وزیراعظم عمران خان نے ملک کی اقتصادی صورتحال کی بڑی بھیانک تصویر پیش کی ہے۔ اندر سے ٹوئی ہوئی بیوروکریسی کا مورال بلند کرنے کے لیے اسلام آباد میں انھیں نصیحت فرمائی کہ بیوروکریٹس ڈٹ کر کام کریں اور ہرگز سیاسی دباؤ میں نہ آئیں لیکن شاید وزیراعظم کو یہ احساس نہیں ہوا کہ انھوں نے یہ کہہ کر کہ ملک دیوالیہ ہو چکا ہے اور گورننس ٹھیک کر نے میں دو برس لگیں گے پوری قوم کے مورال کو ڈاؤن کیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب 2008ء میں ملک میں پیپلزپارٹی کی نئی نئی حکومت بنی تھی، ابتدائی دنوں میں مسلم لیگ (ن) اس مخلوط حکومت میں حصہ دار تھی اور اس وقت کے وزیر خزانہ اسحق ڈار نے انکشاف کیا کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ملک دیوالیہ ہو گیا تھا، ان کے اس بیان کو انتہائی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کے علاوہ ہر جماعت نے مذمت کی۔ ویسے تو یہ اچھی بات ہے کہ عمران خان قوم کو اندھیرے میں نہیں رکھ رہے لیکن بطور وزیراعظم ان کے اس بیان کے اقتصادی، سیاسی اور بین الاقوامی محرکات بھی ہیں۔ ملک میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن جولائی اور اگست میں سٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق اس میں مزید چالیس فیصد کمی ہوئی ہے۔ اس صورتحال کا سابق حکومت پر الزام تھونپنا درست نہیں ہو گا چونکہ اس وقت عبوری حکومت یا تحریک انصاف کا راج تھا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب تک حکومت بیرونی سرمایہ کاری کے لیے سازگار پالیسیاں نہیں لاتی صورتحال رجعت قہقری کا ہی شکار رہے گی۔ جب ملک کا وزیراعظم کہہ رہا ہو کہ ہم دیوالیہ ہیں توکون مائی کا لال بیرون ملک سے یہاں سرمایہ کاری کرے گا۔ توقع کی جا رہی تھی کہ نئی حکومت نے مختلف شعبوں میں اپنا ہوم ورک مکمل کیا ہو گا بالخصوص اکانومی کے بارے میں کوئی نہ کوئی گیم پلان ہو گا۔ اسد عمر کو تو بہت عرصے سے وزیر خزانہ بنانے کا اشارہ دیا جا چکا تھا لیکن اسد عمر جو ایک بہت بڑ ے کاروباری ادارے (جس میں بیرونی سرمایہ کاری بھی ہے) ’اینگرو‘ کے مدارالمہام رہے، لگتا ہے کہ ابھی تک ان کے پاس کوئی گیم پلان ہی نہیں ہے۔ قریباً ایک ماہ کے دوران ان کی طرف سے کبھی کہا جاتا ہے کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میںجائیں گے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ پھر یہ فرمائش کی جاتی ہے کہ انھیں آئی ایم ایف سے بارہ ارب ڈالر قرضہ چاہیے پھر اس میں تخفیف کر کے نو ارب ڈالرکہا جاتا ہے۔

حال ہی میں مشیرتجارت، ٹیکسٹائل، سرمایہ کاری اور پیداوار رزاق داؤد کے’فنانشل ٹائمز‘ کو انٹرویو میں اس انکشاف نے کہ حکومت ’سی پیک‘ کے ساٹھ ارب ڈالر پر مشتمل منصوبے پر نظرثانی کر رہی ہے اور شاید اسے ایک سال کے لیے موخر کر دیا جائے، غیر یقینی صورتحال میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ بعدازخرابی بسیار ان کی وضاحت کہ ان کا انٹرویو سیاق وسباق سے ہٹ کر شائع کیا گیا، کے باوجود جو نقصان ہونا تھا وہ ہو گیا۔ امید تو یہ تھی کہ نئی حکومت کے آنے کے ساتھ ہی سٹاک مارکیٹ آسمان سے باتیں کرے گی لیکن وہ بھی نیچے کی طرف جارہی ہے۔ حالانکہ جب بھی نئی حکومت آ تی ہے سٹاک مارکیٹ میں سرگرمیاں تیز ہوتی ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ابھی تک سرمایہ کاروں کو یقین نہیں ہوا کہ حکومت کی پالیسیاں سرمایہ کا ری کے لیے ممدومعاون ثابت ہونگی۔ اگر عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنماؤں نے ’ہوم ورک‘ کیاہوتا تو انھیں اب یہ کہنا پڑتا کہ انھیں سودن نہیں بلکہ ملک ٹھیک کرنے کے لیے سات سو دن چاہئیں۔ عمران خان جتنے دن چاہیں لے لیں کیونکہ عوام نے انھیں پانچ برس کے لیے منتخب کیا ہے لیکن کم از کم یہ تو نظر آئے کہ معیشت اوردیگر شعبوں میں صحیح سمت متعین کر دی گئی ہے۔ محض یہ کہ سابق حکومت کی خرابیاں نکالو اور ہر کمزوری اور کوتاہی کا ملبہ ان پر ڈال دو، کام نہیں چلے گا۔ اگر نوازشریف کی سربراہی میںمسلم لیگ (ن) کی حکومت اتنی پوتراور اہل ہوتی توعوام دوبارہ انھیں منتخب کر لیتے۔ یہ بھی کہنا کہ سابق حکومت قطعاً نالائق اور کرپٹ تھی مبنی بر انصاف نہیںہو گا۔ آخر اس دور میں مجموعی قومی پیداوار میں ہر سال کچھ نہ کچھ اضافہ تو ہو رہا تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ میٹروبس پر سالانہ آٹھ ارب روپے سبسڈی دی جاتی تھی لہٰذا غورکیا جا رہا ہے اسے جاری رکھا جائے یا بند کیا جائے۔ شاید نئے حکمرانوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ سستی اور سہل ٹرانسپورٹ ماس ٹرانسپورٹ سسٹم شہروں کے لیے اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور جس انداز سے ٹریفک بڑھ گئی ہے اس قسم کے منصوبے عوام کی فلاح وبہبود کے زمرے میں آتے ہیں اور انھیں سبسڈائزڈ ہی کیا جاتا ہے۔ اگر ایسانہ ہوتا تو تحریک انصاف کی حکومت کے پی کے میں اس منصوبے پر کام نہ کرتی جو تاحال نامکمل ہے۔ لہٰذا غر یبوں کی دوست اس حکومت کو تمام عوامل کو سامنے رکھ کرفیصلے کرنا ہونگے۔

وزیراعظم نے بجاطور پر وی آئی پی کلچر ختم کرنے کی بات کی لیکن ہمارے نومنتخب صدر مملکت عارف علوی غالباً اپنا ’ٹہکا‘ بنانے کے لیے تیس گاڑیوں کے موٹر کیڈ میں اپنے آبائی شہر کراچی میں وارد ہوئے۔ اس موقع پر ٹریفک بند کیے جانے کی بنا پر شہریوں کو شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ اکثر ٹی وی چینلز میاں نواز شریف کے موٹر کیڈ گاڑیوں کو گنتے رہتے تھے اور اس کی تشہیر بھی کی جاتی تھی۔ اب یہی حال اس سادگی کی دعویدار حکومت کے دور میں ہو رہاہے تونئے اور پرانے پاکستان میںفرق کیاہے۔ ابھی گزشتہ ماہ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار اپنے سرکاری ہیلی کاپٹر پر میاں چنوں اور پاکپتن کے دورے پر گئے تو وہ بھی غالباً اپنا ’’ٹور‘‘ بنانا چاہتے تھے۔ بات یہاں پر ہی ختم نہیںہوتی کیونکہ جب تک بڑی لیڈرشپ سادگی نہیں اپنائے گی تو باقی ٹیم کیونکر ایسا کرے گی۔ عمران خان نے بیوروکریٹس سے خطاب میں انھیں یقین دہانی کر اکے کہ اس شعبے کوسیاست سے پاک کیا جائے گا، بہت اچھا کیا۔ بالخصوص ان کی یہ یقین دہانی سرکا ری ملازمین کے لیے باعث طمانیت ہو گی کہ نیب میں ان کی تذلیل نہیںکی جائے گی۔ بیورو کریٹس بالخصوص پولیس کے تبادلوں میں سیا سی اثرورسوخ کا استعما ل ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔ ابھی حال ہی میں جس انداز سے عمران خان کی بیگم کے سابق شوہر خاور مانیکا نے ڈی پی او پاکپتن سے پھڈا ڈال لیا اور اس حوالے سے ان کے دوست طارق جمیل گجر نے وزیراعلیٰ ہاؤس پہنچ کر پولیس افسروں کو طلب کیا تھا کیا یہ سیاسی مداخلت کے زمرے میں نہیں آتا۔ ڈپٹی کمشنرراجن پور اللہ دتہ وڑائچ نے سردار نصراللہ دریشک اور ان کے صاحبزادے حسنین بہادر دریشک کے خلاف تبادلوں کے لیے دباؤ ڈالنے کی شکایت کی تھی۔ اسی طرح ڈپٹی کمشنر چکوال غلام صغیر شاہد نے بھی رکن قومی اسمبلی ذوالفقار علی خان پر تبادلوں کے لیے دباؤ ڈالنے کی شکایات کی تھیں۔ اب وزیراعلیٰ پنجاب نے ڈپٹی کمشنر اللہ دتہ وڑائچ کو معطل کر کے او ایس ڈی بنا دیا ہے اور ان کے خلاف پیڈا ایکٹ کے تحت کارروائی کا حکم دیا ہے۔ کچھ یہی حال ڈپٹی کمشنر غلام صغیر شاہد کا ہو رہا ہے۔ عمران خان اب وزیراعظم ہیں لیکچر دینے کا وقت گز ر گیا،اب تقریروں پر عمل درآمد کا وقت آن پہنچاہے، اللہ اللہ خیر صلا!