اسلام آباد (وقائع نگار،مانیٹرنگ ڈیسک، 92 نیوز رپورٹ،آن لائن)ملک میں آٹے اورچینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آ گئی ، بڑے سیاسی خاندان اربوں روپے کی سبسڈی لے اڑے ، جہانگیر ترین کی شوگرملز 56 کروڑ روپے ، خسرو بختیار کے بھائی کا گروپ 35 کروڑ روپے جبکہ گزشتہ پانچ سال میں شریف گروپ نے ایک ارب 40 کروڑ اور اومنی گروپ نے 90 کروڑ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔صوبائی وزیر خوراک چوہدری سمیع اللہ کو آٹے کے بحران پر قابو پانے کے لیے مناسب اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے ذمہ دار ٹھریا گیا ہے ۔ ملک میں چینی و آٹا بحران کی تحقیقات کیلئے ڈی جی ایف آئی اے کے سربراہی میں ایف آئی اے ، انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) اور محکمہ انسداد بدعنوانی کے نمائندگان پر مشتمل اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی حتمی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کر دی۔ پہلے مرحلے پر کمیٹی کی رپورٹ جاری کی گئی جبکہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ 25 اپریل کو جاری ہوگی، تحقیقاتی رپورٹ میں نامور سیاسی گھرانوں کی شخصیات کے نام بھی شامل ہیں۔ روزنامہ 92 نیوز کے پاس محفوظ تحقیقاتی رپورٹس کی نقل میں انکشاف کیا گیا کہ چینی برآمد کرکے شوگر ملز والوں نے دو طرح سے مال بنایا، ایک تو قیمتیں بڑھادیں اور دوسری جانب حکومت سے سبسڈی بھی لی۔حکومت کی چینی پر دی جانے والی سبسڈی کا بڑاحصہ بااثر حکومتی شخصیات لے اڑیں۔ چینی کی برآمد کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر ترین کے ملکیتی جے ڈبلیو ڈی گروپ نے اٹھایا اور کل سبسڈی کا 22 فیصد 56 کروڑ روپے حاصل کئے ۔ وفاقی وزیرفوڈ سکیورٹی خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار کے رحیم یار خان گروپ نے چینی و آٹا بحران میں اٹھارہ فیصد یعنی45کروڑ سے زائد کی سبسڈی لی۔اسی گروپ کے حصہ داروں میں نائب صدر ن لیگ کے سمدھی چودھری منیر اور موجودہ سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہٰی کے بیٹے مونس الہٰی بھی حصہ دار ہیں۔ چوہدری منیر رحیم یارخان ملز، اتحاد ملز ٹوسٹار انڈسٹری گروپ میں حصہ دار ہیں۔تیسرے نمبر پرشمیم احمد خان کے ملکیتی المعیز گروپ نے سولہ فیصد یعنی 40 کروڑ روپے سے زائد سبسڈی حاصل کی۔رپورٹ کے مطابق ایکسپورٹ پالیسی اور سبسڈی سے فائدہ اٹھانے والوں میں نامور شخصیات شامل ہیں جن کا فیصلہ سازی میں براہ راست اثر تھا،مئی 2014ء سے جون 2019ء تک پنجاب حکومت کی جانب سے چینی برآمد پر سبسڈی دی گئی اور اسی عرصے میں چینی کی قیمت میں 16 روپے فی کلو کااضافہ ہوا،دلچسپ بات یہ کہ شوگر برآمد کنندگان نے سبسڈی اور قیمت میں اضافے دونوں کا فائدہ اٹھایا، چینی کی برآمد کی اجازت دینے سے قیمت میں اضافہ اور بحران پیدا ہوا۔رپورٹ کے مطابق پانچ سال کے دوران حکومت کی جانب سے 25 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی،اس سبسڈی میں سے تین ارب کی سبسڈی پچھلے سال دی گئی تھی۔ آر وائی گروپ نے 4ارب ، جہانگیر ترین نے 3 ارب روپے سے زائد، ہنزہ گروپ نے 2ارب 80 کروڑ، فاطمہ گروپ نے 2 ارب 30 کروڑ، شریف گروپ نے 1 ارب 40 کروڑ اور اومنی گروپ نے 90 کروڑ روپے سے زائد کی سبسڈی حاصل کی۔رپورٹ میں کہا گیا کہ چینی کی برآمد سے ملک میں قیمتوں میں اضافہ ہوا جبکہ چینی برآمد کرنے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ تحقیقاتی رپورٹ میں شوگر ایڈوائزری بورڈ کو بھی قصوروار قرار دیا گیا ہے کیونکہ بورڈ بروقت فیصلے کرنے میں ناکام رہا۔ دسمبر 2018 سے جون 2019 تک چینی کی قیمت میں 16 روپے فی کلو اضافہ ہوا اور اس عرصے کے دوران کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔مسلم لیگ ن کے سابق ایم پی اے غلام دستگیر لک کی ملز کو 14 کروڑ کا فائدہ پہنچا تھا۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں گنے کی پیداوار گزشتہ سال کے مقابلے میں ایک فیصد زائد رہی ہے تاہم اس کے زیرکاشت رقبہ میں کمی ہوئی۔