ایسا لگتا ہے کہ عمران خان جلدی کرگئے۔ سمجھدار سیاستدان دباؤ ڈالنے کیلئے لانگ مارچ اور دھرنے کا آپشن آخری ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ خان صاحب نے یہ ہتھیار پہلے استعمال کرکے خود کو اور اپنے چاہنے والوں کو تھکا دیا ہے۔ لانگ مارچ سے پہلے بہت سے ایسے آپشنز ہیں جنہیں استعمال کرکے حکومتوں کو تھکا دیا جاتا ہے اور جب وہ نڈھال ہوجاتی ہے تو پھر اس پر فیصلہ کن ضرب لگائی جاتی ہے۔ لگتا ہے کہ خان صاحب ضرب حکومت کو لگانے چلے تھے لیکن ضرب انہیں اور ان کے حامیوں کو لگی ہے اور بڑے زور کی لگی ہے۔ عمران خان یوں محسوس کرتے ہیں کہ ان کے پاس وقت کم ہے اور جو کچھ ہونا ہے بس جلدی سے ہوجائے۔ عمران اب 70 برس کے ہورہے ہیں ،انہیں اب تک یہ ضرور سیکھ لینا چاہئے کہ جلد بازی سے کئے گئے فیصلوں کے نتائج بڑے غیر متوقع ہوسکتے ہیں۔ اس لئے ان سے ہر قیمت پر بچنا چاہئے۔ سیاستدان ہمیشہ لمبی دوڑ کے گھوڑے ہوتے ہیں اور جو سیاستدان موزوں وقت کا انتظار نہیں کرتا وہ اپنے مقام پر نہیں پہنچ سکتا۔ اگر ہندوستان کی تاریخ کو اس تناظر میں دیکھنا ہو تو بادشاہ بلبن کو دیکھ لیں کہ انہوں نے اقتدار کیلئے کتناانتظار کیا۔ جب وہ پاک پتن میں بابا فرید رحمہ اللہ کے پاس پہنچا تو اللہ کے اس برگزیدہ ولی نے بلبن سے کہا۔ نوجوان تم ہندوستان کا تاج اپنے سر پر رکھنے کی خواہش لے کر آئے ہو جاؤ صدقہ خیرات کیا کرو اور انتظار کرو۔ بلبن نے انتظار کیا او رایک دن دلی کا بادشاہ بن گیا۔ زرداری‘ گیلانی‘ نواز شریف اور شہباز شریف جیل میں بھی رہے اور جلا وطنی بھی بھگتی۔ انتظار کیا کہ ہمارا بھی وقت آئے گا۔ اسی گیلانی کو مشرف نے سات سال نیب کی قید دلوائی۔ زرداری گیارہ سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے۔ نواز شریف جلا وطن رہے لیکن پھر لوٹ کر وزیراعظم بنے اور تو اور مہاتیر محمد 92 برس کی عمر میں ملائیشیا کے وزیراعظم بن گئے۔ بلکہ دنیا کے سیاستدانوں کو یہ امید دے گئے کہ ہمت نہ ہارو اور نہ ایک دوسرے کے گلے کاٹو۔ اگر آپ صحت مند رہے تو 90 برس کی عمر میں بھی اقتدار کی امید کی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد تو عمران خان کے اندر زیادہ سکون اور امید جاگنی چاہئے۔ انہیں اس جوش کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا ہماری مرضی سے نہیں چلتی لیکن خان صاحب کی تقریروں سے لگتا ہے کہ وہ اسے اپنی مرضی سے ہی چلانا چاہتے ہیں۔ خان صاحب نے 22 سال جدوجہد کی اور اب وہ اتنی عجلت میں ہیں کہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔ اس سوچ کی وجہ سے وہ وزیاعظم کے عہدے پر برقرار نہ رہ سکے اور اب اپوزیشن بھی اسی طرح کررہے ہیں کہ ان کے دشمنوں کے بجائے انہیں اور ان کے حامیوں کو نقصان ہورہا ہے۔ جس طرح نواز شریف نے یہ کام کیا کہ انہوں نے خود عمران خان کو کرسی پر بٹھایا اور خود اڈیالہ جیل میں جاکر بیٹھ گئے۔ اسی سوچ اور رویہ کی وجہ سے خان صاحب شریفوں کی چھینی ہوئی کرسی انہیں واپس کرنے پر مجبور ہوئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فوری الیکشن نہیں ہوتے تو عمران خان کیا کریں گے۔ وہ اپنا حملہ کرچکے۔ ان کا وار خطا گیا۔ حکومت مزید مضبوط ہوکر سامنے آگئی۔ مضبوط ہوگئی بلکہ اسے وہ اعتماد بھی مل گیا ہے جس کی اسے سخت ضرورت تھی۔ عمران خان نے اپنی غلطی سے حکومت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کردیا ہے۔ دوسری طرف آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کی اسلام آباد میں ملاقاتیں ہورہی ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ اصل حکومت تو یہ دونوں ہی چلارہے ہیں۔ بلکہ وہی فیصلے کررہے ہیں۔ مریم نواز کے سرگودھا میں نئے الیکشن کرانے کی بات پر ان کی نواز شریف کو شکایت لگانی ہو یا پھر شہباز شریف کو ڈٹ جانے کا درس دینا ہو یہ سب کچھ آصف زرداری کررہے ہیں۔ آصف علی زرداری اور مولانا سوچ رہے ہیں ٹھیک ہے عمران خان الیکشن مانگ رہا ہے اسے دیدیں۔ عمران خان کی چھوڑی ہوئی سیٹوں پر استعفیٰ منظور کرکے ان پر ضمنی الیکشن کروادیں۔ عمران خان کے پاس دو تین آپشنز ہونگے وہ ان الیکشن کا بائیکاٹ کریں گے۔ جیسے 1985ء میں بینظیر بھٹو اور نوابزادہ نصر اللہ نے کیا تھا اور عمر بھر اس پر پچھتائے تھے اور یہ بھی پچھائیں گے۔ یا وہ ساری سیٹیں جیت جائیں۔ ہوسکتا ہے 30-20 سیٹیں نواز لیگ بھی جیت جائے اگر عمران تمام سیٹیں بھی جیت جائیں تو بھی موجودہ حکومت کہیں نہیں جائے گی۔ ضمنی انتخابات کے تین ماہ تو عمران خان ان حلقوں میں پھرتے رہیں گے اور حکومت آرام سے رہے گی۔ اس پر لوگ بھی کہیں گے کہ اگر ضمنی الیکشن لڑ کر اسمبلی میں آنا تھا تو پھر اسمبلی سے مستعفی ہونے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر عمران خان نے ان الیکشن کا بائیکاٹ کیا تو پھر ان حلقوں میں عمران خان کی پارٹی کا وہی حشر ہوگا جو ایم آر ڈی کا خصوصاً پیپلز پارٹی کا ہوا تھا اور اس وقت ان حلقوں میں کونسلر سطح کے لوگ اسمبلی تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس خلا نے انہیں زمین سے آسمان تک پہنچادیا اور ایم آر ڈی منہ دیکھتے رہ گئی تھی اور پیپلز پارٹی کے حلقے ان کے ہاتھ سے اس طرح نکلے کہ آج تک انہیں نہیں ملے۔ کیا عمران خان آج اپنی جیتی ہوئی سیٹیں ان لوگوں کے حوالے کرنے کو تیار ہیں جن کے خلاف انہوں نے طبل جنگ بجایا ہوا ہے۔ آصف علی زرداری اور مولانا کا خیال ہے کہ عمران خان کی ان سیٹوں میں سے 30-20 سیٹیں جیت کر وہ مقتدرہ اور اتحادیوں کے دباؤ سے بچ سکتے ہیں وار اس طرح موجودہ حکومت ستمبر 2023ء تک اپنی مدت باآسانی پوری کرلے گی۔ اس طرح زرداری اور مولانا عمران کے ساتھ وہی کرنے جارہے ہیں جو ضیاء الحق نے بینظیر بھٹو کے ساتھ کیا تھا۔ عمران جو الیکشن مانگ رہے ہیں وہ ضمنی الیکشن کی صورت میں مل جائے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ آئندہ دنوں میں وہ خود کو اس ٹریپ سے کیسے بچائیں گے۔ الیکشن لڑتے ہیں تو ان کے مخالفین ان کا جینا حرام کردیں گے۔ وہ ضمنی الیکشن جیت بھی گئے تو بھی حکومت کو گرا نہیں سکیں گے۔ اگر وہ ان نشستوں پر ہار گئے تو وہ اور کمزور ہوجائیں گے اور اگر الیکشن کا بائیکاٹ کرتے ہیں تو ان کے حلقوں پر دوسرے لوگ قابض ہوجائیں گے۔ زرداری اور مولانا کپتان کیلئے نیا جال بچھائے بیٹھے ہیں۔ اب کپتان کیا کریں ایک طرف کنواں ہے اور دوسری طرف کھائی۔ یہی فکر کپتان کو کھائی جارہی ہے کہ وہ کریں تو کیا کریں۔