پختونخواہ کے وزیر صحت نے ہسپتال جا کر ایک سینئر ڈاکٹر کی دھلائی فرما دی۔ اس پر ڈاکٹر احتجاج کر رہے ہیں۔ کچھ مظاہرے وغیرہ بھی ہوئے ہیں۔ مطالبہ ہے کہ وزیر صحت کے خلاف ایف آئی آر کاٹی جائے۔ بے سود ہے۔ کچھ نہیں ہو گا۔ ایک تو موصوف وزیر ہیں‘ دوسرے پتہ چلاہے کہ شاہی خاندان کے رکن بھی ہیں۔ ڈاکٹر حضرات سمجھدار ہوں تو برکی کو برقی سمجھیں۔ ٹھکائی شدہ ڈاکٹر صاحب کو چاہیے کہ صحت یاب ہوتے ہی برقی حضور کے حضور حاضر ہوں اور دست بستہ معافی مانگیں اور کہیں کہ غلطی میری تھی کہ آپ کے صحت مند گھونسوں مکوں کی راہ میں آ گیا۔ ریاست مدینہ کی بے شمار جھلکیوں میں سے ایک یہ کلچر بھی ہے جو شاہ معظم نے خود متعارف کرایا۔ ان کو ایسی پھینٹی لگائو کہ ان کی نسلیں یاد کریں‘ اسے میں خود اپنے ہاتھ سے پھانسی دوں گا۔ جو بھی راستے میں آئے مار مار کر بھرکس نکال دو۔ خیر سے یہ کلچر اب شاہی مہر شدہ بھی ہو گیا۔ ٭٭٭٭٭ خاں صاحب کے ایک حامی اینکر صاحب کے پروگرام کی ایک جھلکی دیکھی فرما رہے تھے کہ آنے والے دنوں میں حکمران پارٹی کے بہت سے لوگوں کے میگا سکینڈل سامنے آنے والے ہیں۔ کیا رائے ہے‘ اعتبار کر لیں؟ بظاہر تو ناممکن لگتا ہے۔ اول تو آئیں گے نہیں‘ آئے تو ’’مثبت رپورٹنگ‘‘ کے قانون کے تحت میڈیا میں جگہ پائیں گے نہیں۔ پائیں گے تو اتنے غیر نمایاں ہوں گے کہ نظر آئیں گے نہیں۔ اور پھر ہو گا کیا۔ نیب کا ایک پریس ریلیز آئے گا۔انکوائری کی گئی ٹھوس شواہد نہیں ملے۔ انکوائری بند کر دی گئی۔ ٭٭٭٭٭ سچ پوچھئے تو حکمرانی کا مزہ’’مثبت رپورٹنگ‘‘ کے قانون کے زیر سایہ رہنے ہی میں ہے۔ اس کی چھتری پی ٹی آئی کی حکومت کو ملی ہوئی ہے۔ اس لئے تو شاہ معظم نے فرمایا‘ حکومت کرنا بہت آسان ہے۔ سینہ گزٹ کو وسیع تر معنوں میں لیجیے۔ پختونخواہ سے لے کر پنجاب تک وفاقی اور صوبائی ہستیوں کی بہت سی کہانیاں آئیں اور جھلک دکھا کر غائب ہو گئیں۔ بی آر ٹی منصوبے ہی کو لے لیجیے۔39ارب میں لاہور میٹرو بنی(خاں صاحب نے ساڑھے چار ہزار بار فرمایا کہ ستر ارب روپے نہیںبنی‘ اب پی اے سی میں آڈیٹر جنرل کی رپورٹ آ گئی کہ نہیں‘39ارب میں بنی۔ گویا 31ارب کا فاضل بجٹ خاں صاحب کی اختراع تھا) اس سے کم تر معیار کی بی آر ٹی ایک کھرب ہڑپ کر چکی‘ ہنوز تکمیل کے آثار نہیں۔ تازہ اطلاع یہ ہے کہ نئی خرابیاں سامنے آئی ہیں۔ کئی ایسے موڑ ہیں جن سے گدھا گاڑی تو مڑ سکتی ہے لیکن بس نہیں‘ اب ان کی پھر اکھاڑ بچھاڑ ہو گی۔ کیا فرماتے ہیں ارباب میڈیا‘ یہ ایک کھرب روپے دیانتداری سے خرچ ہوئے۔ یا اربوں کے گھپلے ہوئے؟ لیکن معلوم ہے ارباب میڈیا کچھ بھی نہیں فرمائیں گے ‘ لب بستہ‘ زباں بند دوائوں کا سکینڈل آیا‘ اٹھنے سے پہلے ہی دب گیا۔ وزیر پٹرولیم کے بارے میں ناگفتہ بہ انکشافات ہوئے‘ ناگفتہ ہو کر رہ گئے۔ ایک ارب درختوں (نظرثانی شدہ اعلان کے تحت پانچ ارب درختوں) کے منصوبے میں اربوں کے گھپلے سامنے آئے اور روئے گل سیر مزید مزیدم کہ بہار آخر شد کے مصداق مثبت رپورٹنگ کے گھنے بادلوں میں چھٹ گئے۔ ٭٭٭٭٭ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ جن سیاستدانوں پر کرپشن کے بھار ی الزامات ہیں ان کی سب سے بڑی تعداد پی ٹی آئی میں ہے اور سبھی باون گزسے زیادہ اونچے۔ لیکن یہ کسی کے لئے بھی موضوع گفت و رقم ہے ہی نہیں۔ وجہ؟ یہ کہ پی ٹی آئی وہ حمام طہورا ہے جو اندر گیا‘ گنگا نہا لیا۔ ٭٭٭٭٭ شاہد خاقان عباسی دو روز پہلے ایک ٹی وی چینل پر کسی سوال کے جواب میں یوں گویا ہوئے کہ ہمارا بیانیہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ آئین کی بالادستی قائم ہو۔ آئین کا احترام کیا جائے۔ اسے کہتے ہیں ’’آ نیب مجھے مار‘‘ کل ہی خبر آ گئی کہ چھ ریفرنسوں کے بعد نیب عباسی صاحب کے خلاف ساتواں ریفرنس بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔ حضور‘ اس ملک میں عزت و آبرو چاہیے تو کچھ بھی کریں‘کرپشن کریں‘ بندے ماریں‘ ملکی مفاد پر منافع کمائیں‘ جو دل چاہے کریں لیکن آئین کی پاسداری جیسے خطرناک الفاظ کہنے سے گریز کریں۔ کہیں گے تو پھنسیں گے اور ایسے پھنسیں گے کہ عمر بھر کی نااہلی کا تمغہ پائیں گے‘ کرپٹ چور اور ڈاکو کہلوائیں گے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی عجیب عجیب بیانات دیا کرتے ہیں۔ شاید فارغ باشی کا ثمر ہے۔ ان کے فرائض تو کسی اور کے پاس ہیں اور فارغ دماغ کچھ بھی سوچ سکتا ہے۔ فارغ منہ کچھ بھی بول سکتا ہے۔ گزشتہ روز فرمایا:سی پیک منصوبہ کچھ قوتوں کو کھٹکتا ہے۔ ملاحظہ کیجئے‘ اپنی ہی جماعت کو’’کچھ قوتوں‘‘ کا نام دے دیا۔ اسی کھٹکن کو آئی ایم ایف دور کرے گی۔ ٭٭٭٭٭ حکومت کے واحد برسرکار اور واحد با اختیار مشیر حفیظ پاشا نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے منصوبے کے بعد 12لاکھ افراد مزید بے روزگار ہو جائیں گے۔ جناب کی کسر نفسی ہے۔ ورنہ 12لاکھ؟ صرف بارہ لاکھ۔ آٹھ لاکھ پہلے ہو چکے۔ یہ بارہ لاکھ ملا کر 20لاکھ ہوئے۔ یاد ہو گا‘ خان صاحب کا ہدف ایک کروڑ کا تھا(ہے)