مقبوضہ کشمیر میں تمام مقامی اداروں کے سربراہان بھارت کے سفاکانہ،ظالمانہ اورجابرانہ شکنجے میں پس رہے ہیں، جوتحریک آزادی کشمیر سے والہانہ انداز کے ساتھ جڑے ہوئے، سچ لکھتے ہیں اورحق کی صدا کرتے ہیں۔ اسی شرمناک سلسلے کی یہ کڑی ہے کہ کشمیریوں کوآزادی کاشعور بخشنے والی صحافت ایک بار پھر اپنی تاریخ کے ایک غیرمعمولی مرحلے سے گزر رہی ہے۔گذشتہ تین دہائیوںسے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبرپرلکھنے اوربولنے پر شدید قدغن عائد ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی بندشیں ہیں۔لیکن اس قدغن کے باوجود مقبوضہ کشمیرکئی بے باک اورجری تجزیہ کار ،دانشور اور محققین موقع ملنے پر ریاستی دہشت گردی کاپردہ چاک کرتے ہوئے بھرپورطریقے سے اپنافریضہ انجام دیتے چلے آرہے تھے مگراب چن چن کرایسے صاحبان قلم کوگرفتارکرکے پس از زندان دھکیلا جا رہا ہے۔صورتحال یہ ہے کہ کشمیرکے ایسے صحافی جبرکی گرفت میں ہیں اور زیرعتاب لانے کے لئے ان کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔تاریخ بتلارہی ہے کہ ہردورمیںجابرانہ نظام کا یہ ایک آزمودہ ہتھکنڈہ رہاہے کہ جوکھل کر باطل کو باطل کہے اورکڑواسچ لکھے تواس کی گردن دبوچ لو۔ یہی ہتھکنڈہ مقبوضہ ریاست جموںوکشمیر پرنافذ ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے نوجوان مسلمان صحافیوں کی گردن دبوچی جارہی ہے ۔جسدِ صحافت میں پیوست کانٹوںسے جو ٹیسیں اٹھ رہی ہیں،اسے خوفزدہ ہوکر اخبارات کے مالکان نے ہاتھ کھڑے کئے ہیں اوران کی خوفزدگی کاعالم یہ ہے کشمیر میںجو250سے زائداخبارات شائع ہوتے ہیں، ان میں آپ کوکسی ایک اخبارمیںتحریک آزادی کوتقویت دینے سے متعلق کوئی خبریاکوئی بیان نظر نہیں آئے گا ۔خوف اس قدرہے کہ کوئی صحافی کسی اخبار کوایسا کالم بھیجتا بھی ہے کہ جس میں بھارتی بربریت کوطشت از بام کیاگیا ہو،تو اخبارکا ایڈیٹوریل بورڈ اس ڈرکے باعث کہ کہیں اسے بھی رگڑانہ لگ جائے بیک جنبش قلم اسے ردی کی نذرکرکے بے معنی کر دیتاہے۔ 17اپریل 2022اتوار کی شب کو سٹیٹ اِنویسٹگیٹنگ ایجنسی یا(SIA) نے سرینگر میں قائم ایک انگلش ڈیجیٹل میگزینTHE KASHMIR WALA کے دفتر پر چھاپے کے دوران ایک نوجوان محقق اعلیٰ فاضلی کو 6 نومبر2011 یعنی تقریباً11 برس قبل سرینگر سے شائع ہونے والے اس میگزین میں شائع ہونیوالے ان کے ایک ایسے ہی مضمون جس میں کشمیر کی متنازعہ حیثیت اور کشمیریوں کے حق خودارادیت پر سچائی، صداقت اور حقائق پرمبنی باتوں کو ابھارا گیاتھا، اعلیٰ فاضلی کو گرفتار کرکے عقوبت خانے پہنچایاگیا۔ یہ مضمون اعلیٰ فاضلی نے2010 کوپیش آئے ایک خونین واقعے کے بعد بھارت مخالف احتجاجی تحریک کے پس منظر میں لکھا تھا۔ اس احتجاجی تحریک کا آغاز ضلع کپوارہ کے مژھل گاؤں میں تین کشمیری مسلمان مزدوروں کو قابض بھارتی فوج نے ایک جعلی جھڑپ کاڈھونگ رچاکرشہیدکردیا تھا،جس کے بعد میں مظلوم شہداء کے حق میں مظاہرے ہوئے ،مظاہرین پرقابض بھارتی فوج کی اندھا دھند فائرنگ سے بیسیوں نوجوان شہید ہوئے تو اعلیٰ فاضلی نے اسی پس منظر میں ایک مضمون’’غلامی کی زنجیریں‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا۔ جس میں لکھا کہ بھارت کشمیرکی تحریک آزادی کے سامنے بھارت بے بس ہے اور یہ ہماری پُرعزم مزاحمت، استقامت اور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ ہمارے لیے باعثِ اطمینان ہے اور اس اُمید کے ساتھ آزادی کی طرف یہ سفر جاری رکھنا ہو گا کہ اس کے بعد خوشی کا وقت آئے گا۔لیکن11برس کی تاخیر کے بعد اعلیٰ فاضلی کی تحریر کے خلاف کارروائی کرنے پر وادی کشمیرمیںبھارتی پولیس فورس کے ترجمان کانہایت بھونڈے اورمضحکہ خیزطریقے کہنا تھا کہ اس مضمون میں بار بارآزادی کا حوالہ اور مجاہدین تنظیموں جیسا لہجہ اختیار کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ محض پراپیگنڈا نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کی آئی ایس آئی اور اسکے پروردہ دہشت گرد نیٹ ورک کا نظریہ ہے۔ اعلیٰ فاضلی کشمیر یونیورسٹی کی طلبہ سیاست میں کافی سرگرم رہ چکے ہیں۔ 2016 میں الجزیرہ ٹی وی پر انڈیا مخالف تبصرہ کرنے پر ان کے خلاف 2017 میں بھی ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا اور انھیں اس سلسلے میں انڈیا کے وفاقی تحقیقاتی ادارے این آئی اے نے نئی دلی تفتیش کے لیے طلب کیا تھا۔طلبہ کی طرف سے احتجاج کے بعد انھیں کئی ہفتوں بعد رہا کیا گیا تھا۔اعلیٰ فاضلی کی گرفتاری سے چند روز قبل کشمیر لا کالج کی انتظامیہ نے کالج کے پرنسپل اور معروف ماہر قانون ڈاکٹر شیخ شوکت حُسین کو کالج سے برطرف کرنے کا اعلان کیا تھا۔کسی پولیس تھانے میں ان کی طلبی تو نہیں ہوئی اور نہ کوئی مقدمہ درج ہوا۔ تاہم کالج انتظامیہ نے ایک بیان جاری کر کے اُنھیں کشمیر میں پاکستانی حمایت یافتہ علیحدگی پسند تنظیموں کا (نظریہ ساز) قرار دیا۔ 2016 برہان وانی کی شہاد ت کے بعد احتجاجی تحریک کے دوران نئی دلی کے پریس کلب میں ’’آزادی واحد راستہ‘‘ کے عنوان سے منعقدہ کنونشن میں ڈاکٹر شوکت کی شرکت اور وہاں پر کی گئی حکومت مخالف تقریر کا بھی اس بیان میں ذکر تھا۔ کشمیرمیں بھارتی پولیس کاکہناہے کہ ڈاکٹرشوکت کا مجاہدین کے ساتھ رابطے ہیں اور ان کے متعلق مزید معلومات جمع کی جا رہی ہیں۔ اعلیٰ فاضلی کی گرفتاری اورڈاکٹر شیخ شوکت کی برطرفی سے قبل فروری 2022کوکشمیرکے ایک معروف صحافی فہد شاہ کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا اور انہیں کالے قانون ’’پبلک سیفٹی ایکٹ‘‘کے تحت جیل بھیج دیا گیا۔فہد شاہ پر الزام تھا کہ انھوں نے حیدرپورہ سر نگر میںہونے والی مسلح جھڑپ کوجعلی انکوائنٹر قرار دیکر قابض بھارتی فوج اورکشمیر کی سفاک پولیس کے خلاف عوام میں نفرت ابھارنے اور تشدد پر اکسانے کی کوشش کی تھی جبکہ ایک فوٹوجنرنلسٹ سجاد گُل بھی فی الوقت ایسے ہی الزامات کے تحت جیل میں ہیں دونوں ’’کشمیر والا میگزین‘‘سے وابستہ تھے۔ کشمیر کے ایک اورصحافی آصف سلطان کئی سال سے جیل میں ہیں۔ اسی طرح 2019 میں انڈین حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا درجہ ختم کرنے کے بعد کشمیرکے ایسے کالم نگاروں، مدیروں اور آزادانہ طور کام کرنے والے صحافیوں کو بھی پابندیوں کا سامنا ہے جوبھارتی بربریت کو طشت ازبام کرتے رہے ہیں۔سرینگر سے شائع ہونیوالے تقریباً 250 انگریزی اور اُردو اخبارات میں اب حالات سے متعلق کوئی تنقیدی تجزیہ یا تبصرہ شائع نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مستقل ہفتہ وار کالم بھی دو سال سے معطل ہیں۔