مہنگائی کا ایک طوفان پاکستانی قوم پر حملہ آور ہے۔پٹرول کی قیمت مزید 24.03روپے اور ڈیزل کی قیمت 59.16روپے فی لیٹر بڑھا دی گئی ہے۔اب پٹرول کی نئی قیمت 233.89اور ڈیزل کی قیمت 263.31روپے فی لٹر ہے۔یہ بات بھی سمجھ نہیں آئی کہ قیمت پورے عدد میں کیوں نہیں بڑھائی جاتی۔اعشاریہ 03اور اعشاریہ 89کا استعمال کیوں ضروری ہے جبکہ یہ ریز گاری تو پاکستان میں موجود ہی نہیں ہے۔ گمان غالب ہے کہ اگر تحقیق کی جائے تو کوئی نہ کوئی پارٹی اس اعشاریہ سسٹم سے بھی فائدہ اٹھا رہی ہو گی۔چند ماہ پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاکستان میں اس درجہ قیمت بڑھانا بھی ممکن ہو سکتا ہے۔پچھلے اکیس دن میں پٹرول کی قیمت 84روپے اور ڈیزل کی قیمت 109روپے فی لٹر بڑھائی گئی ہے۔اگر حکومتی زعماء کے بیانات پر غور کیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ اتنے ذمہ دار عہدوں پر فائز لوگ اس قدر غلط بیانی کے مرتکب بھی ہو سکتے ہیں۔آخری قیمت بڑھانے سے ایک دن پہلے جناب وزیر اعظم نے خود کہا کہ آج قیمت نہیں بڑھائی جائے گی۔لیکن رات کو وزیر خزانہ نے اعلان کر دیا کہ رات 12بجے سے نئی قیمت نافذ العمل ہو گی۔سیاستدانوں کی بدقسمتی ہے کہ آج کل ان کے بیانات ریکارڈ ہو جاتے ہیں اور اپنے پرانے بیانات سے مکرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مفتاح اسماعیل کا چند ماہ پہلے کا یہ بیان بار بار دکھایا جا رہا ہے کہ پاکستانی عوام کس طرح 137روپے لٹر پٹرول خریدنے کے متحمل ہو سکتے ہیں اور وہ حکومت کو مزید ایک روپیہ فی لیٹر بڑھانے کی بھی اجازت نہیں دیں گے۔جیسے ہی وہ خود حکومت میں آئے ہیں انہوں نے اکیس دن میں 84روپے فی لیٹر قیمت بڑھا دی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری دنیا میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔لیکن حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ عوام کو اعتماد میں لیں اور انہیں پوری صورت حال سے آگاہ کریں نہ کہ انہیں بے وقوف بناتے رہیں اور خود بھی اپنے پرانے بیانات دیکھ کر شرمندہ ہوتے رہیں۔عوام کو یہ بھی نظر آنا چاہیے کہ ان کی حکومت نے عوام پر بوجھ ڈالنے سے پہلے سارے ممکنہ حل تلاش کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور عوام کو ریلیف دینے کے لئے ان کے پاس کوئی طویل مدتی منصوبہ بھی موجود ہے۔مثال کے طور پر روس سے سستا تیل خریدنے کے لئے انہوں نے کون سی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ صرف یہ جھوٹا بیان دے دینا کافی نہیں ہے کہ روس سے خریداری پر پابندی ہے۔عوام بخوبی جانتے ہیں کہ تاحال ایسی کوئی بین الاقوامی پابندی نہیں ہے اور متعدد ممالک روس سے تیل خرید رہے ہیں۔اب تو روسی سفیر بھی گواہی دے چکے ہیں کہ وہ پاکستان کو تیل اور گیس کی فراہمی کر سکتے ہیں۔سب بے بڑھ کر یہ کہ امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی بھارت بھی روس سے تیل خرید رہا ہے۔سری لنکا جیسا چھوٹا ملک بھی روس سے سستے تیل کا خریدار ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اپنے حکمرانوں کی بزدلی‘ خوف اور خوئے غلامی کی وجہ سے روس سے سودا کرنے سے گھبرا رہے ہیں۔یہ عوامی تاثر کسی بھی حکومت کے لئے باعث اعزاز نہیں ہو سکتا۔