تاریخ مستقبل کا آئینہ بھی ہوا کرتی ہے۔ ماضی کے چراغوں کی روشنی میں قومیں اس میں آنے والے کل کاعکس دیکھتی ہیں۔ 5جولائی 1977ء پاکستان کی تاریخ کا وہ دن ہے جس کے اسباب و محرکات میں آج کے مسائل اور چیلنجز کو جانا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ کوئی بھی صاحب شعور سابق آمر جنرل ضیاء الحق کے 5جولائی کے ’’کو‘‘ کی تائید نہیں کر سکتا۔ مگر یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ وہ کون سے سیاسی حالات اور اسباب تھے جنہوں نے جنرل ضیاء الحق کو 5جولائی کے غیر آئینی اور انتہائی اقدام کا حوصلہ دیا۔ اس حوالے سے 1977ء کے انتخابات‘ دھاندلی اور پی این اے کے احتجاج پر بہت کچھ لکھا جا چکا یہاں تک کہ کتابیں اور یادداشتیں بھی موجود ہیں۔ قومی اتحاد سے بھٹو صاحب کے مذاکرات اور معاہدے کے حوالے سے دعوے بھی کئے گئے۔ ضیاء الحق کے غیرجمہوری اقدام کے حق میں بھی لکھنے والوں کی کمی نہیں۔ گزشتہ روز برادرم رائوف طاہر نے اپنے کالم میں جنرل چشتی کے جدہ میں انٹرویو کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے نہ صرف یہ دعویٰ کیا کہ قومی اتحاد اور ذوالفقار علی بھٹو میں اگر کوئی معاہدہ ہوا تھا تو اس کی کاپی بیگم نصرت بھٹو نے سپریم کورٹ میں مقدمہ کے ساتھ کیوں لف نہ کی یہاں تک کہ ایم آر ڈی کے قیام کے بعد بھی نواب زادہ نصراللہ خاں یا پیپلز پارٹی کی طرف سے معاہدے کی کاپی ثبوت کے طور پر سامنے نہ لائی گئی۔ کالم کا مجموعی تاثر یہی تھا کہ فوج امن و امان کے لئے انتہائی اقدام پر مجبور ہوئی اور بعد کے حالات نے جنرل ضیاء الحق کو اپنے اقتدار کو طول دینے کا موقع فراہم کیا۔ جنرل چشتی کے انٹرویو کو خود ساختہ اور اپنے دفاع میں جھوٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔ مگر سعید مہدی کا موقف بھی تو تاریخ کا حصہ ہے ۔ سعید مہدی ان دنوں راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر تھے ان کے مطابق انہیں جی ایچ کیو فوراً پہنچنے کے احکامات ملے۔ جب وہ جی ایچ کیو پہنچے تو ذوالفقار علی بھٹو ایک صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ اسی اثناء میں جنرل ضیاء الحق بھی کمرے میں وارد ہوئے اور مجھے دیکھتے ہی بھٹو صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’مسٹر ڈپٹی کمشنر آپ انہیں جانتے ہیں‘‘ مہدی صاحب کہتے ہیں میں نے عرض کیا جی سر یہ ہمارے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔ یہ سن کر جنرل ضیاء الحق تڑپ کر بولے ’’نہیں نہیں سابق نہیں یہ 90روز کے بعد دوبارہ ملک کے وزیر اعظم ہوں گے آپ انہیں تنگ نہ کریں یہ آزاد ہیں‘ یہ جہاں جانا چاہیں یہ جائیں یہ جو کرنا چاہیں کریں‘ آپ انہیں نہیں روکیں گے‘‘ یہ بھی مہدی صاحب کا ہی کہنا ہے کہ ضیاء الحق نے بھٹو صاحب کی گاڑی کا خود دروازہ کھولا‘ بند خود کیا۔ سمارٹ سا سلیوٹ کیا اور بھٹو صاحب روانہ ہو گئے۔ یہ ضیاء الحق کے ٹیک اوور کرنے کے بعد کی کہانی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بھٹو کے جانے کے بعد سعید مہدی نے جنرل ضیاء الحق سے پوچھا کہ ان کے لئے کیا حکم ہے تو انہوں نے کہا ’’میں تو مرکز کے معاملات دیکھ رہا ہوں آپ صوبائی حکومت کے احکامات پر عمل کریں۔‘‘ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر معاملات اس حد تک بھٹو صاحب کی منشا کے مطابق تھے تو پھر پھانسی تک معاملہ کیوں پہنچ گیا اس کی تاریخ قیاس آرائیوں پر مبنی ہے صرف جنرل چشتی ہی سچ جانتے ہوں گے جنہیں 4اپریل کی رات بھٹو کا تختہ الٹنے کے لئے جاتے ہوئے جنرل ضیاء الحق نے کان میں کہا تھا کہ ’’مرشد مروا نہ دینا‘‘۔ جنرل چشتی کہتے ہیں کہ وہ مری میں جنرل ضیاء الحق کے ساتھ لان میں بیٹھے تھے جب بھٹو کا فون آیا۔ بھٹو نے جنرل ضیاء الحق سے کیا کہا وہ یہ تو نہ سن سکے مگر ضیاء الحق کا لہجہ دھیرے دھیرے تلخ ہوتا گیا اور انہوں نے چیختے ہوئے کہا آپ ایسا تو تب کریں گے جب میں آپ کو ایسا کرنے دوں گا۔ قیاس یہی ہے کہ یہی وہ لمحہ تھا جب بھٹو کے مقدر کا فیصلہ ہوا اور ملک طویل آمریت کے اندھیروں میں ڈوب گیا۔ ضیاء الحق کے آمرانہ دور نے قومی اتحاد سمیت ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونے پر مجبور کر دیا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تاریخ سے سبق سیکھا جاتا مگر ہوا کیا۔88ء کے انتخابات کے بعد جمہوری دور شروع ہوا تو سیاسی جماعتیں اور قائدین ذاتی مفادات کے اسیر ہوگئے وہ عاصی فائقی نے کہا ہے نا!! دیتا ہے جدھر ان کو مفاد اپنا دکھائی ارباب ہوس شوق سے بڑھتے ہیں ادھر تیز مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی میں اقتدار کی کھینچا تانی اور جمہوری اصولوں پر سمجھوتوں نے ایک بار پھر ملک کو طویل آمریت کی طرف دھکیل دیا مگر اس بار بھی صرف سیاسی عاقبت نااندیشی نے آمر کی راہ ہموار نہ کی تھی بلکہ بادشاہت کے جنون نے ایک ایسے ’’کو‘‘کو جنم دیا جس پر عمل میں اقتدار پر بیٹھنے والا شامل ہی نا تھا۔ یہ سیاسی قیادت ہی تھی جس نے ملک کے آرمی چیف کے طیارے کو روٹ تبدیل کرنے پر مجبور کیا نئے آرمی چیف کی تقرری کے لئے بیج تک بازار سے خریدے گئے۔ نتیجہ !!! جنرل مشرف کے اقتدار میں پاکستان کے جمہوریت پسندوں نے بہت کھٹن حالات دیکھے ہیں۔ پاکستان کی تخلیق جمہوری عمل کا ثمر ہے پاکستانی قوم نے جمہوریت کے لئے بلاشبہ بے شمار قربانیاں بلکہ طمانچے کھائے ہیں۔ جون ایلیا نے کہا ہے کہ: چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی پاکستان کی جمہوریت کا چہرہ آمریت کے طمانچوں سے سرخ ہے مگر ہماری سیاسی قیادت تاریخ سے سبق لینے اور اسباب کا جائزہ لینے پر آمادہ نہیں آج وزیر اعظم ’’کرسی جاتی ہے تو جائے این آر او نہیں دوں گا‘‘ پر بضد ہیں۔ تاریخ سے بھی بہتر واقف ہیں۔ ملک لوٹنے والوں کے احتساب سے کوئی انکاری نہیں مگر خیال رہنا چاہیے کہ یہ ضد نظام لپیٹنے کا جواز نہ بن جائے۔