میر تقی میر کی عادت تھی کہ جب گھر سے باہر جاتے تو تمام دروازے کھلے چھوڑ دیتے تھے اور جب گھر واپس آتے تمام دروازے بند کر لیتے تھے۔ایک دن کسی نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے جواب دیا:’’میں ہی تو اس گھر کی واحد دولت ہوں۔‘‘ میر تقی میرسے لکھنؤ میں کسی نے پوچھا:’’کیوں حضرت آج کل شاعر کون کون ہے؟‘‘ میر صاحب نے کہا:’’ایک تو سودا ہے اور دوسرا یہ خاکسار ‘ اور پھر کچھ تامل سے بولے‘آدھے خواجہ میر درد۔’’ اس شخص نے کہا: ’’حضرت ‘اور میر سوز؟‘‘ میر صاحب نے چیں بہ چیں ہو کر کہا: ’’میر سوز بھی شاعر ہیں؟‘‘ اس نے کہا:’’آخر بادشاہ آصف الدولہ کے استاد ہیں۔‘‘ کہا:’’خیر اگر یہ بات ہے تو پونے تین سہی۔‘‘ بشیر رامپور ی حضرت داغ دہلوی سے ملاقات کے لئے پہنچے تو وہ اپنے ماتحت سے گفتگو بھی کر رہے تھے اور اپنے ایک شاگرد کو اپنی نئی غزل کے اشعار بھی لکھوا رہے تھے۔بشیر صاحب نے سخن گوئی کے اس طریقہ پر تعجب کا اظہار کیا تو داغ صاحب نے پوچھا:’’خاں صاحب !آپ شعر کس طرح کہتے ہیں؟‘‘ بشیر صاحب نے بتایا کہ حقہ بھروا کر الگ تھلگ ایک کمرے میں لیٹ جاتا ہوں۔تڑپ تڑپ کر کروٹیں بدلتا ہوں‘تب کوئی شعر موزوں ہوتا ہے۔‘‘یہ سن کر داغ مسکرائے اور بولے:’’بشیر صاحب!آپ شعر کہتے نہیں‘شہر جنتے ہیں۔‘‘ مرزا اسد اللہ خان غالب ایک مرتبہ زنان خانے میں جانے لگے تو دیکھا بیگم صاحبہ عین صحن میں مصلاّ بچھائے نماز پڑ ھ رہی ہیں‘مرزا نے یہ دیکھا تو دروازے پر ٹھہر گئے جب وہ نماز پڑھ چکیں تو آپ نے جوتا اتار کر سر پر رکھا اور ننگے پائوں آہستہ آہستہ ڈرتے ہچکچاتے ہوئے صحن تک آئے ‘بیگم نے یہ حالت دیکھی تو مسکرا کر کہنے لگیں: ’’یہ کیا؟’’ مرزا نے جواب دیا:’’کچھ نہیں صرف آپ کے مصلّے کی تعظیم و تکریم ہے۔‘‘ بیگم نے تشریح چاہی تو کہا:’’اب تو سارا صحن مسجد ہو گیا‘پھر اگر کوئی قدم رکھے تو کیونکر اور کرے تو کیا کرے‘اس لئے جوتا اتار کر سر پر رکھ لیاہے۔‘‘ ڈاکٹر عبداللہ چغتائی لکھتے ہیں:’’ایک مرتبہ علامہ اقبال بیمار تھے۔کچھ دنوں کے بعد بیماری سے کچھ افاقہ ہوا مگر برابر ہائے ہائے کرتے رہے۔منشی طاہر الدین وہاں موجود تھے‘انہوں نے دریافت کیا:’’خیر تو ہے۔‘‘ جواب میں علامہ اقبال کہنے لگے:’’ہاں‘میں ذرا بیماری کی یاد تازہ کر رہا ہوں۔‘‘ علامہ اقبال برطانوی وزارت خارجہ پر طنز کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ایک اجلاس میں سامعین پر امید تھے کہ اقبال کوئی فصیح و بلیغ تقریر کریں گے لیکن انہوں نے مختصر سی تقریر کی اور یہ لطیفہ سنا کر واپس چلے گئے۔ ’’جنگ عظیم کے ایام میں ابلیس کے چند مرید اس کے پاس گئے تو دیکھا کہ وہ فارغ بیٹھا سگار پی رہا ہے۔جب اس سے بے کاری کا سبب دریافت کیا گیا تو اس نے جواب دیا:’’آج کل بالکل فارغ ہوں کیونکہ میں نے اپنا سارا کام برطانوی فارن آفس کے سپرد کر رکھا ہے۔‘‘ ’’ادب لطیف‘‘ کی ایڈیٹری کا زمانہ ساحر لدھیانوی نے اپنے دوستوں کے ساتھ اسی سرخ مکان کی منزل میں گزارا تھا۔رات کو فکر تونسوی صوفے پر‘عارف عبدالمتین اور ساحر زمین پر اور عبدالحمید اور احمد راہی پلنگ پر سوتے تھے۔ یہ رہائش محض ایک ڈرائنگ روم اور چھوٹا سا کمرہ تھا‘جس میں ایک صوفہ سیٹ اور پلنگ کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ایک کانسی کا بڑا سا پیالہ اور تھا جس میں سارے باری باری پانی پیا کرتے تھے۔ ایک روز ابن انشا آیا تو اس پیالے کو دیکھ کر کہنے لگا۔’’ارے !یہ تو وہی پیالہ ہے جس میں سقراط نے زہر پیا تھا۔‘‘ رفیق چوہدری کے افسانوں کا مجموعہ ’’محبتوں کے چراغ‘‘ شائع ہوا۔ دیباچہ ابراہیم جلیس نے لکھا تھا۔مصنف اور دیباچہ نگار دونوں کو پاکستان حکومت نے فحاشی کے الزام میں گرفتار کر لیا۔مقدمہ چلا اور دونوں کو تین ماہ قید اور تین ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔اس واقعہ کے بعد ابراہیم جلیس نے چوہدری رفیق سے کہا: ’’آئندہ تم ناول لکھنا بند کر دو اور میں دیباچے لکھنا تاکہ دوبارہ یہ دن نہ دیکھنا پڑے۔‘‘ ایک محفل میں مشہور صحافی احمد علی خان اور ان کی اہلیہ ہاجرہ مسرور(جو بہت مشہور ادیبہ ہیں):ابراہیم جلیس اور بہت سے ادیب جمع تھے۔اچانک ایک صاحب نے ابراہیم جلیس سے سوال کیا:’’صاحب بتائیے کہ صحافت اور ادب میں کیا رشتہ ہے؟‘‘ اس پر جلیس مسکرائے اور احمد علی خان اور ان کی بیگم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’جو احمد علی اور ہاجرہ مسرور میں ہے۔‘‘ میانوالی میں ایک مشاعرے کے بعد بہت سے شعرا چائے کے کپ پر محمد طفیل نقوش کی غیبت میں مصروف تھے کہ اُن دنوں طفیل صاحب رائٹرز گلڈ کے سیکرٹری جنرل تھے اور رائٹرز گلڈ عروج پر تھی۔کوئی کہہ رہا تھا کہ گلڈ کے ذریعے طفیل نے کئی غیر شاعروں کو پلاٹ دلوا دیے‘کوئی کہہ رہا تھا کہ گلڈ کے تعلقات استعمال کر کے موصوف نے اپنا پبلشنگ ہائوس قائم کر لیا ہے‘کوئی بتا رہا تھا کہ طفیل صاحب بہت سیانے آدمی ہیں‘ہمیشہ اپنا ہی فائدہ سوچتے ہیں۔جب کافی دیر ہو گئی تو ایک کونے میں بیٹھے ہوئے منیر نیازی بولے: ’’اس شخص کے سیانا ہونے کا اندازہ تو اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اپنی غیر موجودگی میں اپنی باتیں کرواتا اور ہمارا وقت ضائع کرواتا ہے۔‘‘ ایک زمانے میں منیر نیازی ایک پرچہ نکالتے تھے۔گارڈی ٹرسٹ بلڈنگ میں اس کا دفتر تھا۔کچھ عرصہ کے بعد وہ پرچہ بند ہو گیا۔عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ پرچے نکلتے ہیں پھر وسائل اور مالی مشکلات کا شکار ہو کر بند ہو جاتے ہیں‘سو منیر نیازی کا پرچہ بھی انہی معاملات کے سبب بند ہو گیا ہو گا۔اعزاز احمد آذر نے اس حوالے سے اپنے میگزین کے لئے کئے جانے والے ایک انٹرویو میں منیر صاحب سے پرچہ بند ہو جانے کی وجہ دریافت کی تو منیر صاحب پہلے تو مسکرائے پھر کہنے لگے:’’اس رسالے کو بند کرنے کا ایک دلچسپ سبب تھا۔وہاں جو لڑکا میں نے ملازم رکھا ہوا تھا‘ویسے تو کام کاج ٹھیک ہی چلا رہا تھا مگر ایک بار یوں ہوا کہ میں نے اس سے جب پچھلے کچھ دنوں کی آمد و خرچ کا حساب مانگا تو اس نے بتایا کہ ’’اتنے سو‘‘ روپے کُل اخراجات نکال کے بچ رہے تھے۔میں نے وہ رقم طلب کی تو وہ کہنے لگا کہ جی وہ تو میں نے خرچ کر دی…‘‘اب منیر صاحب کا چہرہ پہلے سے زیادہ کِھل گیا تھا۔بولے:’’میں نے پوچھا کہ تم نے وہ رقم کہاں خرچ کر دی؟‘‘ تو اس لڑکے نے بتایا کہ جی میں اپنے دوستوں کے ساتھ ہیرا منڈی گانا سننے چلا گیا تھا۔سب دوست طوائف پر روپے نچھاور کر رہے تھے۔میں نے سوچا جب ان کو پتہ چلے کہ منیر نیازی جیسے شاعر کا ملازم بیٹھا ہوا ہے اور وہ خالی جیب ہے تو کتنا برا لگے گا؟وہ طوائف بھی کیا سوچے گی؟؟ سو میں نے وہ سارے روپے اس رات طوائف پر لٹا دیے۔صاحب !آپ کی عزت کا سوال تھا…‘‘ بات مکمل کرتے ہوئے منیر نیازی باقاعدہ کھل کھلا کر ہنس رہے تھے!