رمضان المبارک کا آخری عشرہ جمعۃ الوداع کا دن‘ دنیا کا مقدس ترین مقام مکتہ المکرمہ۔ اس سے بڑھ کر اتحاد امت کے لئے اور کون سی مبارک گھڑی ہو گی! تنظیم برائے اسلامی تعاون کا باقاعدہ سربراہی اجلاس 31مئی جمعۃ المبارک کی شب کو منعقد ہو گا اس سے پہلے خلیج تعاون کونسل اور عرب لیگ کے سربراہی اجلاس بھی مکتہ المکرمہ میں منعقد ہو چکے ہیں۔ کئی اسلامی ممالک کے سربراہان مکتہ المکرمہ پہنچ چکے ہیں۔ پاکستانی وزیر اعظم جناب عمران خان جمعرات کے روز پہلے مدینہ منورہ پہنچے جہاں انہوں نے مسجد نبوی میں نماز ادا کی۔ عمران خان ان خوش نصیب لوگوں میں شامل ہیں کہ جنہیں روضہ رسولؐ کے اندر اپنی بیگم بشریٰ بی بی کے ہمراہ حاضر ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ روضہ رسولؐ میں بحضور مصطفی ﷺ پیش ہو کر ریاست مدینہ کے نام لیوا وزیر اعظم کی کیا کیفیت ہو گی یہ تو وہ خود ہی بتا سکتے ہیں۔ آج کی کانفرنس کا پس منظر اور اس سے وابستہ توقعات کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے ذرا اس منظر کو یاد کر لینا چاہیے جب 1964ء میں مراکش کے شہر رباط میں او آئی سی کا تاسیسی اجلاس ہوا۔ صہیونوں نے اس اجلاس سے کچھ مدت پہلے مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی تھی جس پر دنیا بھر کے مسلمان تڑپ اٹھے اور اسی پس منظر میں 57اسلامی ممالک کے سربراہان نے صیہونیوں کے مسلم کش اور اسلام دشمن عزائم کو بے نقاب کرنے کے لئے او آئی سی کی بنیاد رکھی اور ارض فلسطین پر یہودیوں کے غاصبانہ قبضے اور ان کی ظالمانہ کارروائیوں کی تفصیل دنیا کے سامنے پیش کی۔ 1981ء کی اسلامی سربراہی کانفرنس مکتہ المکرمہ اور طائف میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کا فوکس جہاد افغانستان تھا۔مجھے یاد ہے کہ اس اجلاس میں جنرل ضیاء الحق کی سربراہی میں آنے والے وفد میں جناب علامہ احسان الٰہی مرحوم ‘ جناب مصطفی صادق مرحوم اور جناب الطاف حسن قریشی شامل تھے۔ ان سب بزرگوں سے والد گرامی مولانا گلزار احمد مظاہریؒ کے توسط سے احترام کا رشتہ تھا۔ اس سہ رکنی وفد کے قائد المجموعہ جناب علامہ احسان الٰہی ظہیر تھے اور میں عربی اصطلاح کے مطابق قائد السیارہ یعنی ڈرائیور تھا مجھے سعودی عرب آئے ہوئے تین چار برس ہوئے تھے۔ آتش جوان تھا اور ’’عربی دانی‘‘ کا شوق فزوں تر تھا لہٰذا کانفرنس ہال جاتے ‘ قصر الضیافہ جاتے وزارت اطلاعات جاتے یا کہیں اور جاتے میں گاڑی روک کر گیٹ پر مامور عرب پاسبانوں سے عربی میں کہتا’’الشیخ الکبیر من الباکستان‘‘ پاکستان سے بہت بڑے عالم تشریف لائے ہیں۔ اس کے بعد علامہ احسان الٰہی ظہیر فصیح و بلیغ عربی میں دو چار جملے بولتے بس پھر کیا تھا سارے پاسبان احتراماً سر جھکاتے اور مرحبا ‘ اہلاً و سہلاً کہتے ہوئے گیٹ کھول دیتے۔ تین چار روز طائف میں خوب رونق رہی۔ اس سربراہی اجلاس میں بھی افغانستان پر روسی قبضہ‘ فلسطین پر صیہونی قبضہ اور کشمیر پر بھارتی قبضہ زیر بحث رہا۔ آج 2019ء میں مکتہ المکرمہ میں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کا پس منظر خاصا مختلف ہے۔سعودی عرب کے دارالخلافہ ریاض میں اسلامی وزرائے خارجہ کے اجلاس میں سعودی وزیر خارجہ ابراہیم الصاف نے عرب خطے میں ایرانی مداخلت کو نشانہ تنقید بنایا اور ایران کو گلف آئل ٹینکرز اورپائپ لائن کو خلیج میں نشانہ بنانے کے خلاف سارے اسلامی ممالک کو ثابت قدمی سے کام لینے پر زور دیا۔ اس سے پہلے امریکی نیشنل سکیورٹی کے ایڈوائزر جان بولٹن نے کہا ہے کہ یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ گلف آئل ٹینکرز کو نشانہ بنانے کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے۔ جبکہ ایران نے سختی سے ایسی کسی کارروائی کی تردید کی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اسلامی سربراہی اجلاس سے کئی ہفتے قبل اسلامی وزرائے خارجہ کی کونسل شٹل ڈپلومیسی سے کام لے کر سعودی عرب اور ایران کے تنازعات کو حل کرانے کی کوشش کرتی ۔ نیز یمن کے مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کرانے کی سعی کرتی تاکہ وہاں سے نہ صرف ایرانی مداخلت کا بلکہ ہر طرح کی بیرونی مداخلت کا راستہ روکا جاتا اور وہاں قیام امن کی راہ ہموار کی جاتی۔ اب جبکہ امریکہ ایران پر حملے کے لئے دھمکیاں دے رہا ہے اور اس مقصد کے لئے امریکہ خلیج میں ایک بحری جنگی بیڑا‘B-52بمبار طیارے اور پندرہ سو مزید امریکی فوجی لاچکا ہے۔ ان حالات میں خدانخواستہ اگر ایران پر امریکی حملہ ہوتا ہے تو پاکستان بھی اس جنگ سے بہت متاثر ہو گا پیش بندی کے طور پر پاکستان کو ترکی کے ساتھ مل کر ان علاقائی تنازعات کا پرامن حل نکالنا چاہیے تھا۔ بلکہ اب بھی اس حوالے سے کوششیں کی جانی چاہئیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بجا طور پر کہا ہے کہ خدانخواستہ اگر ارض حرمین شریفین پر کو آنچ آتی ہے تو ہم سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ دیکھئے جمعۃ المبارک کی شب کو اسلامی سربراہی اجلاس میں کوئی ایسی قرارداد سامنے آتی ہے یا نہیں جس کے مطابق سعودی عرب اور ایران کے مابین تمام تر تنازعات کو برادرانہ فضا میں پرامن طریقے سے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہو۔ جمعۃ الوداع کو یوم القدس کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔ اس جمعۃ الوداع کو ہمارے فلسطینی بھائیوں نے جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب کو ایک لاکھ کی تعداد میں مسجد اقصیٰ میں نماز تراویح ادا کی۔ یہ ایک عظیم الشان اجتماع تھا۔ آج جبکہ میں یہ سطور لکھ رہا ہوں القدس کے مسلمانوں نے سارے فلسطینیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ لاکھوں کی تعداد میں جمعۃ الوداع مسجد اقصیٰ میں ادا کر کے ساری دنیا کے سامنے اسلامی الفت و یگانگت کا ایمان افروز منظر پیش کریں اور قبلہ اول اور ارض فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے اور فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کی تاریخ اجاگر کریں۔ جمعۃ الوداع کو فلسطینی فرزندان توحید نے مسجد اقصیٰ میں لاکھوں نمازیوں کا روح پرور اجتماع کم از کم دس لاکھ مسلمانوں سے سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کا پروگرام بنا رکھا ہے۔ سسٹر ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے مجھے پرجوش فلسطینی مسلمان خواتین کی ویڈیو ارسال کی ہے۔ اس ویڈیو میں یہ خواتین چکن یا مٹن سے تیار کردہ چاولوں کی انتہائی خوش ذائقہ ڈش مقلوبہ لے کر آتی ہیں اور وقت افطار اسے کھاتیں اور مسجد اقصیٰ کے باہر پہرہ دیتی ہیں۔ افطار اور نماز کے بعد یہ خواتین خالی دیگچیوں کی دف بنا لیتی ہیں اور اس پر آزادی فلسطین کے نغمے اور ترانے گاتی ہیں۔ یہ واجب الاحترام فلسطینی خواتین صریمات کہلاتی ہیں۔ 1969ء میں او آئی سی کے قیام سے لے کر بعد کی کئی دہائیوں تک اسلامی سربراہی کانفرنسوں میں مسئلہ فلسطین ایجنڈے میں ٹاپ پر ہوا کرتا تھا۔ مگر اب کچھ برسوں سے کچھ عرب اور مسلم ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں اور کچھ نے درپردہ روابط قائم کر رکھے ہیں۔ اس وقت اسرائیل یقینا بہت خوش ہو گا کہ مسلمان کہیں شام میں، کہیں یمن میں اور کہیں خلیج میں آپس میں ہی الجھے ہوئے ہیں اور اسرائیل کی چیرہ دستوں کو بھلائے ہوئے ہیں۔ جمال الدین افغانی نے 19ویں صدی میں مسلمانوں کے اتحاد کے لیے عملی جدوجہد کی بعد میں مرشد اقبال نے مسلمانوں کے بارے میں دل کی گہرائی سے یہ آرزو کی کہ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے آج سارے مسلمان ممالک حرم میں یکجا ہیں۔ اللہ انہیں ایک ہو کر حرم کی پاسبانی کی توفیق دے۔آمین