گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان نے ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب کیا اور اس میں اپنی حکومت کی اب تک کی کامیابیوں کے بارے میں بتایا ساتھ ہی مشیرخزانہ حفیظ شیخ نے بھی خطاب کیا جس میں بتایا گیا کہ 2018 میں جب یہ حکومت آئی تو معاشی صورتحال بہت خراب تھی، معیشت تباہ ہو چکی تھی اسکے بعد حکومت نے بہت سے بولڈ اقدامات کئے ۔ فیسکل مینجمنٹ کے حوالے سے،مانیٹرنگ پالیسی کے حوالے سے انٹرسٹ ریٹ کے حوالے سے ٹیکسز کو بھی ٹھیک کیا جس کے نتیجے میں کوویڈ 19 کے اٹیک سے پہلے ہی پاکستان کی معیشت استحکام کی جانب چل پڑی تھی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پہلی بار اس مہینے میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 99 ملین ڈالر پازیٹو ہے یعنی تقریباً 100 ملین ڈالر سر پلس میں ہے اس سے پہلے دسمبر 2018 میں صورتحال یہ تھی کہ تقریباً 2 بلین ڈالر مہینے کا خسارہ تھا۔ یہ ایک ایسی چیز ہے، جسے عمران خان ان کے حکومتی ارکان کابینہ کے ارکان اسے بہت بڑی کامیابی گنوا رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی برآمدات ہر ماہ 2 بلین ڈالر سے بڑھ چکی ہیں یعنی سال کا حساب کیا جائے تو بر آمدات 24 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہیں،فیصل آباد میں پاکستان کی 50 ہزار کے قریب ٹیکسٹائل ملیں فیکٹریاں جو بند پڑی تھیں وہ ساری کھل چکی ہیں بلکہ 30 ہزار نئے یونٹ بھی مزید چاہئیں، کام اتنا زیادہ ہو چکا ہے، مزدور نہیں مل رہے، یعنی ان پاور لومز کو اتنے آرڈرز مل رہے ہیں کہ وہ آرڈرز پورے کرنے مشکل ہو رہے۔ جنوری 2020 میں فیصل آباد کے قریب فیصل آباد انویسٹ منٹ اکنامک ڈویلپمنٹ کمپنی نے ایک بہت بڑا اسپیشل اکنامک زون علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی بنایا، جس میں 400 صنعتی یونٹس کا قیام مکمل ہو سکے گا۔ اس میں 430 ارب روپے کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ اکتوبر میں ترسیلات زر میں 14 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا یہ مسلسل پانچواں ماہ ہے۔ جس میں ترسیلات زر میں اضافہ دیکھنے میں ملا ہے ، معیشت میں اس وقت استحکام نظر آ رہا ہے پرائیویٹ سیکٹر کا اعتماد بحال ہوا ہے اور یہ سیکٹر اب کافی ایکٹو نظر آ رہا ہے۔ اس وقت ہم ریکوری کے پراسس میں ہیں، کوویڈ کی وجہ سے ہم نیچے آ گئے تھے اب وہاں سے ہم اٹھ رہے ہیں اب پرا ئیویٹ سیکٹر کو حکومت کی پالیسی کھل کر نظر آ گئی ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ یہ فی الحال اس لئے بھی ہے کہ آئی ایم ایف کا پرو گرام ابھی معطل ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر اب نئی صنعتیں لگانے کا فیصلہ کر رہا ہے، صنعتکار پورا زور لگا رہا ہے، پاکستان کو اوپر لے جانے میں،اس وقت ہمارا چین، بنگلہ دیش انڈیا اور ویت نام سے مقابلہ ہے۔ صنعتکار کو صرف انرجی صورتحال بہتر دے دی جائے تو وہ کسی بھی ملک کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ حکومت کو آئی ایم کے ساتھ کھل کر مذاکرات کرنے کی ضرورت ہے اور بتانے کی ضرورت ہے کہ آئی ایم ایف کے پرو گرام کی معطلی کے دوران جب صنعتکاروں کو ریلیف ملا تو صنعت نے ترقی کی اگر صنعت ترقی کرے گی کہ آئی ایم ایف کے پیسے بھی واپس ہو جائینگے۔ پاکستان کی جو ایکسپورٹ بڑھی ہے وہ آئی ایم ایف کے پرو گرام کی معطلی کی وجہ سے نہیں، حقیقی وجہ سے بڑھی ہیں۔ ہمارا بزنس مین دل سے کام کر رہاہے، دوسری بات ہمارے صنعت کاروں کو بیرون ممالک سے جو آرڈر ملے ہیں اس کی وجہ سے صنعت ترقی کر رہی ہے یہ آرڈر ہمیں آئی ایم ایف نے لے کر نہیں دئے آئی ایم کی چار بنیادی شرائط تھیں۔ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جائے،روپے کی قدر میں کمی کی جائے،بجلی گیس کے نرخ بڑھائے جائیں،شرح سود بڑھائی جائے۔آئی ایم ایف بجلی کے ریٹ بڑھانے کا اس وقت کہتی ہے جب آپ کی بجلی خرچ نہ ہو رہی ہو آپ کو کپیسٹی چارجز دینے پڑ رہے ہوں۔ پاکستان میں صورتحال یہ ہوئی کہ بجلی کی مانگ بڑھ گئی کپیسٹی چارجز کم دینے پڑ رہے ہیں، اس لئے بجلی مہنگی کرنے کا آئی ایم ایف نہیں کہے گی۔ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ آپ کو بجلی میں نقصان ہو رہا ہے قیمت بڑھائو،کیونکہ اخراجات زیادہ ہیں بجلی کم خرچ ہو رہی ہے ۔دوسری بات روپیہ کو ہم نے آزاد کردیا مارکیٹ کے مطابق کم یا زیادہ ہو رہا ہے آئی ایم ایف کا یہ مطالبہ بھی افیکٹ نہیں کرے گا پاکستان کی اکانومی میں دوسال پہلے اور آج میں فرق ہے۔ آج کرنٹ اکائونٹ سر پلس ہے پہلے خسارے میں تھا تو آئی ایم کہتا تھا کہ پہلے خسارے کے ساتھ کیسے چلو گے کرنسی ڈی ویلیو کرو تو 125 کا ڈالر 169 تک چلا گیا اب ڈالر 160 تک آ گیا ہمارا روپیہ تگڑا ہوا۔معیشت کے حوالے سے ایک اور مثبت خبر ہے کہ نومبر میں بر آمدات میں اضافہ ہوا ہے اس نومبر میں گزشتہ سال کے نومبر کے مقابلے میں 7.2 فیصد اضافہ ہوا،اس بار پھر سے 2 ارب ڈالر سے زیادہ بر آمدات ہوئی ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہر انڈسٹری چل رہی ہے، روز گار کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں، جب انڈسٹری چل رہی ہو تو آ ئی ایم ایف پرو گرام سے فرق نہیں پڑتا نہ ہی آئی ایم ایف تنگ کرتا ہے،حکومت اس وقت صنعتی مسائل حل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔آئی پی پیز کا مسئلہ حل کیا جا رہا ہے،سر کو لر ڈیٹ کو کم کرنے کیلئے اقدامات ہو رہے ہیں ،ہائوسنگ کے حوالے سے روزانہ کی بنیاد پر کام ہو رہا ہے، یہ انڈسٹری بھی کچھ ہی عرصہ میں پوری طاقت سے کام شروع کردیگی،فیصل آباد کے تاجر 2013 سے 2018 کے درمیان بتارہے تھے کہ 70 روپے کلو ٹماٹر تھا اور سکریپ مشینری بھی 70 روپے کلو میں بیچی جا رہی تھی۔ہماری کرنسی اوور ویلیوڈ تھی، کرنسی 100 روپے پر کھڑی تھی، ہمارا مال فروخت نہیں ہو رہا تھا۔ صنعتکاروں کو 13 سینٹ کی بجلی مل رہی تھی 100 روپے کے ڈالر پر 13 روپے یونٹ بجلی تھی جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل انڈسری مقابلہ نہیں کر پا رہی تھی اور آہستہ آہستہ یہ انڈسٹری بیٹھتی چلی گئیں۔ انڈسٹری مالکان کا کہنا ہے حکومت اگر ہمیں حکومت پانچ سال کیلئے بجلی اور گیس کے ریٹ مستحکم کردے تو ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ دگنی ہو جائے گی۔ اگلے 5 سال میں 50 لاکھ لوگوں کو روز گار مل سکتا ہے یعنی 10 لاکھ سالانہ روز گار ملے گا۔ اس وقت حکومت اس پوزیشن میں ہے کہ بجلی 30 ای 40 فیصد سستی کرسکتی ہے پھر بھی فائدہ ہو گا۔ بد قسمتی بھی ہے کہ بھارت ، بنگلہ دیش ،ویت نام میں کہیں بھی بجلی کے حوالے سے کپیسٹی چارجز نہیں دیئے جاتے، اسی لئے وہاں بجلی سستی ہے لیکن پاکستان میں گزشتہ حکومتیں جو معاہدے کر گئی ہیں وہ بہت زیادہ نقصان دہ ہیں ،حکومت نے ان معاہدوں کو نئے سرے سے کرنے کی کوشش کی تھی اور خوشخبری بھی سنائی تھی کہ جلد معاہدہ ہونے والا ہے لیکن ابھی تک وہ خوشخبری آئی نہیں۔۔۔