ش بھائی میرے قریبی دوستوں میں سے اورساٹھ کے پیٹھے میں ہیں دنیا کے سرد گرم دیکھ کر اب کراچی کے ایک مضافاتی علاقے میں گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے ہیں،ش بھائی ادب شناس او ر غضب کا شعری ذوق رکھتے ہیںکمال کی بات یہ ہے کہ وہ جتنا اچھا ذوق رکھتے ہیں اس سے کہیں بڑھ کر سیاسی تجزیہ بھی کرتے ہیں۔ کسی زمانے میں سیاسی میدان میں خاصے متحرک اور الطاف حسین کے عشاق میں سے تھے ۔میری جب ان سے ملاقات ہوئی تب وہ اس عشق سے توبہ تائب ہو چکے تھے اورکبھی کبھار چھیڑتے تو کلے میں پان داب کرکہتے تھے اماں ! جانے دو کیا بات لے بیٹھے بس دور کے ڈھول سہانے ،ہم بھی مہاجر قوم کی شناخت اور حقوق کے پرفریب فسوں میں آگئے تھے ۔ اک دن کہنے لگے احسان میاں ! الطاف حسین کو جو عزت محبت عقیدت مہاجر قوم نے دی وہ نصف صدی میں کسی کو نہیں ملی ،کراچی حیدرآباد میں الطاف حسین کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا ،ان کی تقاریر اور ایم کیو ایم کی فکری نشستوں سے ہمارا بھی حال یہ ہوگیا تھا کہ ہم کارکن جب آپس میں کہیں ملتے تو سلام نہیں کرتے بلکہ مصافحہ کرتے ہوئے ’’جئے مہاجر‘‘ کہتے تھے،ہمارے لئے زندگی اور زندہ رہنے کا مطلب بس الطاف حسین تھاایم کیو ایم کا بڑا مشہور نعرہ ہے ناں’’ہمیں منزل نہیں رہنما چاہئے ‘‘ہم اس نعرے کی چلتی پھرتی تفسیر تھے ،بھائی نے جو کہہ دیا بس وہ حرف آخر ایک دم خلاص۔ ش بھائی کی اس بات کی تصدیق مجھے بارہ مئی 2007 کی تپتی دوپہر میں کراچی کی شاہراہ فیصل پر ہوئی جب جنرل پرویز مشرف کی اتحادی ایم کیو ایم اس وقت کے معزول کئے جانے والے چیف جسٹس افتخارچودھری کی کراچی آمد روکنے کے لئے متحرک ہوئی۔ افتخار چودھری اپنی معزولی کے خلاف کراچی میں وکلاء کے جلسے سے خطاب کرنا چاہتے تھے ،ایم کیو ایم او ر ایک آدھ سیاسی جماعت کو چھوڑ کر تقریبا تمام سیاسی جماعتیں افتخار چودھری کی حمائت کررہی تھیں۔ انہیں افتخار چودھری کی شکل میں پرویزمشرف کو للکارنے والا چیلنجر مل گیا تھا۔سب نے ہی افتخار چودھری کو ائیر پورٹ پر ویلکم کرنے کا اعلان کیا جبکہ ایم کیو ایم کاارادہ، منشاکچھ اور تھی ان دنوں راقم ایک نیوز چینل سے وابستہ تھا۔ وہ اپنے ساتھی رپورٹر عزیز سنگھور کے ساتھ کسی نہ کسی طرح رکاوٹیں پھلانگتا ہو شاہراہ فیصل پرڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا ۔یہاں ریلوے اسٹیشن کے سامنے تھا نے پر پولیس کی غیر مسلح نفری موجود تھی اس مقام پربھائی لوگوں نے ریلوے پھاٹک بند کردیا تھا۔ پھاٹک کی دوسری جانب ایم کیو ایم کے کارکنوں کی بسوں کی طویل قطار تھی۔ ائیر پورٹ سے آنے والے کسی بھی بندے کے لئے کارکنوں کے جھتوں سے ہو کر پھاٹک عبور کرنا ممکن نہ تھا سیاسی تصادم کاخدشہ سو فیصد تھا اور وہی ہوا دوپہر کے وقت افتخار چودھری صاحب کو لینے کے لئے پیپلزپارٹی کے جیالے آگے بڑھے تو اسی مقام پر ان کا مسلح استقبال کیا گیا وہ فائرنگ ہوئی کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے جسے جہاں جگہ ملی وہ چھپتا جان بچاتا۔ پھرمیں نے اس گھمسان کے رن کے بعد سڑک پر ٹہلتے ایم کیو ایم کے ایک کارکن کو دیکھا جسے غالبا گھر سے کوئی کال کر رہا تھا ،شائد اسکی والدہ ،بہن یا اہلیہ ہوگی جو اسے واسطے دے دے کر واپس بلا رہی تھی وہ جو کہہ رہی تھی میں وہ نہیں سن سکا لیکن اس نے جو کہا اس کا ایک ایک لفظ میر ی سماعت میں جذب ہورہا تھا۔ وہ نہائت جذباتی انداز میں کہہ رہاتھا ’’کہہ دیا ناں یہ جان الطاف بھائی کے لئے ہے تو ہے ،جاتی ہے تو جائے ۔۔۔‘‘ ایسے فدویوں اور جانثاروں سے آپ کی کہیں ملاقات ہوئی یا نہیں میری توہوتی رہی ہے آج کل کے شدید کشیدہ سیاسی ماحول میںآپ کو اپنے اپنے سیاسی رہنماؤں سے شدید محبت اور اندھی عقیدت کا اظہار کرنے والے بہتیرے مل جائیں گے ۔آپ ان سے بات کرکے دیکھئے دو منٹ بعد ہی ان کا ہاتھ آپکے گریبان پرہوگا۔ یہ ببانگ دہل کہتے ملیں گے کہ ہم اپنے لیڈر کے لئے جان بھی دے سکتے ہیں اور لے بھی سکتے ہیں ،کیایہ جذبات یہ انداز کسی نارمل انسان کے ہوسکتے ہیں ؟آپ یہ سوال لے کرماہرین نفسیات کے پاس جائیں تو وہ اسے ’’ سیلیبریٹی ورشپ سنڈروم‘‘ کہیں گے، بتائیں گے کہ اس سنڈروم میں مبتلا شخص کا رویہ عجیب اور ایب نارمل ہوتا ہے جیسے اسٹاک ہوم سنڈروم کے متاثرین کا تھا۔ 1973ء میں اپنی نوعیت کا عجیب واقعہ ہوا، سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں چند ڈاکو ایک بنک میں گھسے اور انہوں نے عملے کے چار افراد کو یرغمال بنالیا،لگ بھگ چھ روز بعد پولیس ان مغویوں کو رہا کرانے میںکامیاب ہوئی تو ان کے سامنے عجیب مصیبت آکھڑی ہوئی۔ یرغمال رہنے والے چاروں افراد ڈاکوؤں کے خلاف گواہی دینے سے انکار ی ہوگئے بلکہ الٹا ان کے حق میں مہم چلانے لگے ان کے لئے چندہ بھی جمع کرنا شروع کردیا۔ان میں سے ایک ۔بی بی نے تو جیل میں قید ایک ملزم سے عمر بھر کے عہدوپیماں بھی کر لئے اوراس کے نام کی انگوٹھی پہن لی ،اس واقعے نے ماہرین نفسیات کو ہکا بکا کردیا انہوں نے اس واقعے اور مغویوں کے رویوں پر تحقیق کی اور اسے بیمار رویہ قرار دے کر اسے’’ اسٹاک ہوم سنڈروم‘‘ کا نام دیا ۔ ماہرین نفسیات کے مطابق وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اغوا ہونے کے بعد آزادی کی امید کھو بیٹھنے پر نفسیاتی دفاعی نظام لاشعوری طور پراغواکاروںکا حامی ہوگیاتھا ۔اس سنڈروم کی جانب ہمیں طارق رحمان بھائی نے توجہ دلائی جن سے ہماری کالج کے زمانے کی یاد اللہ ہے۔ چڑھتی جوانی کا ساتھ اب ڈھلتی جوانی کا ساتھ ہے۔ ان کا کہنا ہے :یہ سنڈروم کسی فرد کو ہی نہیں گروہ کو بھی جکڑ لیتا ہے۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں لوگوں کے رویئے دیکھیں اندازہ ہوجائے گا۔ آج ہمارے جتھے کے جتھے اور گروہ کے گروہ اس عارضے میں مبتلا ہیں آج ہمیں اندازہ نہیں ہوگا لیکن کہیں کوئی بیٹھا ہمیں نوٹ کر رہا ہوگا۔ عجیب نہیں کہ آنے والے دنوںمیں ہم کسی طبی نفسیاتی جریدے میں ’’پاکستان پولیٹیکل ورشپ سنڈروم ‘‘کے نام سے کوئی رپورٹ پڑھ رہے ہوں !!