طویل مدت کے لئے عوام کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ایک اور خطرناک روایت جو ہماری سیاست کا حصہ بن چکی ہے کہ ہر آنے والی حکومت گزشتہ حکومت کو ہی ساری برائیوں کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ جب محترمہ مریم نواز کو یاد دلایا گیا کہ آپ نے فرمایا تھا کہ اگر پٹرول کی قیمت بڑھتی ہے تو وزیر اعظم چور ہوتا ہے تو انہوں نے ڈھٹائی سے جواب دیا کہ میں اب بھی اپنے بیان کے ساتھ کھڑی ہوں کہ جو قیمت اب بڑھائی گئی ہے تو عمران خان چور ہے چونکہ یہ معاہدہ ان کی وزارت عظمیٰ کے دوران کیا گیا تھا۔اس سے پہلے موجودہ حکومت کے سب ذمہ دار لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ کریں گے۔بلاول بھٹو نے بھی یہی دعویٰ کیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف سے بہتر معاہدہ کریں گے۔ اگر موجودہ حکومت نے بھی عمران خان کے نقش قدم پر ہی چلنا تھا تو پھر حکومت کو تبدیل کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔عمران خان نے اگر 2019ء میں آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا تھا تو اس نے2022ء تک اس نوعیت کے مہنگائی کے حملے نہیں کئے تھے اور پی ٹی آئی کی معاشی ترقی کی شرح بھی قابل رشک تھی۔وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے کیا گیا معاہدہ عوام کے سامنے رکھیں گے۔ اس میں دیر کس چیز کی ہے۔انہیں فوری طور پر عوام کو اعتماد میں لینا چاہیے اور معاہدے کو سامنے لانا چاہیے۔لیکن عوام ہر حکومت کی آخری ترجیح ہوتی ہے۔عوام صرف ووٹ دینے اور بے وقوف بنانے کے کام آتے ہیں۔ مفتاح اسماعیل چاہتے ہیں کہ عام لوگ روٹی کا چوتھا حصہ کھائیں اور پلاننگ کے وزیر جناب احسن اقبال اس نازک صورت حال میں کوئی نادر منصوبہ بندی کرنے کی بجائے چائے کا استعمال کم کرنے پر زور دے رہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں کفایت شعاری کو اپنانا چاہیے لیکن یہ کفایت شعاری اوپر سے شروع ہونی چاہیے۔حکومت کو اپنے اخراجات کم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔خبر عام ہے کہ وزیر خزانہ کے گھر کی تزئین و آرائش پر 48لاکھ روپے خرچ کئے گئے ہیں۔اگرچہ انہوں نے اس کی تردید کر دی اور ہو سکتا ہے کہ عام حالات میں یہ ان کا استحقاق بھی ہو۔لیکن کیا حکومت پاکستان نے کوئی ایسے احکامات جاری کئے ہیں کہ آئندہ حکم تک کوئی وزیر اپنی رہائش گاہ کی تزئین و آرائش نہیں کرے گا یا اس کا زیادہ سے زیادہ خرچ ایک لاکھ روپیہ ہو گا۔ ایسا کوئی حکم ہماری نظر سے نہیں گزرا۔وزیر اعظم ہائوس کے سوئمنگ پول کی Renonationکے لئے ساڑھے سات کروڑ روپے خرچ کرنے کی خبر بھی زبان زد عام ہے اور تاحال اس کی تردید بھی نہیں کی گئی۔ان حالات میں قوم کو کفایت شعاری کا سبق دینا کیا حکمرانوں کو زیب دیتا ہے۔حکمرانوں کو عوام کے سامنے کفایت شعاری کی عملی مثال دینا ہو گی جیسا کہ قائد اعظم محمد علی جناح دیتے تھے۔زراعت ‘ انڈسٹری نئے روزگار کے مواقع‘آئی ٹی کی ایکسپورٹ جیسے منصوبے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔فی الحال تو نئے ٹیکس لگانے پر زور ہے اور پہلے سے موجود کاروبار بھی تباہ ہو رہے ہیں۔سٹاک مارکیٹ‘ ایکسپورٹ اور نئے کاروبار کی آسانی‘ سب میں منفی رجحان دیکھا جا رہا ہے۔حکومت ملی ہے تو حکومت کر کے بھی دکھائیں۔ ٭٭٭٭٭