درد کو اشک بنانے کی ضرورت کیا تھی تھا جو اس دل میں دکھانے کی ضرورت کیا تھی ایسے لگتا ہے کہ کمزور بہت ہے تو بھی جیت کر جشن منانے کی ضرورت کیا تھی آپ یقین نہیں کریںگے کہ شدت کی گرمی میں بجلی نہیں ہے۔میری بیگم تنگ آ کر کہنے لگی کہ لوڈشیڈنگ میں ایک امید تو ہوتی ہے کہ لائٹ آ جائے گی کیا کریں۔مرے وہ بھی سجدے قضا ہوئے جو ادا ہوئے تھے نماز میں، پہلے عمران خاں کی تقریریں اور اب شہباز شریف کی ہلتی ہوئی انگلیاں اورجنبش کرتے ہوئے لب۔ کوئی بات وہ بتانا چاہتے ہیں جو بن نہیں رہی کہ بات بنتی نہیں بنانے سے کون کافر بھول سکتا ہے کہ مریم اورنگزیب ہمیں تین ہفتے میں کم ہونے والی مہنگائی کا بتایا کرتی تھیں پھر کیا ہوا پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔غالب نے کہا تھا پہلے آئی تھی حال دل پہ ہنسی اب کسی بات پر نہیں آتی۔ ویسے ہم بھی کیا ہیں کہ ہماری قسمت میں انتظار کھینچنا لکھ دیا گیا ہے پہلے عمران کے لئے کیا کچھ نہ کیا ۔وہ سچ مچ ایک آئیڈیل کی طرح بات کرتا تھا پھر کامیابی نے ناکامیوں کی طرف موڑ دیا کہ کامیابی کسی کی مرہون منت تھی جس منت پر ہی ختم ہونا تھا پھر ملال رہ گیا اور ناآسودہ خواہش کی کسک ثمینہ راجہ کا شعر یاد آیا: صرف اک بار اس کی منت کی عمر بھر خود کو پھر ملامت کی عمران کے ہوتے ہوئے اور اپنی ساکھ کھوئے ہوئے وہی لوگ یاد آنے لگے جن سے نجات حاصل کی تھی۔مگر ہم یہ نہیں چاہتے تھے کہ عمران کو اقتدار کی مدت پوری نہ کرنے دی جائے۔ مگر یہ بات ہمارے اختیار میں کب تھی شاید آنے والوں کے بس میں بھی نہیں تھی ۔چلتے چلتے ایک لمحے کے لئے اگر ہم سنجیدگی سے غور کرلیں تو کیا ایسا نہیں لگتا کہ کھیل تو کسی اور کا ہے ۔اقتدار کا ہما اسی کے سر پر آن بیٹھتا ہے جس کے سر پر آنے والی گرانی ڈالی جاتی ہے دوسرے لفظوں میں جس کو عوام کی بددعائوں کا شکار ہونا ہوتا ہے۔ سیدھے لفظوں میں کہ کون آئی ایم ایف کے ارمان پورے کرے گا ۔یہ آئی ایم ایف بھی کیا ہے یہ تو ایک ٹول ہے اس کا یعنی ہمارے آقا کا کہ جسے ہم کبھی کبھی اپنے ناراضگی دکھاتے ہوئے ادھر ادھر ٹپوسیاںمارتے ہیں اور پھر ہمارے دوست انور ملک مرحوم کے بقول: جب بھی آتا ہے مرے جی میں رہائی کا خیال وہ مرے پائوں کی زنجیر ہلا دیتا ہے ہو سکتا ہے کہ میرا اندازہ غلط ہو مگر شہباز شریف اینڈ زرداری پارٹی کے پر باندھ کر پرواز کے لئے کہا جا رہا ہے۔ خدا کے لئے آپ ایک نظر موجودہ صورتحال پر ڈالیں کہ لوگ کس قدر بوکھلائے ہوئے ہیں کل کسی نے پٹرول مہنگا ہونے کی افواہ اڑا دی اور پھر اس کے بعد پٹرول پمپوں پر ایک حشر برپا ہو گیا۔ لمبی لمبی قطاریں اس سے بہت کچھ گڑ بڑ ہو گیا وہ بے چارے جن کو سچ مچ پٹرول چاہئے تھا اور وہ ایمرجنسی میں تھے مارے گئے۔ عام لوگوں نے جسے ایمرجنسی لگا دی ہو یہ بے چینی اور بے یقینی سب حکومت کے رویے کے باعث ہے کہ ایک ہی ہفتہ میں 60روپے فی لیٹر نرخ بڑھا دیے۔ اب لوگ ڈرے ہوئے ہیں۔ہو سکتا ہے افواہ ہی سچی ہو اور حکومت نے شرماتے ہوئے پٹرول کی گرانی کا فیصلہ موخر کر دیا ہو عام غریب آدمی جو ایک دو لیٹر پٹرول پر گزارہ کرتا تھا یک دم متاثر ہوا ہے اور اس کا بجٹ برباد ہو گیا ہے۔ مریم نواز کی درد مندی اور فکر مندی یاد آئی ہے کہ کہتی تھیں ایک روپیہ فی لیٹر پٹرول مہنگا ہوا تو نواز شریف کے دل پر تیر کی طرح لگتا ہے اب تو 60روپے لیٹر یک مشت چلے ہیں خیر نواز شریف کو لگے نہ لگیںمگر ان ساٹھ تیروں نے عوام کو چھلنی کر دیا ہے اور ابھی تو حکومت کمان میں نئے تیر رکھ کر بیٹھی ہے۔ بجلی کا رونا ابھی اور ہے ۔ابھی میرے گھر کا بل پچیس ہزار آیا ہے اب گیس مہنگی ہوتی ہے تو کتنوں کا معدہ خراب ہو جائے گا یہ اپنی جگہ حکومت کا اچھا فیصلہ کہ ملازمین کے پٹرول میں 40فیصد کٹ لگا ہے۔مگر سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ عام سرکاری ملازمین کی تنخواہیں جو پہلے ہی آدھی رہ گئی تھیں۔ اب ان پر بڑا حملہ تو ن لیگ نے آ کر کیا ہے۔ میں اتحادیوں کی بات نہیں کر سکتا کہ وہ سب شامل باجہ ہیں یا کم از کم فائدہ اٹھانے والوں میں پیپلز پارٹی ہے مگر حالات کی خرابی کی ذمہ دار ن لیگ یہ ٹھہرے گی۔کہنے والے ٹھیک کہتے ہیں کہ ن لیگ بھی کسی کے قابو میں نہیں آ رہی تھیں پھر اس کے روایتی دشمن کو اس کا دوست بنایا گیا ۔ ہنستی تو اس بات پر آتی ہے کہ شہباز شریف بار بار گرینڈ ڈائلاگ کی بات کر دیتے ہیں ! آپ توپہلے ہی گرینڈ الائنس ہیں اور پی ٹی آئی کیخلاف کھڑے ہیں پی ٹی آئی سے توقع آپ کریں کہ وہ آپ کے ساتھ آن بیٹھیں وہ تو تب ہی نہیں بیٹھے جب وہ حکومت میں تھے اور اب تو وہ زخمی بھی ہیں اور مشتعل بھی۔ پی ٹی آئی کے ڈی سیٹ ہونے والوں کو ن لیگ نے ٹکٹیں آفر کی ہیں شنید ہے کہ کچھ نے انکار کر دیا ہے وجہ یقینا یہ کہ ن لیگ کے ہاتھ سے حالات نکلتے جا رہے ہیں آپ تعمیرات کا سامان ہی دیکھ لیں یک دم 40فیصد مہنگا ہو گیا ہے۔ ایسی غیر یقینی کہ خدا جانے کیا ہونے جا رہا ہے۔ شاید پٹرول کی طرح لوگ آٹے کا سٹاک بھی کرنا چاہیں تو جناب کون سا میثاق معیشت۔دو شعر : اک دل بنا رہا ہوں میں دل کے مکین میں مشکل سے بات بنتی ہے مشکل زمین میں مہلت ہمیں ملی تو کبھی لیں گے سر سے کام ایک در بناناچاہیے دیوار چین میں