فیسٹول"Festival" کے لفظ سے کہیں صاحبانِ مسندِ ارشاد ناراض ہی نہ ہو جائیں۔۔۔کہ ہمارے ہاں تو یہ لفظ میلوں اور ثقافتی سرگرمیوں کے لیے مستعمل ہے ، لیکن مقتدرہ قومی زبان کی ضخیم ڈکشنری نے اس لفظ کے جو معنی تحریر کیے ہیں ، ان میں اوّلین تو’’مذہبی تقریب منانے کا دن‘‘خوشیاں منانے کا موقع، تہوار، یومِ عید وغیرہ موجود ہیں۔ خطّۂ پنجاب یعنی پاکستان کے اندر سب سے بڑا علمی،دینی اور روحانی فیسٹول حضرت داتا گنج بخشؒ کا سالانہ عرس ہے ، جس میں نہ صرف وطنِ عزیز بلکہ دنیا بھر کے مختلف ممالک کے وفود اور شخصیات شامل ہوتی ہیں۔حضرت داتا صاحبؒ کے قدیم تذکرہ نگاروں اور با لخصوص’’ تاریخ لاہور‘‘کے حوالے سے محمد دین فوق ایک بہت محترم نام ہے،سوسال قبل انہوں نے حضرت داتا صاحبؒ کی سوانح لکھی تو اس میں آپؒ کے عرس کی تفصیل لکھتے ہوئے کہا کہ آپؒ کا عرس19،20 صفر کو ہوتا ہے،19 صفر کو ہجوم کم، اس لیے اس کو چھوٹا عرس،جبکہ 20 صفر کو احاطہ مزار اور پورا ایریا مخلوق سے بھر جاتا اور کھوئے سے کھوا چھلتا ہے ، اس کو بڑا عرس کہتے ہیں۔وہ ان ایام کی نقشہ کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں،کہ عرس کے دنوں میں باورچی خانے کھل جاتے،فقرأ اور مساکین میں کھانے بٹتے، مجاوروں میں دستاریں تقسیم ہوتیں،دکانیںسجتیں ، خَلقت دوردراز سے حاضری کی سعادت پاتی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ امر تسر تو اُمنڈ کر آجاتا،اور بڑی رونق رہتی ۔ اہل ِ خطہ کو حضرت داتا صاحبؒ سے ازحد عقیدت اور ایک جمِ غفیر عرس کے دن دیکھا جاتا ہے۔بہر حال۔۔۔ محمد دین فوق کی باتیں زیادہ طوالت نہ پاجائیں ۔۔۔ مجھے تو بات کرنی ہے حضرت داتا صاحبؒ کے 977 ویں سالانہ عرس کی،جس کا افتتاح کل6اکتوبر(منگل)آپؒ کے آستاں پر رسمِ چادرپوشی سے ہوگا، جو کہ خطّے کا سب سے بڑا،دینی،علمی اور روحانی اجتماع ہوگا ۔ محققین اور ہجویریات کے ماہِرین کا یہی خیال ہے کہ آپؒ نے لاہور میں تیس سال قیام فریاما، گویا آپؒ کی لاہور آمد کو ایک ہزار سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے،اس خطّے کے لوگوں نے یوں کسی سے عقیدت و ارادت نہ کی ہوگی ، جیسے،حضرت داتا صاحبؒ سے کی ۔ لاہور کے صوفی دانشور یہی کہا کرتے تھے کہ حضرت داتا صاحبؒ بالخصوص اہالیانِ لاہور کی خوشی پر خوش اور ان کے دکھوں پر افسردہ ہوتے ہیں، کتنے ہی مواقع ایسے آئے کہ دنیا نے عملی طور پر اس امر کا مشاہد ہ کیا کہ مشکل حالات اور اوقات میں ان کی تائید اور اعانت کیسے پہنچی اور آسانیوں کے دَر کس طرح وَا ہو ئے۔ حضرت داتا صاحبؒ کی لاہور آمد،یہاں قیام اور کشف المحجوب کی تخلیق۔۔۔ یہ ساری باتیں’’واقعاتی شہادتوں‘‘۔۔۔ کے ذریعے ہی پایۂ ثبوت کو پہنچی ہیں۔ آپؒ جب عنفوانِ شباب کو پہنچے توسلطان محمود غزنوی کے دربار میں ایک ہندو فلسفی سے مناظرہ تاریخ میں درج ہے ۔ عنفوانِ شباب کا مطلب ہے کہ حضرت داتا صاحبؒ کی عمر بیس ، اکیس سال فرضکی جاسکتی ہے، سلطان محمود غزنوی 421ھ میں فوت ہوا، یوں حضرت داتا صاحبؒ کا سالِ ولادت تقریباً400 ھ تصوّر کیا جاتا ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی کے ڈاکٹر نکلسن، جس نے 1911 ء میں کشف المحجوب کا اوّلین انگریزی ترجمہ کیا، نے بھی یہی لکھا ہے کہ آپؒ کی ولادت دسویں صدی عیسوی کے آخری عشرے یا گیارھویں صدی کے اوائل میں ہوئی۔سلطان محمود کے عہد میں غزنہ علوم و معارف کا مرکز اور صوفیأ،صلحأ اور علمأ کا مسکن تھا،محمود غزنوی ان صاحبانِ حکمت و طریقت کا بڑا قدر دان تھا ۔ گویا آپؒ کی ولادت امیر سبکتگین کے عہد میں سمجھی جاسکتی ہے،جس کی وفات 387ھ/999ء میں ہوئی،آپؒ کی اوائل عمرِ مبارک میں،لاہور،سلطان محمود غزنوی کے حملوں کی زَد میں تھا ۔ بر صغیر کے علمی،دینی اور روحانی طبقات میں،ایسا عروج کسی اور ہستی کو نصیب نہ ہوا، کہ گذشتہ ایک ہزار سال سے آپؒ کی عظمت اور سطوت کا سورج مسلسل نصف النہار پہ ہے،اور آئندہ بھی یونہی رہے گا ۔ ( اِ نشااللہ) ایسے ہی آپؒ کا عرس،بظاہر جس کا پھیلائو بیس سال پہلے تک،دو روز، اور اب تین روز پر محیط ہے ، مگر عملاً یہ تقریبا ت ایک ہفتہ پر پھیلی ہوئی ہیں، جس کا آغاز عرس سے قبل سہ روزہ عالمی کانفرنس سے ہوتا ہے ۔ جس میں پاکستان سمیت معاصر اسلامی دنیا ،تیونس، یمن،برطانیہ،ترکی، افغانستان، ایران، امریکہ اور ہندوستان کی معروف دانشگاہوں اور درگاہوں کی معتبر شخصیات اور ہجویریات کے ماہرین تشریف فرما ہوتے ہیں۔اس کے ساتھ مشاعرۂ منقبت،جس کے مدارالمہام ہونے کا اعزاز معروف نعت گو راجا رشید محمود کے حصے میں ہمیشہ آتا ہے۔اسی طرح حسبِ روایت یونیورسٹیز، کالجز،اور دینی مدارس کے طلبہ کے لیے بھی ایک نشست مخصوص تھی اور کل (اتوار) کو عالمی کانفرنس کی آخری نشست میں پروفیسر احمد رفیق اختر کا کلید ی خطبہ اہمیت کا حامل رہا۔