وہ اپنے حلئے سے ہیری پوٹر کی فلم کا ایک کردار لگتا ہے۔ سیاہ لباس … زمین پر لگا ہوا بستر، دنیا جہان کے منفرد حجرات … تسبیاں۔ اسے سنو تو درویش ہی درویش … حکمت اور دانش …اسے پڑھو تو وہ آپ کو کسی اور ہی دنیا میں لے جائے گا۔ مندروں کا جہاں… مزاروں کی دنیا …گھوڑے شاہ کے ٹٹو سائیں کی محیر العقول باتیں … نظام الدین اولیاء کا مزار اور بونوں کی دنیا…بمبئی کے بازاروں میں نوادرات کے قصے… بازار حسن کی طوائفوں کی زندگی کے وہ رخ کہ بے اختیار دل ادب سے جھک جائے۔ یہ بات صرف وہی کرسکتا ہے کہ ہالی ووڈ میں یہودیوں کی تنظیمیں ہیں۔ جب کبھی کسی اداکار کو کوئی تاریخی کردار ادا کرنا ہوتا ہے توفلم کا پروڈیوسر ان تنظیموں سے رابطہ کرتا ہے۔ اس اداکار کو بااہتمام اس گزرے ہوئے تاریخی کردار کی روح سے ملایا جاتا ہے۔ اس طرح اداکار اس تاریخی کردار کی نشست و برخاست اور ایکسپریشن کو سمجھ کر اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ یہ بھی صرف اس پاکستانی ہیری پوٹر کے لیے ہی ممکن ہے کہ وہ ایک خانہ بدوش کی بیٹی کی روئیداد لکھ دے جس میں اس کی لڑکی کے سر پر بالوں کے لیے وہ ایک سمجھوتہ کرلے۔ پھر اس لڑکی کے سر پر ناگوں جیسے بال لہرائیں۔ وہ لڑکی جوان ہوجائے۔ شکر گڑھ کے ایک گائوں میں جب خانہ بدوش تماشہ لگانے جائے تو خانہ بدوش کے منع کرنے کے باوجود گائوں کے چودھری کا بیٹا اس لڑکی سے شادی کرے اور موت کو گلے سے لگالے۔ پاکستان کے اس حیرت انگیز ہیری پوٹر کا نام بابا یحییٰ ہے جس کی کتابیں مہنگی نہیں بہت مہنگی ہوتی ہیں۔ مگر حیرت در حیرت ہے کہ وہ ہاتھوں ہاتھ بک جاتی ہیں۔ ایک تحیر ہے، ایک اسرار ہے۔ بابا جی سے مل بھی لو، ان سے مسلسل مکالمہ کرتے رہو مگر اسرار کی گتھی نہ سلجھے گی۔ ایک انٹرویو میں بابا جی سے پوچھا کہ آپ کی کتابیں اتنی مہنگی کیوں ہوتی ہیں؟ باباجی نے کہا ’’تاکہ پڑھنے والوں کو ان کی قدر کا احساس ہو اور یہ بھی کہ میں وہ ساری آمدنی ضرورت مندوں میں بانٹ دیتا ہوں … جیل سے ہسپتال تک۔ جانوں سے انجانوں تک۔ باباجی جس گھر میں رہتے ہیں اس کے باہر ایک نیم پلیٹ لگی ہے جس پر لکھا ہے ’’کاجل کوٹھا‘‘۔ یہ ان کی کتاب کا نام بھی ہے۔ اس کے علاوہ ’’پیا رنگ کالا‘‘ اور ’’شب دیدہ‘‘ بھی باکمال ہیں مگر نہ جانے کیوں میں ایک لمبے عرصے سے ’’پیا کا رنگ کالا‘‘ کے سحر سے کبھی بھی آزاد نہ ہوپایا۔ باباجی کو ان کی ‘‘چاچی‘‘ کاگا (کوا) کہا کرتی تھی۔ اسی محلے میں ایک کیمیا گر بھی تھا۔پھر جو کاگا نے ایک پراسرار زندگی گزارنا شروع کی تو ایسی گزاری اور وہاں وہاں سے گزرا کہ بس جاگتی آنکھوں کے ساتھ یوں لگتا ہے آپ کسی اور دنیا کا سفر کررہے ہو۔ بابا جی … بانو قدسیہ اور بابا اشفاق صاحب سے بہت متاثر ہیں۔ اپنے قلم کی تاثیر کو وہ بانو آپا کے دست شفقت کا اعجاز قرار دیتے ہیں۔ باباجی سے جب بھی کہا کہ آپ کی ’’پیا رنگ کالا‘‘ ادھوری ہے، اسے مکمل کردیں۔ باباجی کا جواب تھا ’’ادھوری چیز میں ایک تشنگی ہوتی ہے۔ سیر ہوجانے پر لطف مٹ جاتا ہے۔ تشنگی ہمیشہ ساتھ رہنی چاہیے۔ اَن دیکھے اور اَن جانے کے پار دیکھنے کی تشنگی۔ پیا رنگ کالا سے چند Bites۔ بھینس والے گھر سے لسی … بیٹی والے گھر سے رشتہ … رزق حلال کمانے والے گھر سے کچھ کھانے پینے کے لیے اور علم والے گھر سے علمیت کی بھیک طلب کرنا عین جائز ہی نہیں بلکہ ثواب بھی ہے۔ اس کائنات کے رب کے عالم میں لاکھوں نظام بیک وقت عمل پذیر ہیں۔ کچھ نظام تو ایسے بھی ہیں جو انسانی دائرہ عقل میں آسانی یا دقت کے ساتھ آہی جاتے ہیں۔ مگر بہت سے ایسے ہیں جو انسانی بساط سے بہت ماورا ہیں۔ یہ سب رب کے راز ہیں۔ رب چاہے تو جس کو جتنا چاہے عطا کردے۔ ناری اور خاکی مخلوقات اپنے اپنے دائرے میں محدود ہیں۔ ان کی ضرورتیں، دنیائیں، صورتیں، سیرتیں، خوراکیں، طبع، عمریں ہر چیز الگ الگ بلکہ ایک دوسرے کی ضد ہوتی ہے۔ انسان افضل بھی ہے اور اسفل بھی۔ لائق بھی نالائق بھی۔ حکیم بھی رجیم بھی۔ عالم بھی جاہل بھی۔ کئی انسانوں کو علیحدہ حسیات عطا کردی جاتی ہیں۔ ان کی آنکھیں آئینہ، سینہ وادی سینا، دل گداز اور حوصلے فراخ ہوتے ہیں۔ یہ ہر شعبہ میں ہوتے ہیں اور اپنی غیرمعمولی صلاحیتوں اور پراسرار قوتوں کے بل پر صف اول میں نظر آتے ہیں۔ مجھے اس ظاہری دنیا کی تین چیزیں بہت اچھی لگتی ہیں۔ مٹی کی مہک، حکمت اور کیمیا اور لکھی ہوئی پرانی کتابیں، لوح حجرات پر کندہ مقدس اسماء والی انگشتریاں اور بابرکت جوہر جڑی پرانی انگوٹھیاں۔ موسیقی، حکمت، رمل، جفر، قیافہ، پامسٹری، تکویم، خیال اور خواب بینی، اسرارِ عالمین۔ سب درویش اور اللہ والے عنصر اور اکائیاں ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے سے موتی مالا کی طرح پروئے ہوئے۔ جڑے بھی ہوئے اور بکھرے بھی ہوئے۔ یہ الگ بات کہ انسان اپنے علم کا استعمال کس طرح کرتا ہے۔ وہ ظلمتوں کا پجاری ہے یا رحمن کا بندہ؟ ارضِ مقدس، فلسطین، عراق، شام، مصر، ایران اور ترکی میرے لیے ہمیشہ ہی بہت کشش کا سبب رہے ہیں۔ خاص طور پر عراق کی سرزمین تو ایسی ہے کہ جی چاہتا ہے کہ میں حقیر ذرہ بن کر پڑا رہوں۔ مدینہ شریف کے بعد بڑا دفتر یہیں پر ہے۔ ولیوں، درویشوں، قطبوں اور فقیروں کے سارے فیصلے اور حساب کتاب وہیں ہوتے ہیں۔ بغداد شریف سے آگے نجف اور کوفے سے پہلو بچاتا ایک شہر موصل ہے۔ اس کے پاس ہی صحرا میں ایک چھوٹی سی بستی ہے جس کا نام ارغون ہے۔ اس بستی کے باہر ویرانے میں ایک سیاہ رنگت کا اونٹ کی کوہان جیسا ایک ٹیلہ ہے۔ یہ مٹی کی طرح بھربھرا ہے نہ پتھر کی طرح سخت۔ بلکہ یہ ہاتھی کے گوشت کی طرح تھلتھلا ہے۔ اس مٹی میں موٹے موٹے مسام ہیں۔ ان میں بادلوں کی طرح گھاس اُگی ہوئی ہے۔ جب چاند کے ماتھے پر جھومر پڑتا ہے تو دنیا کے تمام کوے یہاں پہنچ جاتے ہیں۔ اس روز بستی والے سرشام گھروں میں بند ہوجاتے ہیں۔ اس بستی میں مشہور ہے کہ پرندوں کے روپ میں یہ جنات ہوتے ہیں۔ اگلی صبح اس ٹیلے کے گرد دور دور تک لاکھوں پرندوں کے پائوں کے نشان ہوتے ہیں۔ بابا جی کی تحریریں حیرتوں کا گنبد ہیں۔ ایسی باتیں جو ہڈ بیتی بھی ہیں اور جگ بیتی بھی۔