رپورٹ میں پیشگوئی کی گئی کہ گنے کی کرشنگ گزشتہ سال کے مقابلے میں زائد رہیگی اور رواں سال ملک کے پاس وافر چینی ہوگی۔ چینی بحران اور قیمتوں میں اضافہ کی وجہ دوہزار اٹھارہ میں چینی کی برآمداور پنجاب حکومت کی طرف سے دی گئی سبسڈی تھی۔2018میں جب تحریک انصاف کی حکومت بنی تواس ملک میں اضافی چینی موجود تھی تاہم ایڈوائزر کامرس اینڈ پروڈکشن کی سربراہی میں شوگر ایڈوائزری بورڈنے دس لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی سفارش کی جس کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے منظوری بھی دی تھی اگرچہ اس وقت کے سیکرٹری فوڈ نے اگلے سال چینی کی کم پیداوار کا خدشہ ظاہر کیا تھا لیکن اس کے باوجود چینی کی برآمد کی اجازت دی گئی جس پر پنجاب نے سبسڈی بھی دی۔تحقیقاتی کمیٹی نے رپورٹ میں چینی کی اضافی خریداری اور سٹہ پریکٹس کی بھی نشاندہی کی جس سے رمضان المبارک کے دوران چینی کی فی کلو پیداوار سو روپے کلو سے زائد بھی جاسکتی ہے ۔اس سب کے پیچھے شوگر ملز اور ہول سیل ڈیلرز کی موجودگی کی نشاندہی کی گئی تاہم یہ کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کا کمیشن اس حوالے سے شواہد اور موجود افراد کو سامنے لاسکتا ہے ۔رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ کمیشن شوگر انڈسٹری کا فارنزک آڈٹ کرے گا جس سے آئندہ کے لئے ملک کے زرعی پالیسی مرتب کرنے میں مدد ملے گی ۔ دوسری جانب گندم بحران پر تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ صوبائی وزیر خوراک پنجاب چوہدری سمیع اللہ آٹا بحران کے دوران مناسب اقدامات نہ اٹھانے کی وجہ سے اس بحران کے ذمہ دار ہیں، گندم کے بحران کی بڑی وجہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے پلاننگ نہ ہونا ہے ۔ پنجا ب فوڈ ڈیپارٹمنٹ نے 20-22دن تاخیر سے گندم جمع کرنا شروع کی اور فلور ملز کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہا۔ فلور ملز مالکان نے پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ کی ڈیمانڈ اور سپلائی پورا نہ کرسکنے کی اہلیت کو جانتے ہوے فائدہ کمانے کیلئے مہم چلائی اور پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ ڈیمانڈ اینڈسپلائی کیلئے طریقہ کار بنانے میں ناکام رہا ، پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ نے صورتحال کے پیش نظرفیصلے نہیں لئے ۔پنجاب میں گندم کا ہدف پورا نہ کر سکنے کی ذمہ داری سابقہ فوڈ سیکرٹری نسیم صادق ، سابقہ فوڈ ڈائریکٹر ظفر اقبال پر عائد ہوتی ہے ۔ سندھ میں کم گندم حاصل کرنے کی ذمہ داری کسی پر انفرادی طور پر نہیں ڈالی جا سکتی،سندھ کابینہ نے گندم حاصل کرنے کی سمری پر کوئی فیصلہ ہی نہیں کیا۔خیبر پختونخوا میں گندم خریداری کا ہدف پورا نہ کرنے پر وزیر قلندر لودھی،سیکرٹری اکبر خان اور ڈائیریکٹرسادات حسین ذمہ دار قرار پائے گئے ۔ایم ڈی پاسکو کی گندم خریداری کی رپورٹ درست نہیں تھی۔وزارت فوڈ سکیورٹی نے ای سی سی کو غلط اعدادوشمارپرگندم برآمد کرنے کا مشورہ دیا۔2019ء میں گندم کی پیداوار کا غلط اندازہ لگایا گیا۔ جبکہ مالی سال 2019-20ء میں ایک لاکھ 63 ہزار ٹن گندم برآمد کی گئی۔ گندم کی برآمد اوردرآمد میں تاخیر کی وجہ سے بے چینی پھیلی جس سے لوگوں نے ذخیرہ اندوزی شروع کردی۔گندم کی برآمد پرپابندی نومبر کی بجائے جون 2019ء میں لگنی چاہیے تھی۔ سندھ حکومت کے گندم سٹاک میں بڑے پیمانے پر چوری ہوئی، گندم خریداری نہ کرنے پر ذمہ دار سندھ حکومت ہے ، گندم کی خریداری کا آڈٹ کیا جائے ۔ ملک میں گندم اور آٹے کے بحران میں فلورملز ایسوسی ایشن کی ملی بھگت ہے ، 13 دسمبر 2019 کو مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے فلورملز پر ساڑھے 7 کروڑ روپے کا جرمانہ کیا، فلور ملز ایسوسی ایشن نے مسابقتی کمیشن کے جرمانے کو عدالت میں چیلنج کردیا، مسابقتی کمیشن آف پاکستان کا تحقیقات کا طریقہ کار بہت سست ہے ، 13 سال میں مسابقتی کمیشن نے 27 ارب روپے جرمانے میں سے 3 کروڑ 33 لاکھ وصول کیا، ای سی سی کو بے خبر رکھنے پر صاحبزادہ محبوب سلطان معقول جواب نہ دے سکے ۔