinionتھے، عوام الناس انہیں دیکھ کر اپنی رائے بناتے تھے۔آج کے رائے ساز عوام کو درست سمت دکھانے سے قاصر ہیں۔ہر گروہ اپنے مفادات کا اسیر ہے۔ شب وروزحالات کا اتار چڑھاؤ ایسا کہ کبھی کامیڈی،کبھی میلو ڈرامہ اور کبھی ایڈونچر تھرل سے بھرپور فلم کا گمان گزرے۔نہ اصولوں کی کوئی اہمیت نہ اخلاق و کردار کی۔اگر قانون کے پاسبان ہی یہ کہہ دیں کہ دفعہ باسٹھ تریسٹھ پر تو صرف سراج الحق ہی پورے اترتے ہیں تو توقع کس سے کریں۔سراج الحق آسمان سے نہیں اترے،اسی زمین کی پیداوار ہیں جس نے ان عدالتوں کے ہوتے ہوئے بھی لٹیروں کو جنم دیا اور پروان چڑھایا ہے، ان کو سیاسی موت سے بچایا ہے اور انہیں نظریہ ضرورت کے ٹیکے لگائے ہیں۔عدالتوں کا کام ان دفعات کا ٹھٹھا اڑانا نہیں،ان کو نافذ کرنا ہے تاکہ سراج الحق جیسے شفاف کردار کے مزید لوگ سیاسی منظر نامے کا حصہ بنیں۔بندوں کو گنا نہیں تولا جائے۔سیاست اصولوں کی پابند ہو،ضمیر اور زبانیں آزاد ہوں،حق بات کہنے کا حوصلہ ہو،لوگ اہلِ کوفہ کی طرح جبر سے مصالحت کرنے والے ہوں نہ ہی یزید کے درباریوں کی طرح خوشامدی اور مطلب پرست۔جب سیاست موروثیت اورضمیر فروشی کا نام بن جائے تو ایسے میں عدالتوں کاکام ہے یہ یقینی بنائیں کہ عوام کی آزادانہ رائے شفاف طریقے سے سامنے آئے،نظام میں ایسی اصلاحات کی جائیں کہ عوام کی حقیقی نمائندگی ہونہ کہ چند فیصد حمایت لینے والے پورے ملک پر مسلط ہو جائیں۔جو حکمران بنیں وہ مناصب کے حریص نہ ہوں،عوام کے آگے جوابدہ ہوں۔قانون سے بالاتر کوئی نہ ہو،حکمران سب سے پہلے خود کو اور اپنے اہلِ خانہ کوقانون کے پابند سمجھیں۔ یہ تھی ریاستِ مدینہ جس کی بقا کے لیے امام عالی مقام ؓاٹھے تھے۔مجھے نہیں معلوم یہ دین ہے یا سیاست ،لیکن اگر ہم امام حسینؓ کی جدوجہد سے اپنی قومی زندگی میں عمل کی راہیں متعین نہیں کرسکتے تو یا تو ہمارا تصورِدین بگڑ گیا ہے یا ہم سیاست کے معنی کچھ اور سمجھتے ہیں!