یہ وقت بھی آنا تھا کہ آج ایک سو اڑتیس سال بعد بھی ایک بات میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ قدامت پسند مغربی دانشوروں نے چالیس سال پہلے جو حکمرانی کا ماڈل یا ڈھانچہ تشکیل دیا تھا ،آج شکا گو سے لیکر پاکستان اور لندن سے لیکر ڈھاکہ تک مسترد کیا جا رہا ہو گا۔آپ سے زیادہ اس ڈھا نچہ کا کون ڈ سا ہوا ہے؟آئیے اس ماڈل کا مختصر سا پوسٹ مارٹم کریں۔ آپکو شاید معلوم ہو کہ پاکستان کی 65 فیصد قابل کاشت زمین پر پندرہ فیصد جاگیرداروں کا قبضہ ہے۔جی ہا ں قبضہ انگریزوں کی تابعداری کے صلہ میں انکے آباو اجداد کو ملا تھا۔ مجموعی طور پرہمارے ملک میں دس فیصد امیر ترین افراد کے پاس اٹھائیس فیصد،جبکہ دس فیصد غریبوں کے پاس کل دولت کا صرف چار فیصد ہے،دنیا کے امیر ترین سرمایہ دار ممالک میں پچھلی چار دہائیوں میں دولت کی تقسیم بد تر ہو گئی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جن ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک میں جتنی زیادہ نا برابری ہے،ان میں اسی تناسب سے سماجی، نفسیاتی، سیاسی اور طبی مسا ئل بھی ہیں۔ مثلا امریکہ میں جرائم کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور جیلوں میں بند قیدیوں کی تعداد بھی گو کہ اسکی آبادی انڈیا اور چین سے کئی گنا کم ہے۔ یاد رہے یہ نابرابری خدائی یا قدرتی نہیں ہوتی بلکہ اسے جان بوجھ کر پیدا کیا جاتا ہے تاکہ سستی لیبر منڈی میں موجود رہے۔دس مزدور نکالیں تو انکی جگہ لینے کیلئے دو سو موجود ہوں،جو حقوق آج ہمارے قا نون اور آئین میں درج ہیں۔ اسکا سہرا بہت حد تک شکاگو کے شہیدوں کو جاتا ہے۔ آئین پاکستان کی شق تین اور اڑتیس بھی جنگ عظیم اول اور دوئم سے پہلے اور درمیان مزدور تحریک کی قربانیوں کا ثمر ہے۔ افسوس کہ ہماری مزدور تحریک ان قوانین پر عمل کروانے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ ہم اس’جرم‘میں اکیلے نہیں۔مغربی سرمایہ دار ممالک میں سوویت یونین کے زوال اور چین کا ریاستی سرمایہ داری کی شاہراہ پر گامزن ہوتے ہی مزدور تحریک کی کامیابیوں مثلا فلاحی ریاست کے خاتمے کی ابتدا کر دی گئی تھی۔ نج کا ری، ریاست کے کردار کو سماجی خد مات (صحت، تعلیم، صاف پانی وغیرہ) سے علیحدہ کر دیا گیا۔ آپ حیران مت ہوں جب ریاستی اداروں پر مالدار طبقے کا قبضہ ہو جائے تو ریاست انہی کی لونڈی ہو گی۔ مگر اسکو ممکن بنانے کیلئے لیبر یونینوں کو کمزور کرنا اشد ضروری ٹھہرا۔ کرونا کی آمد تک زیادہ تر ممالک کی ریاستوں پر انتہائی طاقتور مالدار کاروباری کمپنیوں نے خوبصورت نعروں کی گھن گرج میں قبضہ مکمل کر لیا ہوا تھا۔مگر کرونا نے انکے معاشی اور سیاسی ماڈل کی اہلیت کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا۔ یہ ممالک جن کے پاس دنیا کو سو بار تباہ کرنے کا سامان ہے جن کے پاس مریخ تک پہنچانے کیلئے بندوبست ہے۔ جو عراق پر حملہ کرنے کیلیے چند گھنٹوں میں متفقہ فیصلہ کر سکتے ہیں۔ جو ممالک ویت نام پر نیپام بم گرانے میں ایک منٹ کی تاخیر نہیں کرتے، ان کے پاس اپنی عوام کو بیس روپے کا فیسماسک، کرونا کے مریضو ں کیلئے وینٹی لیٹر اور ڈاکٹروں کی حفاظت کیلئے حفاظتی لباس نہیںتھا، کیونکہ یہ منافع بخش کام نہیں۔ کیا یہ سرمایہ دارانہ نظام اور مغربی تہذیب کیلئے شرم کا باعث نہیں؟ اور جب کرونا لاک ڈاون کے باعث ان مالدار ارب پتیوں کے منا فعے کم ہونے لگے تو انکی تابعدار ریاستو ں نے حاتم طائی جیسی سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکو اربوں ڈالروں کے پیکیج فراہم کر دیئے مگر بیروزگار ہونے والے مزدورں اور چھوٹے کاروبار کرنے والوں کیلئے محض مونگ پھلی کے دانے۔ پاکستان میں بھی کیا یہی کچھ نہیں ہو رہا؟ کون سی قوم اس طرح کی شرم ناک صورت حال کو برداشت کر سکتی ہے؟ یہ کسی غلطی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ حکمرانوں کی سوچی سمجھی پالیسی کا منطقی نتیجہ ہے۔ ذہن میں رکھیے کہ وہ بھر پور کوشش کریں گے اس نظام کو بچانے کی۔ مزدور تحریک اس صورت حال سے بھر پور فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ پا کستان کے آ ئین نے پہلے ہی شق تین، سینتیس اور اڑتیس میں استحصال اور ذرائع پیداوار پر چند خاندانوں کے خاتمے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ شق تین کے مطابق ، ’’مملکت استحصال کی تمام اقسام کے خاتمہ اور اس بنیادی اصول کی تدریجی تکمیل کو یقینی بنائیگی کہ ہر کسی سے اسکی اہلیت کے مطابق کام لیا جائیگا اور ہر کسی کو اس کے کام کے مطابق معاوضہ دیا جائیگا‘‘۔شق 38، ناخواندگی کے خاتمہ اور فرد کیلئے منصفانہ اور سہل شرائط کار کییقین دہانی کراتا ہے، جبکہ آرٹیکل 32اور 140-Aمقامی حکومتوں کی تشکیل اور خواتین، کسان، مزدور اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے کوٹہ کی ضمانت دیتے ہیں۔ شق 38 ’’ریاست عام آدمی کا معیار زندگی بلند کرکے، دولت اور وسائل ِپیداوار وتقسیم کو چند اشخاص کے ہاتھوں میں اس طرح سے جمع ہونے سے روک کر کہ اس سے مفاد عامہ کو نقصان پہنچے اور آجر،اجیر اور زمیندار اور مزارع کے درمیان حقوق کی منصفانہ تقسیم کی ضمانت دے کر بلا لحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل،عوام کی فلاح بہبود کے حصول کی کوشش کریگی۔38(e) مزید واضح کرتا ہے کہ’’ریاست،پاکستان کی ملازمت کی مختلف درجات میں اشخاص سمیت افراد کی آمدنی اور کمائی میں عدم مساوات کو کم کریگی۔‘‘ پچاس سال پہلے تحریر کی گئی شقوں پر عمل درآمد کرانے کا وقت آ پہنچا ہے۔ آئیے اسکی ابتدا کرنے کا عزم کریں اور اس کی پہل اسی طرح سے ہو سکتی ہے کہ آئندہ انتخابات میں ایسے کسی امیدوار کو ووٹ نہ دیئے جائیں، جس کی سیاسی جماعت نے ماضی میں بالعموم عوام اور بالخصوص مزدور کے حقوق غصب کئے جیسے ؛ ای او بی آئی ، سوشل سیکورٹی کارڈز اور کم از کم اجرت پر عملدرآمد نہ کیا ہو۔ مزدوروں کو مجموعی طور پر اب یہ بھی طے کرنا ہوگا کہ وہ صرف ووٹر ہی نہیں ، بلکہ امیدوار کے طور پر بھی سیاست کا حصہ بنیں۔ یادرکھیں،اس وقت تک مزدور کے حالات بہتر نہیں ہوسکتے ، جب تک وہ اپنی نمائندگی ایوانوں تک نہیں پہنچاتا۔