روزنامہ92 نیوز کی رپورٹ کے مطابق ملک کے چار بڑے ادارے شدید مالی بحران سے دوچار ہیں۔پی ایس او نے حکومت سے 600ارب روپے کا بیل آئوٹ پیکیج مانگ لیا ہے۔گزشتہ برس پی ایس نے اپنی مالیاتی رپورٹ میں مالیاتی سال 2020-21ء میں 29ارب 13کروڑ روپے منافع کا اعلان کرتے ہوئے اپنے شیئر ہولڈرز کو 10روپے فی شیئر نقد منافع کا اعلان کیا تھا، اسی طرح گیس کمپنیاں بھی ہر سال اپنی مالیاتی رپورٹ میں ہر سال اربوں روپے کا منافع ظاہر کرنے کے باوجود حکومت سے بیل آئوٹ پیکیج کا مطالبہ کرتی ہیں۔پی ایس او اور گیس کمپنیاںجو مصنوعات درآمد کرتی ہیں ان پر مقررہ منافع حاصل کرنے کے باوجود خسارے میں کیوں چل رہی ہیں جبکہ حکومت عوام کو پٹرول اور گیس پر اگر سبسڈی فراہم کرتی ہے تو یہ نقصان حکومت برداشت کرتی ہے کمپنیاں نہیں۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ حکومتی ادارے پی ایس او اور گیس کمپنیوں کو تیل اور گیس کی ادائیگیاں نہیں کرتے، اس سے یہ خالصتاً تجارتی ادارے خسارے میں چل رہے ہیں، حیران کن امر تو یہ بھی ہے کہ پی آئی اے پاکستان ریلوے اور پاور کمپنیاں حکومت سے ہر سال بیل آئوٹ پیکیج لینے کے باوجود تیل اور گیس کی ادائیگی نہیں کرتیں مگر اپنے شیئر ہولڈرز اور افسران کو لاکھوں میں تنخواہ برابر دے رہی ہیں ،اگر لاکھوں روپے تنخواہ لینے والی افسر شاہی اداروں کو خسارے سے نہیں نکال سکتی تو حکومت ان اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کرے تاکہ ہر سال قومی خزانے پر اربوں روپے خسارے سے نجات مل سکے۔