بی جے پی کی دو اہم شخصیات کے آقائے نامدارؐ کی شان میں نازیبا اور گستاخانہ بیانات کے سبب جہاں پوری دنیائے اسلام میں نہ صرف تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے بلکہ پہلی بار قطر‘ ایران‘مصر‘سعودی عرب اور یو اے ای سمیت بیشتر ممالک احتجاج کی تصویر بن گئے ہیں۔اس سے قبل انگلستان ہو‘ اسپین یا حال ہی میں فرانس کی جانب سے اس قسم کی گستاخی اور ہرزہ سرائی روا رکھی گئی۔جس پر پاکستان سمیت عالم اسلام نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ سرکارؐ کی حرمت مسلمانوں کیلئے اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہے۔ اب مودی سرکار کے دو اہم مشیروں جن میں ایک نوپور شرما نامی خاتون بھی شامل ہیں۔ ٹی وی پر نبی آخر الزماںؐ کے متعلق جو ہرزہ سرائی کی ۔اس پر ہندوستان کے مسلمانوں نے سب سے پہلے فوری ردعمل کا اظہار کیا۔ کانپور اور بریلی میں سخت احتجاج ہوا۔ اس دوران مسلم ممالک تک جب یہ خبر پہنچی تو ان ملکوں کی حمیت اور غیرت جاگ اٹھی۔مصر‘قطر‘سعودی عرب‘ایران‘یو اے ای میں سخت ردعمل دیکھنے کو ملا۔پاکستانی تو ہمیشہ اس معاملے پر بہت جذباتی رہے ہیں لیکن جب عرب دنیا میں یہ ردعمل آیا تو یہ غیر معمولی انداز کا تھا۔رسول اللہؐ کی شان میں گستاخی کرنے والوں پر ہی لعن طعن نہیں کی جارہی تھی بلکہ اس بار اس احتجاج نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا۔اس بات پر بحث شروع ہوگئی کہ ان مسلم ممالک میں کتنے بھارتی ملازمت کرتے ہیں۔وہ ماہانہ اور سالانہ کتنا زرمبادلہ ہندوستان بھجواتے ہیں۔ ہندوستان سے تجارت کا حجم کیا ہے۔ پھر یہ کہ ان ممالک کی مارکیٹوں میں ہندوستان کی جو مصنوعات فروخت ہورہی ہیں انہیں اسٹورز سے ہٹانے اور بائیکاٹ انڈیا کی مہم اتنی سرعت سے چلائی گئی۔ یہ ردعمل خود مودی حکومت کیلئے اور مغرب کیلئے بھی حیران کن تھا۔ بھارتی پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ اگر اس احتجاج نے نیا رخ اختیار کیا تو بھارت کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بالآخر بھارت نے گھٹنے ٹیک دیئے۔ ان دونوں اہم اہلکاروں کو فوری طور پر ہٹانے کے علاوہ بھارت کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا۔ کئی کمپنیوں میں ان کے ہاں ملازمت کرنے والے بھارتیوں کو واپس بھارت بھیجنے کی تیاری کرلی تھی۔ لیکن ابھی بھی یہ ممالک بھارتی حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں کئے گئے اقدامات پر مطمئن نہیں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بھارت ان دونوں اہلکاروں کے خلاف تحقیقات کرائے کہ انہوں نے آخر یہ گستاخی کرنے کی جسارت کیوں کی۔ پھر جرم ثابت ہونے پر ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس نئی صورتحال میں بھارت کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں کہ وہ دو قدم پیچھے ہٹے اور آئندہ کیلئے عقل کے ناخن لے اور اس بات کا اہتمام کرے کہ آئندہ کسی شاتم کو ایسی جرات کرنے کی ہمت نہ ہوسکے۔ اس سے پہلے بھی یورپ کے ممالک میں رسول اللہؐ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف احتجاج ضرور ہوا‘ بلکہ مذہب کے اعتبار سے ہر ایک کے جذبات کا خیال رکھنے کے حوالے سے کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بین المذاہب ہم آہنگی اور رواداری بین الاقوامی امن کے لئے سب سے ضروری ہے۔ اس لئے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ایک دوسرے کی مقدس ترین شخصیات کا احترام کریں‘ کیونکہ دنیا کے مذاہب انسان کو ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جسینڈا کا ایک موقع پر کہنا تھا:ہمارے عقائد ہی تو ہیں جو ہمیں سچائی سکھاتے ہیں۔ تمام مذاہب انسانوں کے مابین محبت اور ہم آہنگی کا درس دیتے ہیں۔ آپؐ تو وہ ہستی ہیں جن کیلئے کلام پاک میں خود کائنات کے رب کا کہنا ہے کہ میں اور میرے فرشتے آپؐ پر درود و سلام بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی آپؐ پر درود و سلام بھیجو۔ جب اللہ تعالیٰ خود آپ کی ذات مقدس پر سلام بھیج رہا ہے تو ہم تو آپؐ کے مقام و مرتبے کی بلندی کا گمان بھی نہیں کرسکتے اور اس میں سب سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ مسلمان کبھی بھی کسی بھی پیغمبر کے خلاف کوئی بات کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے‘ بلکہ یہ تو ہمارے عقیدے کا حصہ ہے کہ حضورؐکی شان ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے اور تمام پیغمبروں کی عظمت تسلیم کرنا ہمارے دین کا حصہ ہے۔ تاریخ بھری پڑی ہے کہ اسلام کس طرح پھیلا۔ یہ حسن اخلاق‘ کردار اور سچائی کا کمال تھا کہ جہالت میں لت پت معاشرہ کس طرح اجالوں میں بدلا اور پھر آقاؐ کا تو ظہور ہی اس لئے ہوا کہ اللہ نے مسلمانوں کیلئے ہی نہیں اس دنیا میں رہنے والے تمام لوگوں کیلئے رحمت اللعالمین بناکر بھیجا تھا۔ انہوں نے کیا کیا مثالیں قائم کیں۔ زندگی کو گزارنے کا ایسا اسلوب سکھایا جس میں سکون بھی تھا اور امن بھی۔ آپ ذرا غور تو کریں کہ اللہ کے آخری نبیؐ نے انسانوں کو اپنی تقدیر بدلنے کے کیا کیا طریقے بتائے اور کس طرح بتائے۔ میں تو دنیا سے کہتا ہوں کہ اس مصنف کی کتاب پڑھ لیں جو عیسائی تھا اور اس نے دنیا کی جن 100 عظیم ترین شخصیات کو اپنی ریسرچ کیلئے منتخب کیا اس میں نبی پاکؐ کو سب سے پہلے دنیا کا افضل ترین انسان قرار دیا۔ وہ لکھتا ہے کہ کیا یہ معجزہ نہیں تھا کہ ایک شخص پہاڑوں میں گھری مکہ کی چھوٹی سی بستی میں ایک میدان میں کھڑے ہوکر انتہائی انکسار اور جراتمندی سے یہ اعلان کررہا ہو کہ وہ اللہ کا رسولؐ ہے اور دنیا کو یہ پیغام دینے آیا ہے کہ اللہ ایک ہے اور وہی عبادت اور بندگی کے لائق ہے۔ آپؐ کے اس پیغام پر سب سے پہلے ان کی اہلیہ ان کے ایک دوست اور ایک بچہ ایمان لے آتا ہے اور یہاں سے مذہب اسلام کی پہلی کرن پھوٹتی ہے اور پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب دنیا اس روشنی سے منور ہوجاتی ہے۔ اس کے خیال میں محمدؐ کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے جہالت اور گمراہی میں گھرے معاشرے میں ایسے ہیرے پیدا کئے جن کی دنیا آج تک مثال دیتی ہے۔ مصنف خلفائے راشدینؓکا ذکر بڑی تعظیم سے کررہا ہے اور انہیں رسول خداؐ کا ایسا جانشین قرار دیتا ہے جنہوں نے زمانے کی رفتار بدل دی۔ جنہوں نے معاشرے میں تاریخ میں ایسی مثالیں قائم کردیں‘ جن کا ایک زمانہ معترف ہے۔ کسی کی بزرگی اور غیر معمولی فیصلوں کی صلاحیت کہیں آپ کو ہمت‘ کمٹمنٹ اور انصاف کا بول بالا‘ کہیں سخاوت اور کہیں جرات و شجاعت ان واقعات سے تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ یہ وہی تعلیمات تھیں‘ وہی ارشادات تھے‘ وہی کرامات تھیں‘ وہی برکات و فیوض تھیں‘ وہی انسپائریشن تھے جب مائیں اپنے بچوں سے کہتی ہیں کہ جب تم شہید کی وردی پہن کر خدا کی بارگاہ میں جاؤ تو اپنے آباؤ اجداد کی بخشش کی دعا کرنا۔ یہ تو وہی فلسفہ ہے جس کے زیر اثر بچہ اپنے باپ سے مخاطب ہوکر کہتا ہے۔ میرا بھائی اللہ کی راہ میں شہید ہوگیا‘ کیا میں بھی شہادت کا رتبہ پاسکتا ہوں‘ تو مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت سے لبریز باپ نے جھک کر بیٹے کے گال پر بوسہ دیا اور بولا۔ ’’یہ سعادت ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی اور یہ تو وہی تعلیمات کا اعجاز ہے‘ جب ماں اپنے مرے ہوئے بچے کی تصویر دیکھ کر اسے آنکھوں سے لگاکر بولتی ہے میرا بچہ شہید ہوا اب میں بھی فاطمہؓ کی طرح ہوں۔ لاکھوں سلام و درود ہوں آپؐ پر