پاکستان کے صدور، وزرائے اعظم اور اعلی حکومتی حکام کو غیر ملکی معززین سے ملنے والے تحائف کو سرکاری ’’توشہ خانہ‘‘میں رکھا جاتا ہے۔توشہ خانہ کابینہ ڈویژن کے انتظامی کنٹرول کے تحت ایک سرکاری محکمہ ہے، جو1974ء میں قائم کیا گیا اوراس کے کچھ قواعد وضوابط تشکیل پائے تھے ۔جن میں سے ایک یہ کہ جوحکومتی اعلیٰ عہدے دارموصول شدہ ان تحائف میں سے کوئی تحفہ اپنے پاس رکھنا چاہئیں وہ کل قیمت 15 فیصدادا کر کے ایسا کر سکتے ہیں، دسمبر2018 میں قوانین پر نظر ثانی کی گئی تھی جس کے تحت ان تحائف کو رکھنے کے لیے 50 فیصد ادائیگی کی ضرورت تھی۔تاہم ہردورمیںمحکمہ توشہ خانہ جس طرح سے چلایا جا رہا ہے وہ صرف بدعنوانی اور ایک اور سرکاری سہولت کے غلط استعمال کی حوصلہ افزائی کررہا ہے۔ عمران خان کے برسراقتدار آنے کے بعد پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے شورڈالاگیاکہ پاکستان کے سابق صدرآصف علی زرداری اور دو سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف نے توشہ خانہ کی گاڑیاں کم قیمت پر خریدیں اوراس میں کئی طرح کی بے ضابطگیاں کیںجسے بنیاد بناکران پر نیب میںکیسز بنائے گئے ہیں۔اس حوالے سے نیب نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے تھے جبکہ سابق صدر آصف زراری اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کئی بار طلب کیا گیا ہے۔توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت کے دوران عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم نواز شریف کو پاکستان کے سرکاری توشہ خانہ سے گاڑیاں لینے جبکہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو گاڑیاں دینے کے الزام میں طلب کیا تھا۔ نیب نے عدالت کو بتایا ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف نے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے غیر قانونی طور پر گاڑیاں حاصل کیں۔نیب کے مطابق 2008 میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے قواعد میں نرمی کرتے ہوئے صرف پندرہ فیصد رقم کی ادائیگی کرکے یہ گاڑیاں آصف زرداری اور نواز شریف کو دینے کی منظوری دی۔ نیب کا الزام ہے کہ آصف علی زرداری نے گاڑیوں کی کل مالیت کی صرف 15 فیصد ادائیگی کی۔سابق صدر آصف زرداری کو بطور صدر لیبیا اور یو اے ای سے بھی گاڑیاں تحفے میں ملی تھیں۔ نیب ذرائع کے مطابق ان نئے ماڈلز کی تین گاڑیوں کی اصل قیمت6 کروڑ تھی۔ تاہم ابتدائی طور پر صرف 90 لاکھ کی ادائیگی کی گئی جبکہ ایکسائز آفس کے اعتراض پر مزید رقم جمع کروائی گئی اور یوں تینوں گاڑیاں2کروڑ کی ادائیگی پر آصف زرداری کے نام کر دی گئیں۔ لیکن2021 سے ایک بار پھرتوشہ خانہ سرخیوں میں رہااوراس دفعہ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف شورمچاکہ انہوں نے بھی توشہ خانہ سے قیمتی تحائف پاس رکھے ہیں۔اپوزیشن کی طرف سے بار بار سوال اٹھایاگیاکہ عمران خان بتائیں کہ انہیں کتنے تحفے ملے اوران میں سے وہ اپنے گھر کیاکچھ لے گئے تاہم تحریک انصاف اس ایشوپر بات کرنے سے گریزاں رہی۔ معلومات کو پبلک ڈومین سے باہر رکھنے پر ان کے اصرار نے فطری طور پر قیاس آرائیوں کو جنم دیا کہ توشہ خانہ کا انتظام کس طرح کیا جا رہا تھا۔