چھوٹے شہروں اور قصبات میں تو نام نہاد صحافیوں کی بھرمار ہے ہی، لاہور سمیت بڑے شہروں کو بھی ایسے ’’صحافیوں‘‘ سے پناہ حاصل نہیں ہے جنہوں نے اس مقدس پیشے کی حرمت کو کچھ اس طرح پامال کیا ہے کہ اصلی صحافیوں کو بھی کہیں منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملتی۔ یہ سلسلہ نیا نہیں شروع ہوا، کئی ان پڑھ اور بلیک میلر لوگ کھلے عام صحافی بنے ہوئے ہیں، ان کی جیبوں میں عجیب و غریب ناموں کے میڈیا ہاؤسز کے کارڈ ہوتے ہیں، اب تو شہر کے کونے کونے ، گلیوں اور بازاروں میں اخبارات و جرائد کے بورڈ آویزاں ہیں، جہاں سے چند ہزار روپوں کے عوض آپ کو صحافی ہونے کا سرٹیفکیٹ مل جاتا ہے۔اسی قسم کے میڈیا ہاؤسز نے درجنوں کے حساب سے فوٹو گرافر بھی بھرتی کئے ہوتے ہیں، جو کسی دعوت نامے کے بغیر بھی کسی بھی تقریب میں شرکت کو اپنا ’’قانونی حق‘‘ تصور کرتے ہیں۔ میزبان اگر غلطی سے کہہ دے کہ جناب! ہم نے تو آپ کو مدعو ہی نہیں کیا تھا تو اس کی شامت آ جاتی ہے۔ ایسے صحافی اور کیمرہ مین نما لوگوں کا اچانک ہجوم ہوجاتا ہے اور پھر وہاں جو ہوتا ہے اسے اصلی صحافی بھی نہیں سنبھال سکتے۔ میں نے ایسے نام نہاد صحافیوں کی سرگرمیاں کئی بار خود دیکھی ہیں، اگر آپ ان کے کسی معاملے میں بولیں گے تو آپ کی عزت آپ کے اپنے ہاتھ میں ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔ امیر لوگوں کے بچوں کی شادیوں اور نجی اداروں کی تقریبات میں درجنوں کے حساب سے’’ پریس فوٹو گرافر‘‘ موجود ہوتے ہیں، یہ لوگ تقریب کے خاتمے پر ایک لائن میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور اپنی آمد کے معاوضے کے طلبگار ہوتے ہیں، یہ ایک طرح کا فیشن بن چکا ہے، پیسے دینے والوں کو ایسے صحافیوں کے حقیقی پس منظر کا کوئی علم نہیں ہوتا، عمومی طور پر اب اصلی اور دو نمبریوں کے مابین لوگوں نے تمیز ہی ختم کر دی ہے، لوگ تو یہ کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں، سارے صحافی ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں صحافیوں کی تنظیمیں تو اب تک اس قسم کے صحافیوں کو لگامیں ڈالنے میں یکسر ناکام رہی ہیں، لیکن کوئی نہ کوئی راستہ تو نکالنا پڑے گا ایسے نام نہاد صحافیوں اور فوٹو گرافروں سے نجات پانے اور اصلی صحافیوں کی عزت بچانے کے لئے۔ اب آپ کے دماغ میں ایک سوال ضرور آیا ہوگا، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کیا اصلی اور بڑے اداروں سے وابستہ صحافی دیہاڑیاں نہیں لگاتے؟ نام نہاد صحافی تو ہزار پانچ سو میں ٹل جاتے ہیں ان کا کیا کیا جائے جن کے پیٹ کروڑوں ڈکارنے کے بعد بھی نہیں بھرتے، یہ ایک درست سوال ہے مگر سب بڑے صحافیوں پر لاگو نہیں ہوتا۔ واقعی کئی صحافی بڑے بڑے اداروں اور حکومتوں تک کو بلیک میل کر جاتے ہیں اس موضوع پر الگ کالم لکھنا پڑے گا، آج ایک واقعہ پڑھئیے جو دو دن پہلے ہماری صحافی دوست ثمن اسد کے ساتھ پیش آیا، ذرا دیکھئے! وہ کیا بتلا رہی ہیں ۔ ٭٭٭٭٭ پچھلے آٹھ سال سے صحافت کے شعبے سے منسلک ہوں اور فیشن انڈسٹری میں بھی کام کر رہی ہوں۔ آجکل بطور گرومنگ کنسلٹنٹ فیشن اور میڈیا انڈسٹری کی مدد سے پبلک کو اپنی سروسز دے رہی ہوں۔ میں ایک ایف ایم ریڈیو میں آر جے کی خدمات بھی ادا کر رہی ہوں۔ لوگوں کو اپنا امیج بنانے میں، میں ان کی مدد کرنے میں ہمیشہ کوشاں رہتی ہوں۔ صحافیوں کا کیا معیار ہوتا ہے یہ میں اچھے طریقے سے جانتی ہوں۔ ایک صحافی تو اپنی عزت اور جان کو دائو پر لگا کر بھی دوسروں کی مدد کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ صحافت کی بہت عزت اور رتبہ ہے۔۔۔ مگر تین دن پہلے میرے ساتھ جو ہوا وہ میرے لئے کسی حادثے سے کم نہ تھا۔ میں ایک سوشل کلب میں موجود تھی جہاں میں نے ایک ٹرانسفارمیشنل سپیکر کا سیمینار منعقد کیا تھا۔ جمعہ کو چونکہ پورے ملک کی طرح لاہور میں بھی مقبوضہ کشمیر کے عوام سے یکجہتی کیلئے جلوس نکالے گئے تھے اس لئے سیمینار میں زیادہ افراد شرکت کر نہ سکے۔ ہال میں گنے چنے لوگ ہی تھے ، اچانک میں نے دیکھا کہ کچھ نامعلوم لوگ ہاتھوں میں کیمرے اٹھائے ہال میں داخل ہوئے ہیں، یہ ایک یا دو نہ تھے۔۔۔ تین یا چار نہ تھے۔۔۔ بلکہ لوگ ایک ہجوم کی شکل میں تھے۔ میں اپنی جگہ سے اٹھ کر ان کے پاس گئی اور پوچھا کہ آپ لوگ کون ہیں؟ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟۔ ایک صاحب نے جواب دیا کہ وہ مختلف اخباروں سے اس فنکشن کی کوریج کیلئے آئے ہیں۔ ایک کیمرہ مین کے ساتھ موجود دوسرے شخص نے ہاتھوں پر نوٹ پیڈ پکڑے ہوئے تھے اور وہ خود کو رپورٹر بتا رہے تھے۔ میں نے پھر ایک اور کیمرہ مین سے پوچھا کہ آپ کونسے اخبار سے آئے ہیں ؟ مگر انھوں نے جواب دینا ضروری نہیں سمجھا،،،، یہ سارے کیمرہ مین اچانک تقریباً خالی ہال میں چھا گئے اور وہاں جو چند لوگ تھے ان کی تصویریں بنانے لگے،،،،،، سیشن ختم ہوا تو چونکا دینے والا منظر دکھائی دیا، یہ سب نا معلوم اور بن بلائے کیمرہ مین اور مبینہ صحافی سیشن کے سپیکرز کے پیچھے پڑ گئے،،،،،،،، وہ کہہ رہے تھے کہ ہم صحافی ہیں، یہاں اپنا پٹرول پھونک کرآئے ہیں، ہمیں چائے پانی کے لئے پیسے دیں۔۔۔ اسی دوران کسی نے ان کو بتا دیا ثمن اسد سے بات کریں جو اس ایونٹ کی منیجر ہیں۔ اب یہ ٹولا میرے پیچھے پڑ گیا کہ میں انہیں پیسے دوں۔۔۔۔ اس وقت میں مہمانوں کے ساتھ کھڑی تھی،،،،،،،، ان میں سے ایک صاحب تیزی سے میرے قریب آئے اور فرمانے لگے کہ ہمیں پیسے جلدی دے دیں کیونکہ ہم نے ایک اور جگہ بھی جانا ہے۔۔۔۔ مجھے یہ سب کچھ بہت معیوب لگ رہا تھا میں مہمانوں کے سامنے اس مسئلے میں الجھ گئی تھی۔۔۔ میں اپنے روم میں گئی اور دو ہزار روپے لے کر واپس آئی اس وقت پرس میں اتنے ہی تھے۔۔۔سو چا یہ چائے پی لیں گے ، خود کو صحافی کہنے والے ان افراد نے دو ہزار لینے سے انکار کر دیا اور کہنے لگے کہ ہم آٹھ سے دس لوگ ہیں۔۔۔۔ یہ پیسے بہت کم ہیں۔۔۔ میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔۔۔۔ وہ اپنے اخبارات کے نام بھی نہیں بتا رہے تھے۔۔۔ میں نے ایک ہزار روپے ایک دوست سے پکڑے ، مگر وہ تین ہزار لینے سے بھی انکاری تھے، پھر وہ لوگ ناراض ہو کر باہر چلے گئے، میں پریشانی اور بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی تھی،،،، دو تین منٹ بعد ہی ان میں سے ایک آدمی واپس لوٹا اور مجھ سے مخاطب ہوا۔۔۔۔ چلیں ! تین ہزار تو دیدیں پٹرول کا خرچہ ہی نکل آئے گا۔۔ ٭٭٭٭٭٭ (نوٹ۔ ثمن اسد نے ان آٹھ نامعلوم صحافیوں اور کیمرہ مینوں میں سے تین کی تصویریں بھی مجھے بھجوائی ہیں جو تقریب کے دوران اس کے اسٹاف نے غیر ارادی طور پر اتاری تھیں) اس واقعہ پر میں ذاتی طور پر بہت شرمندگی محسوس کر رہا ہوں، یہ میرے لئے ہی نہیں پوری صحافتی برادری کے لئے باعث شرم ہے۔ صحافیوں کی نمائندگی کرنے والے اداروں کو ایسے کرداروں کو اپنی صفوں سے خارج کرنے کیلئے لازماً کوئی لائحہ عمل بنانا ہوگا۔ لوگ شاید انہی وجوہات کے باعث ہم سے نالاں ہیں۔۔۔۔۔