ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں پی ٹی ایم (پختون تحفظ موومنٹ)کے خلاف جو الزامات لگائے وہ بڑی سنگین نوعیت کے ہیں۔ان کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں ۔پی ٹی ایم کی قیادت کی جانب سے ان کی تردید اور ثبوت مانگنے کے مطالبہ کے بعد اب ضروری ہوگیا کہ ہمارے ادارے اس حوالے سے شواہد فراہم کریں اور یہ معاملہ منطقی انجام تک پہنچائیں۔ ملکی قانون اور اصول یہ کہتا ہے کہ اگر کسی تنظیم یا جماعت کے خلاف غیر ممالک سے خفیہ فنڈنگ لینے کے ثبوت ملے، پاکستان دشمن ایجنسیوں سے ان کے روابط ہیں اور وہ بیرونی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہیں تو فوری کارروائی کی جائے ۔دنیاکا کون سا ملک ایسا ہے جہاں کسی تنظیم کو غیرملکی ایجنٹ کے طور پر کام کرنے دیا جائے؟ کہیں پر نہیں۔ اس لئے اگر ایسی پریس کانفرنس کرنے کی نوبت آ گئی تو پھر اس معاملے کولٹکانے کے بجائے آگے بڑھایا جائے۔ یہ کام مگر تدبر، ہوشمندی اور حکمت سے کرنے کا ہے۔اصولی طور پر یہ سول حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیڑا اٹھائے اور فرنٹ پر آ کر ذمہ داری لے۔ اگر فوجی ترجمان کچھ کہے گا تو ہمارے ہاں ایسے حلقے موجود ہیں جو اسے خاص تناظر میں دیکھیںگے اورٹھوس ثبوت بھی متنازع ہوجائیں گے۔ اس لئے اگلے مرحلے پر وزیر داخلہ کو یہ ذمہ داری اٹھانی چاہیے۔ وہ ثبوت جمع کریں، پارلیمنٹ میں بھی بریفنگ دیں، اگر ضرورت ہو تو اسے اِن کیمرہ رکھا جائے۔ پارلیمانی جماعتوں کو الگ سے بند کمرے میں بریف بھی کیا جا سکتا ہے۔ ثبوت جمع ہوگئے تومقدمات چلائے جائیں اور شفاف مگر تیز رفتار قانونی عمل کے ذریعے ذمہ دار افراد کو سزائیں دیں۔ یہ وہ بات ہے جس کا مطالبہ خود پی ٹی ایم کر رہی ہے۔ یہ ہے اس معاملے کی قانونی اور اصولی صورتحال ۔ یہ مگر ضروری ہے کہ اس کے دیگر پہلوئوں پر بھی نظر ڈال لی جائے۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ پی ٹی ایم کی قیادت یا اس کی تنظیم میں خرابیاں ہوسکتی ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں سے کسی کے باہر رابطے ہوں، فنڈنگ لیتے ہوں وغیرہ وغیرہ۔ جن مسائل کی پی ٹی ایم والے بات کرتے رہے، جن بنیادی ایشوز کو انہوں نے اٹھایا، ان کا معاملہ البتہ مختلف ہے۔حکومت کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ فاٹاکے قبائلی علاقوں ، خاص کر وزیرستان کی دونوں ایجنسیوں میں آپریشن کے بعد بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ کئی سنگین، گمبھیر نوعیت کے مسائل مقامی آبادی کو سامنا کرنا پڑرہے ہیں۔ ان کی زندگیاں آسان بنانا، انہیں ریلیف پہنچانا ضروری ہے۔ پی ٹی ایم نے ابتدا میں تین چار مسائل کو اٹھایا تھا۔ان میں سے ایک آپریشن زدہ علاقوں میں جو مکانات، دکانیں، جائیداد وغیرہ تباہ ہوئی، ان کی تلافی کرناہے۔ یہ اہم ایشو ہے۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ بہت سے خوشحال گھرانے عملی طور پر سڑک پر آگئے ، ان کی کروڑوں کی املاک تباہ ہوئیں۔ ان کو معقول مالی مدد فراہم کی جائے۔ دوسرا بڑا مسئلہ اس علاقے میں موجود متعدد چیک پوسٹیں تھیں۔ ان چیک پوسٹوں پر لوگوں کو تلاشی کے لئے روکا جاتا، لمبی قطاریں بن جاتیں، گھنٹوں وقت ضائع ہوتا جبکہ ایسے بھی کئی واقعات رپورٹ ہوئے جن میں اہلکاروں نے سخت ، ترش لہجے میں بات کی۔ایسی چیک پوسٹیں پنجاب میں بھی موجود ہیں، لاہور میں رہنے والے واقف ہیں کہ بعض علاقوں میں داخل ہونے کے لئے چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑتا ہے اور رش کے اوقات میں لمبی قطار لگ جاتی ہے۔جب ایسے مسائل روزانہ پیش آئیں تو کچھ عرصے بعد لوگوں کا پیمانہ صبر لبریز ہوجاتا ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت بڑھ جاتا ہے جب کسی بیرئر پر مقامی زبان سمجھنے ، بولنے والا موجود نہ ہو۔ ایسے میں غلط فہمی پھیلنا اور مختلف حلقوں کی جانب سے پھیلانا بڑا آسان ہے۔ اس مسئلے کا ویسے عسکری قیادت نے حل نکالا ہے اور اب ان چیک پوسٹوں کی تعداد میں نمایاں کمی آ چکی ہے۔ اس حوالے سے ایک نکتہ بڑا اہم ہے کہ ان چیک پوسٹوں کا وجود ضروری بھی ہے۔ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کا نیٹ ورک ٹوٹ چکا، مگر ان کی اچھی خاصی تعداد سرحد عبور کر افغانستان کے سرحدی صوبوں میں پوشیدہ ہوگئی ہے۔ یہ لوگ بار بار وزیرستان اور دیگر علاقوں میں واپسی کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر چیک پوسٹیں مکمل طور پر ختم کر دی گئیں تو پھر ایسے دہشت گردوں کی ممکنہ واپسی کے خدشے کو کون دیکھے گا؟ مقامی مشران، اہم قبائلیوں کی جانب سے موثر ضمانت کے بعد ہی ان چیک پوسٹوں میں مزید کمی لائی جا سکتی ہے۔ مقامی لوگ اگر چاہتے ہیں کہ انہیں چیک پوسٹوں پر نہ روکا جائے، ان کی نقل وحرکت آسان ہوتو پھر ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ سب کچھ صرف حکومت پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ فاٹا کی ایجنسیوں خاص کرشمالی، جنوبی وزیرستان میں لینڈ مائنز بہت بڑا مسئلہ ہیں۔ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے ساتھ جنگ زیادہ سخت اور طویل ہوئی۔ شدت پسندوں کی جانب سے بھی بے شمار لینڈ مائنز لگائی گئیں، جبکہ فورسز کو بھی آپریشنل معاملات میں ایسا کرنا پڑا۔ ان لینڈ مائنز کی صفائی ہونی چاہیے۔ یہ کام آسان نہیں ، کیونکہ بارودی سرنگوں کی تعداد شائد ہزاروں، لاکھوں میں ہے اور اس کا درست اندازہ بھی نہیں کہ کہاں کہاں ایسا کیا گیا۔ علاقہ بھی بہت وسیع وعریض ہے۔ ان مشکلات کے باوجود یہ کام بہرحال کرنا ہے اوراس معاملے میں حکومت کو مدد کرنی چاہیے۔ لینڈ مائنز کی صفائی کے لئے مشینیں باہر سے منگوانی پڑیں گی، اس کے لئے اچھی خاصی رقم مختص کرنا پڑے گی۔ سول، ملٹری دونوں کو اپنی پوری قوت لگا کر مقامی آبادی کی سپورٹ سے یہ کام کرنا ہوگا۔ ابتدا گنجان علاقوں سے کی جا سکتی ہے، جہاں آئے روز بچے، بوڑھے ان سرنگوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اگر تیز رفتاری سے کام جاری ہو تو مقامی آبادی کی اس حوالے سے بے اطمینانی ختم ہوجائے گی۔ سردست تو انہیں لگ رہا ہے کہ ریاست اس کام کو سنجیدہ ہی نہیں لے رہی۔ مسنگ پرسنز بھی ایک اور ایشو ہے۔ ہم نے پچھلے چند برسوں میں اس ایشو کو ہائی لائٹ ہوتے دیکھا۔ پی ٹی ایم نے اس ایشو کو زیادہ اٹھایا ہے اور واضح طورپر وہ اسے سیاسی ایشو بنانا چاہ رہے ہیں۔ ہم نے بلوچستان میں بھی دیکھا کہ بلوچ قوم پرست جماعتوں نے مسنگ پرسنز کی انتہائی مبالغہ آمیز فہرستیں جاری کیں۔ عاصمہ جہانگیر مرحومہ مسنگ پرسنز کی بازیابی کی زبردست حامی تھیں، مگر ہزاروں لوگوں کی فہرست دیکھ کر وہ بھی چکر ا گئیں اور استفسار کیا کہ کوئی ثبوت بھی فراہم کیا جائے۔ معلوم ہوا کہ اس فہرست میں بے شمار ایسے تھے، جن کا شناختی کارڈ تھا نہ پیدائش، وجود کا کوئی اور ثبوت۔ پی ٹی ایم کی فہرست تو بلوچ قوم پرستوں کی فہرست سے بھی کئی ہاتھ آگے ہے۔ مسنگ پرسنز کا معاملہ یقینا حقیقی ہے، ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے۔ یہ مگر دیکھنا ہوگا کہ اس مسنگ پرسنز میں سے کتنے ایسے ہیں جوٹی ٹی پی کا حصہ بن کر افغانستان میں پوشیدہ ہیں؟ایسے ’’مسنگ پرسنز‘‘کو تو کوئی برآمد نہیں کرا سکتا۔ یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ آپریشن کے دوران گھمسان کی جنگ ہوئی جس میں ٹی ٹی پی کے بہت سے دہشت گرد کام آئے، ظاہر ہے ان میں بہت سے مقامی ہوں گے۔ اس طرح کے دیگر امکانات بھی دیکھنے چاہئیں۔ جن لوگوں کو البتہ تحقیقات کی غرض سے اٹھایا گیا، انہیں قانونی دائرہ کار میں لانا چاہیے۔ ایک قبائلی اخبارنویس کے مطابق اگرچند سو کے قریب مسنگ پرسنز کی بازیابی ممکن ہوجائے تو پی ٹی ایم کے اس مطالبے کی عملی طور پر کمر ٹوٹ جائے گی۔ پی ٹی ایم پر تنقید، اس کی مخالفت کرتے ہوئے مقامی آبادی کے مسائل نہیں بھولنے چاہئیں۔ وہ الگ ایشو ہے۔ تحریک انصاف جو خیبر پختون خوا کی سب سے بڑی اور مقبول جماعت ہے، دو تہائی کے قریب اس نے صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیتیں، ایک اندازے کے مطابق فاٹا میں صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ہوئے تو اس میں بھی غلبہ تحریک انصاف کا ہوگا۔ہونا تو یہ چاہیے کہ تحریک انصاف جیسی قومی جماعت مقامی قبائلیوں کے مسائل کا عَلم اٹھائے اور لوگوںکو ریلیف پہنچائے۔ جب ریاست مقامی آبادی کی مدد کو پہنچے گی، تب پی ٹی ایم یا کوئی اور تنظیم انہیں ورغلانے میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتی۔ پاکستان اس وقت مسائل کا شکار ہے ، مالی وسائل کم ہیں، مگر پھر بھی کسی نہ کسی طرح فاٹا کو ایک بڑا مالیاتی پیکیج دینے کی شدید ضرورت ہے۔ دس بیس ارب روپے وزیرستان ایجنسیوں کے ستم رسیدہ قبائلیوں پر خرچ کرنے چاہئیں،جنہوں نے آپریشن کی وجہ سے نقل مکانی کی اذئیت برداشت کی اور ان کے مسائل کسی نہ کسی حد تک آج بھی چل رہے ہیں۔ پی ٹی ایم کے خلاف کچھ ہے تو ضرور تحقیقات ہوں، مگر عام قبائلی کو اس کی سزا نہیں ملنی چاہیے۔