فرد کو لاحق ہو یا قوم کو بے یقینی کا روگ جان لیوا ہوتا ہے۔ تبھی تو مرشد نے فرمایا تھا ع غلامی سے بدتر ہے بے یقینی جناب اسلم انصاری باکمال شاعر ہیں۔ ان کے اشعار سیدھے دل میں جا کر ترازو ہو جاتے ہیں۔ صوفیاء کی بستی کا یہ باسی ملتان چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔ لاہور میں ہوتے تو آج کم از کم ناصر کاظمی کے مقام و مرتبے پر فائز ہوتے مگر سچا شاعر اس طرح کی شہرت سے بے نیاز ہوتا ہے۔ اہل ذوق ان کا کلام سنتے پڑھتے اور سر دھنتے ہیں۔ انصاری صاحب نے کہا تھا ؎ میری لو دیتی جوانی کی کہانی مت پوچھ مجھ کو احساس کی شدت نے جلا رکھا ہے شدت احساس بہت بڑی نعمت اور دولت ہے۔ جناب عمران خان کی اسی شدت احساس نے ہمیں اپنا اسیر بنا لیا تھا مگر ان کی نو دس ماہ کی کارکردگی سے یہ راز کھلا کہ کسی قائد کے لئے صرف شدت احساس اور حدت کلام ہی کافی نہیں۔ اس کے لئے وژن اور اپنے قول کی صداقت پر استقامت بھی بہت ضروری ہے۔ گزشتہ روز ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر ایمنسٹی کے بارے میں ان کے پرانے کلپ سنے۔ انہوں نے نہایت شدو مد کے ساتھ کہا تھا کہ یہ ایمنسٹی کیا ہے؟ یہ چوروں‘ ڈاکوئوں اور غاصبوں کے کالے دھن کو سفید کرنے کا دھندا ہے۔ ہم ایسی ایمنسٹی کو رد کرتے ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ کالا دھن اکٹھا کرتے جائو‘ دولت کے انبار لگا لو اور جب ٹیکس ادا کرنے کا وقت آئے تو اپنا سرمایہ چھپا لو۔ اس ایمنسٹی کا مطلب تو یہ ہوا کہ گویا یہ ٹیکس ادا کرنے والوں کے منہ پر ایک تھپڑ ہے کہ تم کتنے احمق ہو کہ تم اتنا ٹیکس دیتے ہو۔ بعینہ یہی باتیں اسد عمر نے کسی معاشی رکھ رکھائو کے بجائے سیاسی جوش خروش کے ساتھ کہی تھیں اور ایسی ایمنسٹی کے تصور کو یکسر مسترد کر دیا تھا۔ اب جناب عمران خان کی حکومت نے اسی ایمنسٹی کو سینے سے لگایا اور اہل ثروت کو اس ایمنسٹی کے شجر ممنوعہ کے ان ثمرات سے لذت یاب ہونے کی تلقین کر رہے ہیں جو کل تک ثمرات خبیثہ تھے مگر آج وہ ثمرات طیبہ ہو گئے ہیں۔ ؎ تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی جناب عمران خان کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ نے انہیں ایک ایسی قوم کی قیادت نصیب کی ہے جو ہر سودا خریدنے کو تیار ہو جاتی ہے۔ کیا خان صاحب دنیا کے کسی ایسے جمہوری ملک کا تصور کر سکتے ہیں جہاں وہ اتنے شدومد سے ایک بیان دیتے، اس پر سوفیصد کمٹمنٹ کی یقین دہانی کراتے اور پھر اس کمٹمنٹ سے پھر جاتے، تو کیا اس کے باوجود لیڈر شپ اسی آب و تاب کے ساتھ قائم رہتی۔ کسی جمہوری ملک میں تو اتنے کھلے تضاد کی کم از کم قیمت کسی حکمران یا سیاست دان کو اپنے استعفیٰ کی صورت میں چکانا پڑتی ہے مگر یہاں سب چلتا ہے۔ دلچسپ بلکہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ایمنسٹی کا الزام اپنے سر لینے کے باوجود فوری طور پر بزنس کلاس یا سٹاک مارکیٹ کی طرف سے کوئی پرجوش خیر مقدم نہیں ہوا۔ اس سے پہلے اتوار کو آئی ایم ایف کی طرف سے 6بلین ڈالر کے قرضے کا اعلان ہوا تو سوچا یہ جا رہا تھا کہ اس اعلان کا سٹاک مارکیٹ پر بہت مثبت اثر پڑے گا۔ مگر اگلے روز سوموار کو سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کے 181ارب روپے ڈوب گئے اور مارکیٹ کم ترین سطح پر آ گئی۔ آئی ایم ایف کے قرضے کی کیا شرائط ہیں؟ اس قرضے کی جو سب سے زیادہ ہولناک شرط ہے وہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان کا سٹیٹ بنک آف پاکستان کے ذریعے ڈالر کی قیمت کے تعین کا اختیار ختم ہو گیا ہے۔ اب ڈالر آزاد مارکیٹ کے رحم و کرم پر ہو گا۔ وہ ڈیڑھ سو پر جائے یا دوسو پر سٹیئرنگ حکومت پاکستان کے کنٹرول میں نہ ہو گا۔ ڈالر کے مہنگا ہونے سے پاکستان میں ہر شے مہنگی ہو جائے گی۔ ہر وہ کام اور کاروبار منجمد ہو جائے گا جس کا بیرونی دنیا سے تعلق ہے۔ اس کے علاوہ ہر طرح کی سبسڈی ختم ہو جائے گی۔ حکومت کو بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانا ہوں گی۔ ایک اندازے کے مطابق ساڑھے نو روپے یونٹ بجلی 24روپے فی یونٹ ہو جائے گی۔ آئی ایم ایف کی ہدایت کے مطابق 5.6ٹریلین کے ٹیکس لگانا ہوں گی۔ حکومت پہلے آٹھ نو ماہ میں ایف بی آر کا ٹیکس ہدف پورا نہیں کر سکی اور اس میں 500ارب روپے کی کمی واقع ہوئی۔ ڈاکٹر اشفاق حسن پاکستان کے مایہ ناز ماہر اقتصادیات ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ آئی ایم ایف کا پیکیج پاکستان کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کرے گا ان میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔ آئی ایم ایف پیکیج‘ ایمنسٹی سکیم ‘ چور ڈاکو‘ پکڑو بھاگو وغیرہ وغیرہ میں خان صاحب اپنے سب سے بڑے سٹیک ہولڈر کو بھلا بیٹھے ہیں۔عام لوگ مہنگائی کے ہاتھوں لوگ بلبلا اٹھے ہیں۔ پہلے وہ خان صاحب کو وقت دینے کی بات کرتے تھے مگر اب وہ کھلم کھلا روتے ہوئے ٹی وی اینکروں کو بتاتے ہیں کہ اس تبدیلی نے ہمارا بھرکس نکال دیا ہے۔ سفید پوش طبقے کے بعض ذمہ دار خواتین و حضرات نے بتایا کہ اوپن مارکیٹ میں پھلوں سبزیوں اور دیگر اشیائے ضرورت کے دام سن کر ہاتھوں کے طوطے اڑ جاتے ہیں، چار سو روپے لیموں و علی ہذا القیاس گھبرا کر رمضان بازار جاتے ہیں تو وہاں شدید گرمی میں گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ قطار میں کھڑے ہونے کے بعد جب آپ کی باری آتی ہے تو آپ کو صرف ایک پائو لیموں ایک کلو آلو اور دو کلو پیاز دیے جاتے ہیں تاکہ آپ کو تبدیلی کی اس فضا میں شرف آدمیت کا احساس ہو۔ اب پاکستان میں صرف دو طبقات رہ جائیں گے ایک ایلیٹ کلاس دوسری غریب کلاس، متوسط طبقہ ختم ہوجائے گا۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ ایسا اس لئے ہو رہا ہے کہ گزشتہ 9ماہ سے بے یقینی ہی بے یقینی ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے یا نہیں جانا‘ فائلر نان فائلر‘ ایمنسٹی یا نو ایمنسٹی یہی صورت حال انتظامی شعبے میں ہے۔ خان صاحب نے تقسیم کار یوں کر رکھی ہے کہ وہ مرکز ہی نہیں تینوں صوبوں کی حکومتیں بھی خود چلا رہے ہیں۔ان 9ماہ کے دوران حکومت نے معیشت کو خستہ حالی کی انتہا تک پہنچا دیا ہے۔ معیشت کی یہ دیوار خستہ کسی سہارے کی بھی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ایک بار پھر اسلم انصاری یاد آئے ؎ دیوار خستہ ہوں مجھے ہاتھ مت لگا میں گر پڑوں گا دیکھ مجھے آسرا نہ دے معیشت کی اس خستگی میں آئی ایم ایف یا ایمنسٹی کا کوئی آسرا کارگر نہیں ہو رہا۔ علاج کیا ہے’ علاج بے یقینی کا خاتمہ ہے۔ بے یقینی کا خاتمہ کیسے ہو گا۔ اس کا خاتمہ ایسے ہو گاکہ جب خان صاحب صدق دل سے اپنے اندازوں کی غلطی کا اعتراف کریں گے اور پندار ذات سے باہر نکلیں گے ذاتی دانش کو خیر باد کہیں گے اور پارلیمنٹ کے ذریعے ساری قوم کو ساتھ لے کر قومی دانش کے چراغ جلائیں گے تو مایوسی کے اندھیرے دور ہوں گے۔ یاد رکھیں فرد کو لاحق ہو یا قوم کو بے یقینی کا مرض جان لیوا ہوتا ہے۔