اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کا21اپریل کا جلسہ ایک بہت بڑا جلسہ تھا۔اس وقت عمران خان مقبولیت کی ایک نئی لہر پر سوار ہیں۔وہ اس مقبولیت کا بھر پور فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور جلد ازجلد قوم کو نئے انتخابات کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔اس کے لئے وہ بھر پور دبائو ڈال رہے ہیں۔ان کی غیر ملکی سازش کی تھیوری اور امپورٹڈ حکومت کا نعرہ خوب بک رہا ہے۔نوجوان نسل ان کا بھر پور ساتھ دے رہی ہے۔عدلیہ کے ساتھ ان کی گلہ گزاری بھی جاری و ساری ہے۔تاہم فوک کے بارے میں ان کے لہجے میں تبدیلی آئی ہے۔عمران خان نے اپنے سوشل میڈیا خطاب میں کہا کہ پاکستان کی فوج پاکستان کے لئے عمران خان سے بھی زیادہ ضروری ہے کیونکہ اسی فوج کی قربانیوں کی وجہ سے پاکستان قائم و دائم ہے۔ایک طاقتور فوج کی وجہ سے ہی پاکستان کا حشر شام‘ عراق‘ لیبیا اور یمن جیسا نہیں ہوا۔عمران خان نے اپنے لاہور کے جلسے میں بھی اس بات کو دہرایا لیکن یہ بھی کہہ دیا کہ جن سے غلطی ہوئی ہے وہ فوری الیکشن کروائیں۔اگرچہ عمران خان نے اپنے لوگوں کو فوج پر تنقید کرنے سے روکا ہے لیکن چند لوگ سوشل میڈیا پر اپنی تنقید جاری رکھے ہوئے ہیں۔موجودہ حکومت بھی اداروں اور عدلیہ پر تنقید کو بہانہ بنا کر اپنے خلاف تنقیدی مہم کو بھی سختی سے کچلنا چاہتی ہے۔امپورٹڈ حکومت کا نعرہ انہیں اپنے لئے خطرناک محسوس ہوتا ہے اور ابھی تک اس پر قابو نہیں پایا جا سکا۔وزیر اعظم شہباز شریف نے قومی سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس بھی بلایا ہے اور وہ غیر ملکی سازش کی تھیوری سے ہر صورت جان چھڑانا چاہیں گے۔ڈی جی آئی ایس پی آر پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ان کا موقف وہی ہو گا جو انہوں نے اس سے پہلے والی قومی سکیورٹی کمیٹی کے سامنے پیش کیا تھا۔وہ عوام کو سازش اور مداخلت کا فرق سمجھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آج کل کی میٹنگ میں حکومت اسی سازشی تھیوری سے جان چھڑانے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے۔عمران خان نے اپنے جلسے میں پہلے ہی اعلان کر دیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی انکوائری کے علاوہ کوئی انکوائری تسلیم نہیں کریں گے اور یہ انکوائری بھی کھلے عام میڈیا کی موجودگی میں ہونی چاہیے۔ عمران خان نے اپنے آئندہ لائحہ عمل کا بھی کسی حد تک اعلان کر دیا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر عوام کو اسلام آباد آنے کی کال دیں گے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ وہ کسی بھی صورت امپورٹڈ حکومت اور اغیار کی غلامی قبول نہیں کریں گے انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ جب تک زندہ ہیں وہ اس حکومت کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں گے۔ عمران خان کے جلسے میں عثمان بزدار بھی جلوہ افروز تھے۔جلسہ کے میزبان سینیٹر فیصل جاوید نے ان کا ذکر خیر بھی کیا اور انہیں عمران خان کا خصوصی ٹائیگر قرار دیا اور ان کی کارکردگی کی تعریف بھی کی۔عمران خان نے اس موقع پر پرجوش تالیاں بجائیں اور عثمان بزدار کو داد دی۔تاہم انہیں تقریر کرنے کے لئے نہیں بلایا گیا ۔عمران خان اب بھی اپنے زوال کے اسباب سمجھنے میں ناکام ہیں یا شاید اپنی خفت مٹانے کے لئے تالیاں بجا رہے تھے۔فرح گجر کے بارے میں بھی عمران خان کا بیانیہ سادگی کی انتہائوں کو چھو رہا ہے کہ ان کے پاس تو کوئی وزارت یا عہدہ نہیں تھا تو وہ کس طرح کرپشن کی مرتکب ہو سکتی ہیں۔