1977 کے موسم بہار میں پاکستان میں الیکشن ہوئے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو اس وقت ملک کے وزیر اعظم تھے۔ الیکشن سے پہلے اپوزیشن کی تمام جماعتیں پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو گئیں۔ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل ،پاکستان مسلم لیگ قیوم گروپ،عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان جمہوری پارٹی، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، جمیعت علمائے پاکستان،بلوچستان عوامی پارٹی، تحریک استقلال۔ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی اور وزیر اعظم بلا مقابلہ کامیاب ہو گئے۔ قومی اسمبلی کے الیکشن کے بعد دھاندلی کا الزام لگایا گیا اور صوبائی اسمبلی کے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا گیا۔ الیکشن کے فورا بعد حکومت کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا اور تحریک نظام مصطفے کا آغاز ہو گیا۔ ہر روز جلسہ جلوس ، ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی ، 7 مارچ کو الیکشن ہوئے تھے اور 5 جولائی 1977 کو پاکستان میں مارشل لاء لگ گیا۔ جنرل ضیا الحق نے اقتدار سنبھالا اور 90 دن میں الیکشن کا وعدہ کیا ۔ 1988 میں گیارہ سال بعد جنرل صاحب طیارہ کے حادثہ میں مارے گئے اور انکی موت کے بعد 1988 میں الیکشن ہوئے۔ اس وقت ریڈیو اور ٹی وی حکومت کے کنٹرول میں تھے۔ چند اخبار تھے۔ مشرق، امروز، نوائے وقت، جنگ۔ لوگ ملکی صورتحال کے لئے رات کو 8 بجے بی بی سی سے خبریں سنتے تھے اور اسی طرح حالات حاضرہ کا پروگرام سیربین۔بہت کم عوام کو اس بات کا علم ہے کہ ان تک خبر کیسے پہنچائی جا رہی تھی۔ بھٹو ایک عالمی سازش کا شکار ہوئے ۔ انکا جرم یہ تھا کہ 1974 میں اسلامی ملکوں کے سربراہان کی کانفرنس پاکستان میں بلائی گئی تھی۔ پاکستان نے اپنے ایٹمی پروگرام پر عمل در آمدشروع کردیا تھا۔بھٹو کو قتل کے مقدمہ میں پھانسی کی سزا سنائی گئی اور یوں 4 اپریل 1979 کو پاکستان کا منتخب وزیر اعظم پھانسی کے پھندے پر لٹک گیا۔ بھٹو نے بہت غلطیاں کی تھیں۔بھٹو نے بہت ساری انڈسٹری اور تعلیمی ادارے حکومت کے کنٹرول میں لے لئے۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی انڈسٹری ختم ہوگئی۔ تعلیمی اداروں میں سٹوڈنٹ یونین کا قیام اور ٹریڈ یونین کا قیام یہ سب اقدامات ملک کے مفاد میں نہیں تھے۔ملک میں لوگ آٹے اور چینی کے لئے قطاروں میں خوار ہو رہے تھے۔ روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ ایک ہولناک عذاب بن گیا تھا۔مگر اس سب کچھ کے باوجود ملک کے منتخب وزیراعظم کو جن لوگوں نے اقتدار سے نکالا تاریخ کا حصہ بن گئے۔ ان نو پارٹیوں میں سے ایک آدھ کی باقیات باقی ہیں اور بھٹو قبر میں دفن ہونے کے باوجود اپنی پارٹی کو تین بار اقتدار تک پہنچا چکا ہے۔ صوبہ سندھ میں بھٹو کے نام پر ایک بڑا ووٹ بنک موجود ہے۔ جنرل ضیا کی قبر پر فاتحہ پڑھنے بھی کم لوگ جاتے ہیں۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام جاری ہے۔ تاریخ کا یک سبق ہے کہ اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔اب 45 سال بعد وہی پرانی فلم نئے کرداروں کے ساتھ ریلیز کر دی گئی ہے۔ وہی پرانی دھن ہے البتہ بول نئے ہیں۔ بول اکثر بدل دئیے جاتے ہیں ،دھن کی تیاری میں وقت لگتا ہے سو وہی پرانی کام دیتی ہے۔ اس بار بھٹو کی بجائے عمران خان ہے ۔جرم اسکا بھی وہی ہے کہ یہ امریکہ کوابسولوٹلی ناٹ( ہر گز نہیں )کہتا ہے۔ روس اور یوکرائن کی جنگ میں روس پر تنقید نہیں کرتا۔ اسلامی ممالک کی تنظیم کا اجلاس بلاتا ہے۔1977 میں ایٹمی پروگرام مسئلہ تھا اب سی پیک کامنصوبہ نشانہ پر ہے۔ عمران خان بھلے چلا جائے سی پیک کو روکنا اب کسی کے بس کی بات نہیں۔منگنی سے پہلے رشتہ توڑنا آسان ہوتا ہے جب بارات نکل پڑے تو جواب دینے سے ایسی دشمنی پڑتی ہے کہ کئی نسلیں اس فیصلہ کا خمیازہ بھگتتی ہیں۔ اس سی پیک پر اتنی پیش رفت ہو چکی ہے اگرکوئی اس خیال میں ہے کہ اس کو روکا جا سکتا ہے تو یہ اسکی خام خیالی ہے۔چین نے اتنا پیسہ اس لئے نہیں لگایا کہ پاکستان کے 20 تا 25 قومی اسمبلی کے ممبر پیسہ لیں اورحکومت کو چلتا کریں اور یہاں کا امن خطرہ میں پڑ جائے۔مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی حکومت اپنے وعدے پورے نہیں کرسکی۔مہنگائی اسکے کنٹرول سے باہر ہے۔بد انتظامی اپنے پورے عروج پر ہے۔مگر اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ عمران خان پاکستان کی نوجوان نسل کا سب سے مقبول لیڈر ہے۔ملکی غیرت اور حمیت کے سلسلہ میں لوگ اسکی تعریف کرتے ہیں۔ عمران خان میں لاکھ خامیاں ہونگی مگر وہ اس ملک کا منتخب وزیراعظم ہے۔اس کو آپ چور دروازے سے باہر نہیں کرسکتے۔ جو لوگ اپنی وفاداریاں تبدیل کررہے ہیں۔ انکو پہلے اسمبلی سے استعفی دینا چاہیے اورپھر الیکشن لڑکر آئیں اور عمران خان کے خلاف ووٹ دیں۔ اپوزیشن کو نہ جانے جلدی کس بات کی ہے ایک سال بعد الیکشن ہوگا اور حکومت کی اہلیت سامنے ہو گی۔جو اراکین ناراض ہیں وہ پارٹی چھوڑ دیں اور اپنی پسند کی پارٹی کی طرف سے الیکشن لڑیں۔جن لوگوں نے 2013 میں 40 ہزار ووٹ لئے تھے 2018 میں وہ ایک لاکھ سے زائد ووٹ لیکر کامیاب ہوئے ہیں۔ اب یہ ساٹھ ستر ہزار ووٹ کس کا ہے یہ آنے والے الیکشن میں پتہ چلے گا۔اب 1977 نہیں ہے ۔میڈیا بہت متحرک ہے۔ فیس بک، یو ٹیوب اور ٹوئٹر کا اثر بھی زیادہ ہے۔ مختلف نیوز اینکر کے سبسکرائبرز 2 ملین سے زائد ہیں۔ رائے عامہ کو اب آپ آسانی کے ساتھ بدل نہیں سکتے۔ عمران خان حکومت میں اپنے مخالفوں کے لئے اتنا خطرناک نہیں ہے جتنا اقتدار سے نکل کر ہو سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی حکومت ایک سال سے زائد نہیں چل سکی تھی۔ یہ بے جوڑ شادی زیادہ عرصہ نہیں چل سکے گی۔لوگ مصیبت میں اکٹھے ہو جاتے ہیں اقتدار میں شراکت کسی کو گوارا نہیں ہوتی۔اب تک کی جو صورتحال ہے اس سے لگتا ہے کہ حکومت گئی مگر چھٹی حس بتا رہی ہے ابھی کچھ پس پردہ ہے۔فلم آخری سین میں بہت موڑ لیتی ہے۔ شاید اگلے کالم تک پتہ چل جائے کہ کہانی کا انجام کیا ہوا۔سسپنس البتہ بہت ہے۔