احمد بشیر مرحوم بڑے دبنگ اور بے باک آدمی تھے۔ کچھ تو ان کا فطری جوہر، اس پر مولانا چراغ حسن کی شاگردی اور حسرت موہانی کی سکتری۔ دِل پہلے بھی مثل ِآئینہ صاف تھا، کہنا چاہیے کہ دونوں "حسرتوں" نے، اسے اَور صیقل کر دیا۔ غرض کاروبار ِدنیا میں فیل ہوئے اور نمود و نمائش کی محفل میں دبے دبائے ہی رہے۔ وہی ازلی خامی کہ میری ناکامیابی کی، کوئی حد ہو نہیںہو سکتی صداقت چَل نہیں سکتی، خوشامد ہو نہیں سکتی ان "معذوریوں" کے ساتھ، صحافت میں آنا، اپنی شامت کو آواز دینا ہے۔ ایسے لوگ، عموما، متنازعہ ہو جاتے ہیں۔ پھر ان کے بعض خیالات، اعتدال سے ہٹے ہوئے بھی تھے۔ سر ِدست اس سے بحث نہیں۔ برسبیل ِ تذکرہ، پہلے ایک ذاتی واقعہ سْنیے۔ یہ غالبا سن اسّی کی بات ہے۔ اس سال، سعودی عرب کے شہر طائف میں اسلامی سمٹ منعقد ہوا تھا۔ اظہر سہیل مرحوم، ایک اخبار کی طرف سے، کوریج کے لیے وہاں بھیجے گئے تھے۔ سمٹ کے اختتام پر، جنرل ضیاء الحق مرحوم کی طرف سے پریس بریفنگ ہوئی۔ اس میں جنرل صاحب نے بتایا کہ وہ جلد ایک کمیٹی تشکیل دیں گے، جو جمی کارٹر کو فلسطین کا مسئلہ سمجھنے میں مدد دے گی۔ اظہر صاحب ایسے موقعوں کی تلاش میں رہتے تھے، فورا پوچھا کہ جنرل صاحب! کیا آپ واقعی سمجھتے ہیں کہ تشکیل کردہ پاکستانی کمیٹی، امریکن صدر کو سمجھا پائے گی؟ یہ ملفوف چوٹ تھی کہ امریکن صدر، جو بڑے بڑوں کو پْٹھے پر ہاتھ نہیں رکھنے دیتا، وہ اس "کمیٹی" کو کیوں گھاس ڈالے گا؟ جنرل مرحوم، بڑے ذہین اور نہایت نکتہ رس تھے۔ بات کو فورا پا گئے اور پی بھی گئے۔ ہنس کر کہا کہ ہم تو قذافی کو بھی قائل نہیں کر پا رہے۔ بات شاید آئی گئی ہو جاتی، مگر ایک صحافی نے اٹھ کر احتجاج کیا کہ کیسے کیسے ناتجربہ کار رپورٹر یہاں پہنچے ہوئے ہیں۔ اس پر احمد بشیر نے، جو غالبا وہاں سب سے سینئر صحافی تھے، ان صاحب کو ٹوک کر کہا۔ "جنرل صاحب، اظہر کے سوال میںکوئی خرابی نہیں۔ دراصل، ہمیں پہلے ڈی بریف کیا جانا چاہیے تھا"۔ ایک بڑی بلا، کہنا چاہیے کہ ٹَل گئی۔ بعد میں اظہر سہیل مرحوم نے احمد بشیر صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اگر آج آپ آڑے نہ آئے ہوتے، تو جنرل صاحب واپسی کے سفر میں، یقینا مجھے جہاز سے نیچے پھینک دیتے! معترض صحافی کا جو حال، اظہر صاحب کے ہاتھوں ہوا، وہ ناگفتہ بہ نہیں، ناگفتنی بھی ہے، سو موقوف! آمدم برسر ِمطلب، گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کی دہشت گردی کا واقعہ، تاریخ میں ایک موڑ کی حیثیت سے یاد رہے گا۔ اس سے پہلے کی دنیا اَور تھی اور اس کے بعد کا حال یکسر مختلف ہوا جا رہا ہے۔ انہی دنوں، احمد بشیر مرحوم نے کچھ کالم اس موضوع پر لکھے تھے، جن میں دو تین پیشین گوئیاں کی گئی تھیں، جو آج یاد آ رہی ہیں۔ انہوں نے لکھا تھا کہ افغانستان کے بعد، اگر عراق پر بھی حملہ کر دیا گیا تو پھر یہ سلسلہ رْکے گا نہیں۔ اور مشرق ِوْسطٰی کے ہر مْلک کا جغرافیہ بدل دیا جائے گا۔ اسرائیل کی خوشنودی کے ساتھ، اس کا دوسرا مقصد، تیل کے ذخائر پر قبضہ بتایا گیا تھا۔ یہ وہی موقف ہے، جو نوم چومسکی جیسے عالمی شہرت رکھنے والے دانشور نے بھی بیان کیا تھا۔ آج یہ دونوں باتیں، سچی ثابت ہو رہی ہیں۔ ایک ایک کر کے، مشرق ِوْسطٰی کی ساری ریاستیں، ڈھے رہی ہیں، بلکہ اب شمالی افریقہ بھی روند میں آ رہا ہے۔ صدام حْسین کی ہلاکت کے بعد، معمر قذافی نے عرب لیڈروں کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ بات اب رْکے گی نہیں۔ آج صدام مارا گیا ہے، کل ہم اور آپ بھی مارے جائیں گے۔ یعنی میں آج زَد پہ اگر ہوں، تو خوش گمان نہ ہو چراغ، سب کے بْجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں یہ تنبیہہ سْن کر اَن سْنی کر دی گئی اور اکثر عرب لیڈر، ہنستے نظر آئے۔ تنبیہ کرنے والا، واقعی مارا گیا اور اس کا قول، کرسی نشین ہو رہا ہے۔ تیل پر قبضے کی کوششیں بھی، نرا افسانہ نہیں ہیں۔ دنیا توانائی کے ذخائر، بڑی تیزی سے خرچ کرتی جا رہی ہے۔ ان کا "محفوظ" کیا جانا، مغربی ممالک کے لیے، زندگی اور موت کا مسئلہ ہے! مثلا، امریکا میں، دنیا کے صرف پانچ فیصد لوگ بستے ہیں۔ لیکن خرچ ہونے والے کْل ذخائر کا پچیس فیصد، امریکنوں کے حصے میں آتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، دنیا کے اَسّی فیصد ذخائر، انہی بدقسمت ممالک میںپائے جاتے ہیں، جو یا تو جنگ کی لپیٹ میں آ چکے ہیں، اور یا بے امنی کے بیج وہاں بو دیے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس سنگینی کا احساس، باقی مسلمان ممالک کو کب ہو گا؟ فی الحال تو ہمیں، بقول ِامیر ع کچھ فکر نہیں ہے، سو رہے ہیں ٭٭٭٭٭٭ تخلص بر طرف! کہا جاتا ہے کہ ادیب کا اسلوب، اس کی شخصیت کا عکس ہوتا ہے۔ بات درست بھی ہے۔ چند ورقوں میں تو شاید پوری طرح نہ کھْلے، مگر سینکڑوں صفحے لکِھنے والا، بے نقاب ہو ہی جاتا ہے۔ کہنا چاہیے کہ ان ٹکڑوں سے، پْوری نہیں تو واضح تصویر ضرور ابھر آتی ہے۔ اس طرز کی کوئی کوشش غالبا نہیںہوئی کہ صرف اسلوب اور لفظوں کے انتخاب سے، کسی ادیب یا شاعر کی شخصیت کو دیکھنے کی کوشش کی گئی ہو۔ خیر، بشرط ِحیات، کبھی نہ کبھی۔ اسی طرح، تخلص کے انتخاب کا معاملہ بھی عجیب ہے! آدمی کا مذاق اور افتاد ِطبع، دونوں اس سے پتا چل جاتے ہیں۔ فارسی کے بیشتر اساتذہ اپنا تخلص، یا تو کسی علاقے یا مقام کی نسبت سے اور یا کسی شخصیت سے تعلق کی بنا پر اختیار کرتے تھے۔ مثلا رْودکی، فردوسی، سعدی اور رْومی وغیرہ۔ اردو میں یہ معاملہ، اکثر، بڑی مْضحکہ خیز شکل اختیار کر گیا ہے۔ مثلا، ایک "آتش" ہے، دوسرا "داغ"۔ کوئی "پارسا" ہے اور کوئی "بدنام"۔ کسی نے "تعشق" منتخب کیا اور کسی نے "معشوق"۔ اس میدان میں "بْلبْل" بھی ملے گا اور "چرکین" بھی! یہاں "جوش" بھی ہیں اور "ہوش" بھی۔ حد یہ ہے کہ جسم کے اعضاء تک نہ چھوڑے گئے۔ "دِل"، جگر"، "چشم" وغیرہ اور ساتھ ہی "عزت" اور "آبرو" بھی! ایک دوسرے کی ضِد اور مقابلے میں بھی تخلص مِلائے گئے ہیں۔ خود کو "غالب" یا "یگانہ" کہنا، بڑے دعوے اور ذمے داری کا اعلان ہے! صورت ِحال مْضحکہ خیز تب ہوتی ہے، جب ان تخلصوں کو ناموں کی جگہ، معنوں کے ساتھ پڑھا جائے! مثلا "غالب ِخستہ"، "داغ ِوارفتہ" وغیرہ۔ اس نظر سے دیکھیے، بڑے بڑے لطیفے نظر آئیں گے! شاعری کھیل ہی لفظوں کا ہے۔ سو بہت سے شاعروں کی "خوش مذاقی"، تخلص کے انتخاب اور پھر اس کے استعمال سے کھْل گئی ہے۔ سچ ہے کہ سب سے پہلے، اپنے نام کو تخلص، جس نے بھی بنایا، خوب کیا!