اس سادگی پہ کون مر جائے اے خدا۔اگر اسی منطق کو درست مان لیا جائے تو پھر مریم نواز کے پاس کون سا عہدہ رہا ہے کہ پی ٹی آئی ان پر الزامات لگاتے ہوئے نہیں تھکتی۔عمران خان نے سیاست میں جو موقف اپنایا ہے‘ عوام نے ان سے بڑی توقعات وابستہ کر لی ہیں وہ ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں تو انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ حضرت عمرؓ نے گورنرز کے تحائف وصول کرنے کے بارے میں کیا موقف اپنایا تھا۔اب تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی پچھلے بیس سال میں لئے گئے تحائف واپس کرنے کا حکم دیا ہے۔قانونی موشگافیوں سے قطع نظر عمران خان کے چاہنے والے ان سے قطعی طور پر وہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ سرکاری تحائف کو بیچ کھائیں گے اور اس کے لئے بودی تاویلیں پیش کریں گے۔انہیں اس غلطی کو تسلیم کرنا چاہیے اور تمام تحائف یا اس کی وصول کردہ قیمت سرکاری خزانے میں جمع کروانی چاہیے۔اگر نواز شریف اور آصف زرداری پر وہ توشہ خانے کا کیس بنواتے ہیں تو ان کے لئے قانون تبدیل نہیں ہو سکتا۔ عمران خان کو قریب سے جاننے والے لوگ بتاتے ہیں کہ جب انہیں حکومت سے فارغ ہونے کا جھٹکا لگا تو کافی حد تک اپنی غلطیوں اور کوتاہی کا ادراک کرنے لگے تھے اور اس کا اعتراف بھی کر رہے تھے لیکن مقبولیت کی اس نئی لہر نے ان کا دفاع دوبارہ ساتویں آسمان پر پہنچا دیا ہے اور وہ دوبارہ وہی غلطیاں دہرانے لگے ہیں جن سے وہ نہایت غیر مقبول ہو گئے تھے۔وہ پھر انہی لوگوں کے نرغے میں ہیں جو ان کی بے جا تعریف کرتے ہیں اور ان کے غلط اقدامات کو سراہتے ہیں۔عمران خان کو ایسے لوگوں سے بچنے کی ضرورت ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان ایک دلیر اور جرأت مند لیڈر ہیں۔انہیں اپنی قومی غیرت کا بھی احساس ہے لیکن اس کے لئے ضروری نہیں کہ دنیا کی بڑی طاقتوں کو للکارا جائے اور ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کا کردار ادا کیا جائے۔وہ بار بار بھارت کی حکومت کی مثال دیتے ہیں بھارت بھی روس کے ساتھ روابط رکھے ہوئے ہیں اور بھارت نے بھی روس کی مذمت نہیں کی لیکن کیا ایک دفعہ بھی بھارتی وزیر اعظم نے اس بارے میں کوئی نعرے بازی کی ہے یا امریکہ کو للکارا ہے۔اپنے ملک کے مفاد میں ہمیشہ فیصلے کریں لیکن بڑی طاقتوں کو عوامی جلسوں میں للکارنا کسی طرح بھی عقلمندی نہیں ہے۔ اس وقت قومی معیشت کو جو چیلنجز درپیش ہیں اس کا پوری قوم کو ادراک ہونا چاہیے۔ایک دوسرے کی ضد میں پٹرول کو قیمت خرید سے بھی کم قیمت میں بیچنا کسی طرح بھی قومی مفاد میں نہیں ہے۔ہمیں اپنی چادر دیکھ کر پائوں پھیلانے چاہیں۔عمران خان کا جلد انتخابات کروانے کا مطالبہ بھی درست ہے لیکن اس کے لئے پورے ملک کو بحران سے دوچار کر دینا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔دوسری طرف نئی آنے والی حکومت کی یہ کوشش ہو گی کہ انتخابات میں زیادہ سے زیادہ تاخیر کی جائے اور اس دوران اپنی مرضی کے قوانین بنائے جائیں اور کیسوں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز اکٹھے بیٹھیں اور قومی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلے کریں۔اس میں اعلیٰ عدلیہ اور مقتدر اداروں کو بھی اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ستمبر اکتوبر میں انتخابات کا پرامن انعقاد دونوں اطراف کو قابل قبول ہونا چاہیے۔