پاکستان اس وقت تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے ملکی اکانومی اس وقت بدترین صورتحال سے دوچار ہے۔ ڈالر دو سو روپے سے صرف 5 روپے کے فاصلے پر ہے۔ سٹاک ایکسچینج اس وقت بدترین صورتحال سے دوچار ہے ۔ہر روز لوگوں کے اربوں روپے ڈوب رہے ہیں۔ کثیر جماعتی اتحاد جو اس وقت حکومت میں ہے شدید کشمکش کا شکار ہے۔کسی کو سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کیا جائے۔کچھ لوگ فوری الیکشن کے حق میں ہیں اور کچھ چاہتے ہیں کہ اسمبلیاں اپنا وقت پورا کریں۔حکومتی اتحاد کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز میں اس وقت دو رائے ہیں۔ شہباز شریف اور ان کے نکتہ نظر سے اتفاق کرنے والے حکومت پوری مدت تک کرنا چاہتے ہیں۔ مریم نواز اور نواز شریف کی رائے ہے کہ الیکشن فوری ہوں۔ حکومتی اتحاد کی دوسری بڑی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی بھی فوری الیکشن کے حق میں نہیں ہے۔مولانا فضل الرحمان فوری الیکشن کے حق میں ہیں۔ پاکستانی معاشرہ کو جو مسئلہ سب سے زیادہ در پیش ہے وہ شدید قسم کی پولرائزیشن ہے۔ سیاسی اختلاف اس وقت پورے عروج پر ہے۔ اس وقت لیڈر اس بات پر راضی ہیں کہ مذاکرات کئے جائیں اور ناں عوام اس وقت کسی مصالحت کے چکر میں ہیں۔ عمران خان جو ایک وقت میں بہت کمزور حکمران تھے، جن سے سول بیورو کریسی سنبھالی نہیں جارہی تھی، ملک کا سب سے بڑا صوبہ بد انتظامی کا شکار تھا، بزدار کی شکل میں عمران خان کی ضد تھی۔اس دوران میں جتنے تبادلے ہوئے وہ بھی ایک ریکارڈ ہے۔ وزیر خزانہ ہر بجٹ پے نیا تھا۔ کوئی چیف سیکرٹری اور آئی جی اپنی مدت پوری نہیں کرسکا۔ مہنگائی کا جن بے قابو تھا۔ اب اس حکومت کے آنے کے بعد صورتحال بہتر ہونے کے بجائے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ حکومت یہ فیصلہ نہیں کرسکی کہ پٹرول کی قیمت زیادہ کی جائے یا اسکو برقرار رکھا جائے۔ کہتے ہیں کہ کسی فیصلہ پر نہ پہنچنا اس سے بری بات ہے کہ فیصلہ غلط کیا جائے۔ فیصلہ اچھا یا برا اپنے وقت پر ہونا چاہئے ۔ فیصلہ کا نہ ہونا بحرانی صورتحال سے دوچار کرتا ہے۔ عمران خان کے بارے بہت سے تبصرہ نگاروں کی یہ رائے تھی کہ یہ حکومت سے نکل کر بہت خطرناک ہو جائیں گے۔عمران خان کی مقبولیت کا گراف آئے دن بڑھ رہا ہے اور حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔پنجاب کی کابینہ ابھی تشکیل نہیں پائی۔ اس حکومت کے فیصلے پاکستان سے ہونگے یا لند ن سے یہ بھی ایک غور طلب بات ہے۔اس وقت اگر کوئی سکون میں ہے تو وہ آصف علی زرداری ہیں جنہوں نے وفاقی حکومت میں اپنی جگہ بنا لی ہے، سپیکر انکا ہے۔وہ پنجاب میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پر اپنے امیدوار کامیاب کرانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے کیسز ختم ہو جائیں گے۔عمران خان نے حکومت گنوائی ہے مگر مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔نواز شریف اور مریم نواز کو اس ہل چل میں سے کچھ نہیں ملا۔