قائد اعظم محمد علی جناح نے جن نکات پر چلنے کی ہدایت کی تھی ان میں پہلا نکتہ تھا ’’اتحاد‘‘۔ اتحاد ایک ایسی نعمت ہے جس سے کبھی کسی قوم کو محروم نہیں ہونا چاہئیے۔ ایک قوم اور ایک ملک کو اتحاد کی ہر وقت ضرورت رہتی ہے مگر قومی سفر میں کچھ موڑ ایسے آتے ہیں جہاں اتحاد کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ جس وقت کسی قوم کی سلامتی خطرے میں ہو۔ جس وقت ملکی سرحدوں پر دشمن سازشی حملوں میں مصروف ہوں۔ جس وقت دشمن فوجیوں کے بوٹوں کی آہٹ بغیر کان لگائے بھی سنی جائے۔ اس وقت ایک زندہ اور غیور قوم کا فرض ہے کہ وہ اپنے سارے داخلی اختلاف بھلا کر بیرونی خطرے کا سامنا کرنے کے لیے متحد ہوجائے۔اس وقت بھارت نے کشمیر پر اس طرح حملہ کیا ہے جس طرح ایک بھیڑیاہرنی کے بچے کو شکار کرتا ہے۔ اس وقت ہماری قومی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے سارے اختلافات فراموش کرکے کشمیری عوام کے لیے متحد ہوجائیں ۔ ہم ایک دوسرے پر ذاتی؛ گروہی اور سیاسی حملے کرنے کے بجائے مل کر ایک ہوکر کشمیری عوام کا تحفظ کریں۔ آج کشمیر جس خطرے سے دوچار ہے اس سے پہلے کبھی نہیں رہا مگر ہماری بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ ہم اس وقت دشمن کا مقابلہ کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہونے کے لیے اچھل رہے ہیں۔ ہم ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھار کر رہے ہیں۔ ہم امریکہ اور دیگر مغربی مغربی ممالک کی ترقی کی مثالیں تو بار بار پیش کرتے ہیں مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ ان اقوام میں اپنے تحفظ کے لیے جو قومی غیرت کا عملی جذبہ ہے ہم اس کی بو سے بھی آشنا نہیں ہیں۔ امریکی صدر پر نہ صرف مخالف سیاسی جماعت تنقید کرتی ہے بلکہ اس کو ملکی میڈیا بھی معاف نہیں کرتا ۔ اس پر امریکی عوام بھی طنز کے تیر برساتے رہتے ہیں مگر جب بھی امریکہ کا قومی مفاد خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ جب بھی امریکی صدر ہنگامی حالات میں کوئی فیصلہ کرتا ہے تب پوری امریکی قوم اپنے صدر کے پیچھے اس طرح متحد ہوجاتی ہے جس طرح میدان میں کھلاڑی اپنے کپتان کی قیادت میںقطار بنا کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس وقت بھارتی میڈیا کا پاکستان کی حکومت اور پاکستان کے سیاسی حالات پر پورا فوکس ہے۔ ہمارا دشمن دیکھ رہا ہے کہ ہم کس طرح ایک دوسرے پر الزامات کے پتھر برسا رہے ہیں۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام کو ان کی تاریخی دھرتی پر اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے جو گھٹیا وار کیا ہے ؛ پاکستان کی طرف سے اس کا حقیقی جواب تب آتا جب پاکستان کی پارلیمنٹ میں ساری جماعتوں کے لیڈر اور ارکان ایک گھر کے افراد کی طرح اپنے وزیر اعظم کی قیادت میں متحد ہوجاتے اور انہیں کہتے ان سے ہمارے بہت سارے اختلافات ہیں مگر یہ اختلاف کا وقت نہیں۔ یہ اتحاد کا وقت ہے۔ اس وقت ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔ آئیں مل کر سوچیں اور حکمت عملی بنائیں مگر اس نظم و ضبط کو قائم رکھنے کے لیے وزیر اعظم ہمیں جو بھی حکم دیں گے ہم اس پر عمل کرنے میں فخر محسوس کریں گے۔ اگر پاکستان کی سیاسی جماعتیں اس طرح متحد ہوجائیں اوران کو دیکھ کر مختلف نظریات اور خیالات میں بٹے ہوئے عوام بھی دشمن کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوجاتے تو بھارت نہ صرف ڈر جاتا بلکہ اہلیان کشمیر کے حوصلے بھی بلند ہوجاتے۔ ہم سب جانتے ہیںکہ ہر گھر میں اختلاف ہوتا ہے اور وہ اختلاف کبھی کبھی اتنی شدت اختیار کرلیتا ہے کہ گھر کے افراد ایک دوسرے سے لڑتے بھی ہیں اور ناراض بھی ہوجاتے ہیں مگر جب اس گھر پر کوئی مشکل آتی ہے تب گھر کے سارے افراد بھول جاتے ہیں کہ ان کے آپس میں اختلافات بھی ہیں۔ وہ جب تم اپنے گھر کی حفاظت کو یقینی نہیں بناتے تب تک ایک دوسرے کو غصے بھری نظر سے نہیں دیکھتے۔ جب خطرہ ٹل جائے اور حالات نارمل ہوجائیں تب ایک دوسرے سے اختلاف کرنے اور شدت کے ساتھ کرنے کی عیاشی افورڈ ہوسکتی ہے۔ اختلاف کو جمہوریت کا حسن کہتے ہیں مگر یہ حسن اس وقت حسن ہے جس وقت ہم حفاظت کے حصار میں ہیں۔ جب عدم تحفظ کی صورتحال ہو تو اس وقت حسن کی آرائش اور نمائش ایسی عیاشی کے مانند ہے جو ہمیں تباہ اور برباد کرسکتی ہیء یہ باتیں گذشتہ روز میری طرح آپ کے ذہن میں بھی آئی ہوںگی۔ جس وقت آپ نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پروڈکشن آرڈر پر آئے ہوئے ملک کے سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کو حکومت پر الزامات لگاتے اور وزیر اعظم کو ’’سلیکٹیڈ‘‘ کے غیرسنجیدہ لفظ سے مخاطب کرتے ہوئے جو تقریر کی اس سے ایک بار پھر ثابت ہو رہا تھا کہ ہمارے ملک میں ہنگامی حالات کے دوران کیسے کیسے افراد کو ملکی صدارت کے مسند پر بٹھایا گیا ہے۔ صرف حکومت کا نمائندہ نہیں بلکہ ملک کا سربراہ ہوتا ہے۔ کیا ایک صدر کو ایسی باتیں زیب دیتی ہیں کہ جب ملک کی سرحدوں کر بمباری ہو رہی ہو تو وہ بنگلادیش کے مثال پیش کرے ۔ اس وقت قوم کو مایوس کرنے کی ضرورت ہے یا اس کا حوصلہ بڑھانے اور اسے دشمن کے خلاف سینہ سپر بنا کر کھڑا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے؟ قوم اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کی طرح سے مدد کرنا چاہتی ہے اور ہماری سیاسی رہنما اس وقت بھی اپنے سیاسی پوائنٹ اسکور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ماضی کے گڑھے مردے نکالنے اور ان کے قتل کے ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی جو کوششیں کرتے ہیں اس سے حالات بنتے نہیں ، بگڑتے ہیں۔ انسانی تاریخ کے داناافراد کا اس بات پر اتفاق رہا ہے کہ جب اچھا بولنا نہ آئے تب انسان کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ خاموش رہے۔ اتفاق سے پارٹی کا سربراہ اور اس سے زیادہ بڑے اتفاق سے ملکی سربراہ بننے والے آصف زرداری سے کون پوچھے کہ جس وقت پورے علاقے کی سکیورٹی بھارتی جارحیت کے باعث خطرے میں ہو جب نہ صرف پاکستان بلکہ چین جیسا طاقتور ملک بھی لداخ کے حوالے سے بہت پریشان ہو اس وقت ’’پاکستان کس نے بنایا؟‘‘ والے سوال پر بحث کرنا اس ایوان کی توہین ہے جو ایوان ملکی عوام کا نمائندہ ایوان ہے۔ آصف علی زرداری نے اس وقت سندھ میں ’’سندھی مہاجر تضاد‘‘ کی بجھی ہوئی آگ کو بھڑکانے کی کوشش کی ہے جب دشمن کشمیر کو ختم کرنے کے لیے پوری تیاری کے ساتھ بڑھ چکا ہے۔ کیا ہم اس قدر معصوم ہیں کہ ہمیں اس بات کا بھی احساس نہ ہو کہ کشمیر کے بعد بھارت کا اگلا نشانہ کیا ہوگا؟ آصف زرداری مخصوص ذہن کے مالک رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جب ملکی حالات خراب ہوں تب غیر ضروری اور معاملات کو اٹھا کر شور شرابا سے ریاست کو بلیک میل کرکے احتساب سے بچنے کی کوئی راہ تلاش کی جائے۔ پیپلز پارٹی کے نوجوان رہنما بلاول بھٹو زرداری کو اس وقت آگے بڑھ کر اپنی پارٹی کی قیادت کا حق ادا کرنا چاہئیے اورانہیں ملکی مفاد کے لیے پارٹی کے چند بندعنوان اور کرپٹ افراد کو بچانے کی کوشش ترک کرنی چاہئیے۔ صرف اس طرح سے وہ اپنی پارٹی کے ڈوبتے ہوئے ٹائی ٹینک کو بچا سکتے ہیں۔ اگر یہ بات بلاول بھٹو زرداری کو سمجھ میں نہ آئی اور اس نے قوم کے تحفظ کو اہم سمجھنے کے بجائے اپنے والد کی طرح لوٹے ہوئے مال کو بچانا اہم سمجھا تو وہ بڑے لیڈر بننے کے امکان سے محروم ہو جائیں گے۔تاریخ ہمیں کبھی کبھی بڑے ہونا کا موقع فراہم کرتی ہے۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں یا اس کو ضائع کردیتے ہیں۔