چندیوم قبل جب الزامات سامنے آئے کہ سابق وزیراعظم نے توشہ خانہ سے کئی قیمتی تحائف محض 20فیصد پروصول کرکے اس میں سے ایک قیمتی گھڑی کو80 فیصداضافی قیمت کے ساتھ دوبئی کی مارکیٹ میں فروخت کی اوریہ وہ گھڑی تھی کہ جو سعودی عرب کے ولی عہد کی جانب سے دی گئی تھی۔ عمران خان پرتوشہ خانہ سے 140ملین روپے کے تحائف اپنے پاس رکھنے اورپھر ان میں سے کئی تحائف کودوبئی کی انٹرنیشنل مارکیٹ میں فروخت کرنے پرسب حیران رہے۔ عمران خان کااقتدار میں آنے پر امیدیں باندھ گئیں تھیں کہ اب پاکستان کا حکمران قوم سے جھوٹ نہیں بولے گااورقوم کودھوکے میں مبتلا نہیں رکھے گا ،مملکت میں ہورہی چوریوں کوروکے گااورمملکت کی ہرچیزکی نگہبانی کرے گامگر ایسا نہیں ہوسکا۔سوشل میڈیاپرجب اس بات پراودھم مچ گئی تو سابق وزیراعظم کے دست راست فواد چوہدری نے اعلان کیا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے حکومت سے خریدی ہوئی گھڑی بیچ دی تو اس میں کیا جرم ہے؟فوادکاکہناتھاکہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گھڑی کی قیمت 50 ملین ہے یا 100 ملین، اگر یہ میری ہے اور میں نے بیچی ہے تو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اب تازہ صورتحال یہ ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توشہ کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں جاپہنچاہے جہاں20اپریل 2022بدھ کو سابق وزیر اعظم عمران خان کو توشہ خانہ سے ملنے والے تحائف کی معلومات دینے سے روکنے کی درخواست کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے درخواست گزارکومعلومات فراہم کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ معلومات پبلک کرنے پرحکم امتناعی نہیں تواسٹیبلشمنٹ ڈویژن معلومات فراہم کرے۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس میں کہا کہ یہ پالیسی ہونی ہی نہیں چائیے تھی کہ کچھ فیصد رقم دیکر تحفہ گھر لے جائیں۔ ایسی پالیسی بنانے کا مطلب تو یہ ہوا کہ تحفوں کی سیل لگا رکھی ہے۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دئیے کہ حکومت پاکستان کو جو تحفہ دیا گیا ہو وہ اس آفس کوجاتا ہے۔یہ تحائف گھرلے جانے کے لئے نہیں ہیں۔ بیرون ملک سے ملے تحائف کوئی گھر لے گیا ہے تو واپس لیں۔لوگ آتے اور چلے جاتے ہیں وزیراعظم آفس وہیں رہتا ہے۔جسٹس میاں گل حسن کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ گزشتہ بیس سال کے تحائف کو بے شک اسی طرح دیکھ لیں۔ اگر کوئی آئینی تشریح اس پر کرنی ہے تو ہم کر دیں گے۔ وفاق کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل نے نئی حکومت آنے کے بعد جواب کے لئے وقت مانگ لیا۔ وفاق کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد کیانی عدالت میں پیش ہوئے اورہدایت لینے کے لئے مہلت کی استدعا کی۔ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نئی حکومت سے رابطے میں ہے جو بھی ہدایات ہوں گی اس سے متعلق آگاہ کریں گے۔درخواست گزارکے وکیل رانا عابد نذیر نے موقف اختیارکیا کہ تحائف کی معلومات شئیرکرنے سے دیگرممالک سے تعلقات متاثرہوں گے۔ تحائف کی فروخت کا معاملہ سامنے آیا ہے توکیا عزت رہ جائے گی۔عدالت نے وفاق کو 2 ہفتوں میں جواب جمع کرانے کی ہدایت کی۔