اس عالمی کانفرنس کا مرکز ی موضو ع یہ تھا: ’’ریاستِ مدینہ اور سیّد ہجویرـؒ کی تعلیمات‘‘ المؤتمر الدولی : دَوْلَۃ المَدِینَۃ المُنَوَّرۃ وتَعَالِیم سیّد الھجویر THE STATE OF MEDINA AND THE TEACHINGS OF SYYAD-E-HUJWAIR عرس، تقریباتی طور پر تین اہم شعبوں "Segments" میں منقسم ہوتا ہے ، جس کا اہم ترین حصہ علمی اور روحانی محافل ہیں ، جو مسجد کے’’مین چیمبر‘‘ میں پُر شکوہ سٹیج پر نہایت شاندار صورت میں و قوع پذیر ہوتی ہیں، جس میں دنیائے فکر و فن شعر و ادب اور علم و روحانیت سے تعلق رکھنے والی ہستیاں جلوہ گر ہوتی ہیں،جو کم وبیش چودہ مختلف نشستوں کی صورت میں ترتیب پاتی ہیں،علمأ اور خطبأ کے لیے باقاعدہ موضوعات کا تعین ، اور پھر ان کے پُر مغز علمی خطبات، سبحان اللہ ،دوسرا اہم شعبہ’’محافلِ سماع‘‘ کا ہے،جس کیلیے داتا دربار کمپلیکس میں ایک فقید المثال، مکمل ایئر کنڈیشنڈ’’ سماع ہال‘‘ موجود ہے ، جس میں کم و بیش پانچ ہزار سامعین کے بیٹھنے کی گنجائش ہے، عرس کے ایّام میں اس ہال کی تزئین و آرائش کا اہتمام اسلام آباد/راولپنڈی سے’’حبیب سائونڈ‘‘ والے رضا کارانہ طور پر کرتے ہیں اورنجانے کتنی نسلوں سے یہ ڈیوٹی،اس فیملی نے اپنے ذمّے لے رکھی ہے۔اسی طرح محافلِ سماع کے انتظام و انصرام کی بابت ایک سماع کمیٹی تشکیل شدہ ہے۔جو محکمانہ اشتراک سے ان محافل کے شایانِ شان انعقاد کو یقینی بناتی ہے ۔ عرس کا تیسرا اہم شعبہ’’سبیل دودھ‘‘کا ہے ،جس کا اہتما م بھاٹی چوک میں ہوتا ہے،مشہور یہی ہے کہ خالص دودھ اور وہ بھی بے حساب۔۔۔ اگر سال بھر میں کہیں سے دستیاب ہوتا ہے،تو وہ داتا صاحبؒ کے عرس کے موقع پر،چونکہ حضرت داتا صاحبؒ کی لاہور تشریف آوری پر، اوّلین معرکہ،جو بپا ہوا،اسکی بنیاد ، اس بُڑھیا کا دودھ پیش کرنا بنا،آپؒ کے درویشوں نے،جو اوّلین نذر قبول فرمائی،وہ دودھ ہی کی تھی،یہاں کے مقامی توہمات پر پہلی ضرب بھی اِسی سے لگی اور پھر حاکمِ لاہور رائے راجو سے سامنا بھی اِ سی واقعہ پہ ہوا،پھر لاہور اس وقت تھا بھی گوالوں کا شہر،ہزار سالہ،اس تاریخی روایت کو آج بھی پنجاب کی گجر برداری،شیر فروشان، اور گوالہ یونین پوری تندھی، مستعدی اور عقیدت و ارادت سے نبھاتے ہیں، اور خوب نبھاتے ہیں، ریڑھوں پر مٹکوں کے ساتھ ،جس وار فتگی کے عالم میں’’ سبیل دودھ‘‘تک پہنچتے ہیں، وہ سماں دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ اَب دودھ کو تازہ،اور حفظانِ صحت کے تقاضوں کے مطابق رکھنے کیلئے جدید پلانٹ بھی نصب ہوتا ہے، پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ٹیم بھی ہمہ وقت موجود ہوتی ہے ، اور تبرک کے طور ، دودھ لے جانے والوںکیلئے، ایک ایک لیٹر کی پیکنگ بھی دستیاب ہوتی ہے،جس کیلئے اعلیٰ مشینری نصب ہوتی ہے۔