صدر مملکت نے ملکی تاریخ میں پہلی بار کرپشن کی شکایات پر آڈیٹر جنرل آفس کے آڈٹ کے احکامات جاری کرتے ہوئے ایڈیشنل فنانس سیکرٹری ڈاکٹر ارشد محمود کو آڈیٹر مقرر کیا ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی میں متعدد مرتبہ آڈیٹر جنرل آفس کے آڈٹ سے متعلق سوالات اٹھائے گئے تھے۔ روزنامہ 92نیوز کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ آڈیٹر جنرل آفس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ کرپشن سے متعلق شکایات کی بات میں کوئی صداقت نہیں تاہم صدر کی طرف سے ایک ایسے آفس کا آڈٹ کرایا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست ایسے تمام اداروں خصوصاً ان اداروں کو شفافیت کے عمل سے گزارنا چاہتی ہے جو دوسرے محکموں کی بدعنوانیوں یا اعدادو شمار کی جانچ پڑتال کرتے ہیں تاکہ عوام کا ان پر اعتبار اور اعتماد بحال ہو۔ انصاف کا تقاضا تو یہی ہے کہ کرپشن کے حوالے سے کسی بھی ادارے کو کوئی چھوٹ یا رعایت نہ دی جائے کیونکہ بعض ایسے معاملات سے صرف نظر سے پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں اور حکومت کی کارکردگی یا غیر جانبداری پر سوالات اٹھتے ہیں۔بہتر ہو گا کہ آڈیٹر جنرل کے ساتھ ایسے ہی دوسرے تمام اداروں کا بھی آڈٹ کرایا جائے جن کا طویل عرصہ سے آڈٹ نہیں ہوا تاکہ ریاست کے تمام اہم اور بڑے اداروں کو ہر طرح کی کرپشن سے پاک صاف کر کے انہیں ان کے اصل مقاصد کے مطابق ایسے ذمہ دار اور کارآمد ادارے بنایا جا سکے جو ملک و قوم کی فلاح و بہبودکے ساتھ ساتھ کرپشن کے خاتمے میں بھی اپنا کردار ادا کر سکیں۔