نواز شریف ابھی پاکستان نہیں آ سکتے اور مریم نواز ابھی پاکستان سے باہر نہیں جا سکتیں۔ مقتدر حلقے بھی اس وقت تک ہارنے والی سائیڈ پر نظر آرہے ہیں۔انکا امیج کافی حد تک خراب ہوا ہے۔ اب اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں پاکستان سری لنکا کی ڈگر پر ناں چل نکلے۔ وہاں پر عوام کا رد عمل جو حکومت کے اراکین کے خلاف آیا ہے ابھی پاکستان میں اس کی ہلکی سی جھلک بھی نظر نہیں آئی۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک متفقہ عبوری حکومت قائم ہو اور جلد سے جلد الیکشن ہوں اور ایک با اختیار حکومت وجود میں آئے اور وہ ذمہ داری کے ساتھ قومی مفاد کے فیصلے کرے۔ اب ملک کا جو حال ہے ہم سب کو ملکر فیصلہ کرنا ہوگا کہ سادگی اور میرٹ کے کلچر کو پروان چڑھایا جائے۔ حکومتی اراکین اور سول ، ملٹری بیورو کریسی کی بے جا مراعات ختم کی جائیں۔ عدلیہ میں بھی سادگی کا کلچر عام ہو۔ اگر یہ اقدامات جلد نہ ہوئے تو ملک انارکی کی طرف جلد چلا جائے گا۔ کوئی چھوٹا سا حادثہ ملک کو بحران کی حالت میں ڈال سکتا ہے۔اس وقت ایک خونی انقلاب کی آبیاری ہو چکی ہے۔ عوام کے اندر ناانصافی اور غنڈہ گردی کے خلاف لاوہ پک چکا ہے۔ جس طرح ایک عام آدمی کی عزت نفس خاک میں مل چکی ہے،ہمارے اعلی طبقہ کو اب ہوش کے ناخن لینے ہونگے۔ اس وقت سارے خطے کی فضا بڑی خطرناک ہے۔ انڈیا میں عام آدمی پارٹی کی شکل میں ایک پر امن انقلاب سر اٹھا رہا ہے۔سری لنکا میں خاندانی سیاست اپنے آخری سانس لے رہی ہے۔نیپال میں مہنگائی نے عام آدمی کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ کورونا کے اثرات غریب ملکوں میں سیاسی عدم استحکام کی صورت میں ظاہر ہورہے ہیں۔ ملک کے سب اکابرین کو اپنے اختلاف بھلا کر کوئی مشترکہ لائحہ عمل سامنے لانا چاہیے۔ اس وقت ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے اور جس طرح کی افواہیں سی پیک کے متعلق عوام میں گردش کر رہی ہیں وہ ہمارے موجودہ حکمران طبقہ کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔اس وقت ہم عام حالات میں نہیں ہیں اس وقت ہم ایک ان دیکھی جنگ میں شامل ہیں۔ اس وقت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی افواہیں بھی زبان زد عام ہیں۔ انڈیا کے ساتھ تجارت بھی ایک دکھتی رگ ہے۔ اب عمران پر بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی تحریک کو تشدد سے پاک رکھیں۔ کوئی عام سا واقعہ چنگاری بن سکتا ہے۔ عمران خان کو اپنا لہجہ نرم کرنا ہوگا اور ان دنوں جاوید ہاشمی کی یاد بھی انکو آتی ہو گی۔ جاوید ہاشمی نے عمران خان کو کہانی والی چوتھی سمت جانے سے منع کیا تھا مگر وہ نہیں ٹلے اور اب پتھر کے بن گئے ہیں ۔ انکو یاد آتا ہو گا کہ کیوں جاوید ہاشمی انکو اس چوتھی سمت جانے سے روکتے تھے۔ جو بھی اس سمت گیا پھر واپس نہیں آیا۔ چوتھی سمت صرف کہانی میں نہیں ہوتی عام زندگی میں بھی ہوتی ہے۔ اس سمت جانے والا لوٹ کے واپس نہیں آتا۔