ضیاء الحق کے ساتھ بہت زیادتی ہوتی ہے۔ اس کا مقدمہ لڑنے والا کوئی نہیں۔ میں بھی نہیں۔ ایک تو اس لئے کہ میں بھی جمہوریت کے نام لیوائوں سے ڈرتا ہوں اور دوسرا اس لئے کہ میں ضیاء الحق کا ایسا حامی نہیں رہا جیسے مرے دوست رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ گروپ باز آدمی ہوں‘ دوستوں کے کہے لکھے کو اپنا کہا لکھا ہی سمجھتا ہوں اور اس پر ڈٹ جاتا ہوں مگر اللہ کو جواب دینا ہے۔ ہم ضیاء الحق سے زیادتی کر رہے ہیں۔ گستاخی نہ ہو تو عرض کروں کہ یہ اس سے کم زیادتی نہیں جو ہمارے بعض بزر جمہراورنگزیب عالمگیر کے ساتھ کرتے ہیں۔ آج 5جولائی کو مجھے بہت کچھ یاد آ رہا ہے جو یاد آ رہا ہے اس کا عشر عشیر بھی لکھ نہیں سکتا۔ ایک تو کالم تنگنائے پھر بے وقت کی راگنی۔ پاکستان کی موجودہ نسل کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا پاکستان اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب ہمارا اصل پاکستان دولخت ہوا تھا۔ اس نئے پاکستان کی تاریخ لکھتے ہوئے ایک دشواری یہ آئی ہے کہ ہمیں آغاز ہی میں ذوالفقار بھٹو کی قیادت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ہمارے دانشور کو بھٹو کو بچانے کے لئے ہر خرابی کو ضیاء الحق تک محدود کرنا پڑتا ہے تاکہ اس سویلین ڈکٹیٹر کے رازوں پر پردہ ڈالا جائے۔ ہم جیسے بھی ‘روشن ضمیر اور کشادہ دل کہلانے کے لئے بھٹو پر ذرا ہاتھ ہولا رکھتے ہیں۔ حالانکہ ہم نے اپنی صحافت کا آغاز ہی بھٹو دور کی سختیاں سہہ کر کیا ہے۔ اس معاملے پر اس وقت بھی زیادہ زور نہیں دینا چاہتا۔ صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ معیشت ہی نہیں جمہوریت کا بھی جیسا قتل عام اس زمانے میں ہوا‘ اس کی ہماری تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ہمارے ہاں تو سیاست نہیں صرف سیاست بازی ہوتی ہے۔ وگرنہ ہر دور اور ہر بڑی شخصیت کا تجزیہ ہونا چاہیے تاکہ معلوم ہو سکے کہ ہم کن کن حربوں کا شکار ہوتے ہیں۔ قومیں کئی بار ایک عجیب مخمصے میں پھنس جاتی ہیں۔ بھٹو کے آخری دنوں میں پی این اے کی جو تحریک چلی‘ اسے آج کل امریکہ کی چلائی ہوئی تحریک کہہ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے اور جواب میں ایم آر ڈی کی تحریک کا ڈنکا پیٹا جاتا ہے جسے اس زمانے میں ایک ایسی تحریک کہا گیا تھا جو سندھ کے صرف اڑھائی ضلعوں میں چلی تھی ۔تاریخ کو مسخ ہوتا ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہیں اور برداشت کرتے ہیں کہ مباداجمہوریت کے آبیگنے کو ٹھیس نہ لگ جائے۔ پی این اے کی تحریک جب اپنے عروج پر تھی تو جہاں ایک طرف لاہور میں فوج کے خلاف ایسے نعرے لگے جیسے پختون تحفظ موومنٹ والے بھی ان دنوں نہ لگا رہے ہوں گے۔ وہاں یہ بھی ہوا کہ جب ملک کے تین شہروں اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی میں جزوی مارشل لاء لگایا گیا تو اسی لاہور سے نعرے لگے‘ آدھا نہیں پورا مارشل لائ۔ وہ حبس تھا کہ لُوکی دعا مانگتے تھے لوگ۔ برا نہ مانئے‘ میں یہ سنی سنائی باتیں نہیں کر رہا ۔مجھ پر اور میری نسل پر یہ دور بیتا ہے اور جب پورا مارشل لاء لگ گیا تو ایک پتا بھی نہ کھڑکا۔ لوگ اتنے تنگ آ چکے تھے کہ انہیں یوں محسوس ہوا جیسے انہیں بہت بڑے عذاب سے نجات مل گئی ہے۔ میں جانتا ہوں بہت سے لوگوں کے جذبات کو ان باتوں سے ٹھیس پہنچ رہی ہو گی۔ مگر 5جولائی کا یہ دن صرف یہ کہہ کر بھول جانا آسان نہیں کہ اس دن ملک میں مارشل لا لگا تھا۔ وہ تو اس سے پہلے بھی لگا تھا اور بعد میں بھی لگا تھا۔ میں اس مارشل لاء کا مقدمہ بھی لڑنا نہیں چاہتا اور نہ لڑنا چاہیے۔ میں تو صرف یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ اس ملک میں ایسے دن بھی گزرے ہیں جب مارشل لاء بھی نہ تھا اور بظاہر جمہوریت تھی۔ طرزحکمرانی سراسر ایسا تھا جس نے پورے معاشرے میں ایک ایسی بے چینی پیدا کر رکھی تھی کہ جب مارشل لاء لگا تو لوگوں نے گویا یہ محسوس کیا کہ ایک آفت سے نجات مل گئی ہے۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے کہ جب کراچی پریس کلب میں ضیاء الحق کی پہلی تقریر سننے پر مرد حق‘ مرد حق‘ ضیاء الحق کا نعرہ لگا تھا۔ اس کا اگرچہ ایک پس منظر تھا‘ وگرنہ اس وقت تو ضیاء الحق کی اسلام سے کوئی مبینہ ہمدردی کا بھی انکشاف نہ ہوا تھا۔ ملک کی سب جمہوریت پسند قوتوں کو یہ لگا کہ انہوں نے آمریت کے خلاف جنگ جیت لی ہے۔ یہ ایک مغالطہ ہو گا مگر میں تو اس احساس کی بات کر رہا ہوں جو بہت سے لوگوں کو فضائوں میں محسوس ہوتا تھا۔ ان دنوں میں ایک لطیفہ سنایا کرتا تھا کہ چند دوست بیٹھے ضیاء الحق حکومت کی برائیاں کر رہے تھے۔ اسی انداز میں جیسے جمہوریت پسند یا انقلابی ہر دور میں برسر اقتدار ٹولے کے خلاف کیا کرتے ہیں۔ اتنے میں پیپلز پارٹی کے چند جیالے بھی آن شامل ہوئے۔ یاد رہے ان دنوں دشمنیاں ایسی نہ تھیں کہ آپس میں ملنا جلنا بھی نہ تھا۔ انہوں نے بحث میں شمولیت کی کوشش کی تو پہلی والی پارٹی نے آہستہ آہستہ اپنے دلائل بدلنا شروع کر دیے اور ان کا رویہ ضیاء الحق کی مخالفت کے بجائے حمایت کا ہو گیا۔ یہ تذبذب اور مخمصہ تھا جو آبادی کے ایک بڑے طبقے کے دلوں میں طاری تھا۔ ضیاء الحق نے جو اپنے مداح پیدا کئے وہ بعد کی بات ہے‘ مگر شروع میں یہ بھٹو دور کی سختیوں اور غلطیوں کا ردعمل تھا جس نے لوگوں کے دل سے یہ خیال بھی نکال دیا تھا کہ مارشل لاء کے شکنجے میں کسے گئے ہیں۔ جمہوری دور کے غیر جمہوری جبر وستم کو یہ کہہ کر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ جمہوری دور ہے ہم نے اپنی تاریخ اپنی آسانی کے لئے مارشل لاء اور جمہوریت میں بانٹ رکھی ہے اور یہ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ آدھا وقت تو فوج نے اس ملک پر حکومت کی ہے۔ یہ درست ہے کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سویلین دور کی آمریت کا بھی ایک نام ہے جسے فاشزم یا فسطائیت کہتے ہیں۔ ہٹلر کی نازی ازم یہی تو تھی۔ وہ جمہوریت کے نام پر آیا۔ ووٹ لے کر الیکشن لڑ کر وہ سوشل نیشنلزم کا پرچارک تھا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں سوشلزم کا چرچا بھی تھا اور برسوں کی نیشنلزم بھی عروج پر تھی۔ یہ سویلین آمریت اپنے انداز میں بہت خطرناک ہوتی ہے‘ اس کی اور بھی علامتیں ہوا کرتی ہیں۔ آج کل امریکہ میں بھی یہ بحث چلی ہوئی ہے۔ جیسا کہ فاشزم کی اور نشانیاں بھی ہیں اور رویے بھی ہیں۔ ان کا تذکرہ کر کے سوال پوچھا جا رہا ہے کہ کہیں ہم فاشزم کی طرف تو نہیں بڑھ رہے ہیں۔ جب امریکہ میں یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ تو کیا حرج ہے ہم بھی اس پر غور کر لیں۔ سویلین آمریت اس وقت اور بھی خطرناک ہوتی ہے جب اسے فوجی پشت پناہی بھی حاصل ہو۔ ویسے فوجی پشت پناہی کے بغیر یہ ممکن ہوا نہیں کرتی۔ بھٹو کو اس طرح فوج کی حمایت حاصل نہ تھی۔ شاید شروع میں ہو جس کے واقعات بتاتے ہیں کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد انہیں فوج ہی لے کر آئی تھی۔ مگر یہ دور طویل نہ رہا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ بھٹو کو فوجی قیادت کو چابک دستی سے تبدیل کرنا پڑا۔ پھر اسے یہ سمجھنے میں دیگر لگی کہ فوج اس کے ساتھ نہیں ہے۔ وہ یہی سمجھتا رہا کہ میں بھارت سے معاہدہ شملہ کے ذریعہ جنگی شہری واپس لایا ہوں اور آرمی چیف اپنی مرضی سے مقرر کرتا ہوں۔سب کچھ دھرے کا دھرا رہ گیا جب لاد چلا تھا بنجارا۔ اس وقت بھی ملک ایک نازک صورت حال سے گزر رہا ہے۔ لوگوں کو شک ہے کہ ہم دوبارہ سول آمریت کی طرف نہ چل پڑیں یہ بھی گمان کیا جاتا ہے کہ حکومت کو فوج کی مدد حاصل ہے۔ اسے یہ کہہ کر چھپایا بھی نہیں جاتا کہ فوج اور سول ایک پیج پر ہیں۔ اس کے سوا چارہ بھی نہیں ہے۔ مگر آمریت کا راستہ جمہوریت کو بھی راس نہیں آتا۔ اور فوج کبھی اس بدنامی کا بوجھ اپنے کندھوں پر لینے کو تیار نہیں ہوتی۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ ملک میں جمہوریت راہیں تراشنے دینا چاہیے۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے دنوں میں عرض کیا کرتے تھے جب سیاستدان ناکام ہوتے ہیںتو سول بیورو کریسی آتی ہے اور جب سول بیورو کریسی ناکام ہوتی ہے تو فوج آتی ہے اور جب خدانخواستہ فوج ناکام ہو جاتی ہے تو دشمن کی فوج آتی ہے۔ بہت سے دوست فوجی ایکشن کے دوران جب نورالامین وغیرہ کی حکومت بنائی گئی تو یہی دلیل دیتے تھے کہ مشرقی پاکستان میں ذرا احتیاط سے اس بات کی کوشش کی جائے کہ فوج سے حکومت واپس عوام کے نمائندوں کو منتقل ہو جائے۔ قدرت کو مگر کچھ اور مجبور تھا۔ ایک بات میں عرض کیا کرتا ہوں کہ سلطنت عباسیہ کی تباہی ان تین روایتی قوتوں کے درمیان تصادم سے ہوئی جن کے باہمی ارتباط سے ریاست کا نظام چلا کرتا ہے۔ اشرافیہ ‘ بیورو کریسی اور فوج۔ مسلمانوں میں خلیفہ اشرافیہ کا نمائندہ تھا ترک فوج بغداد کے باہر خیمہ زن تھی اورعجمی بیورو کریسی سلطانوں وغیرہ کی شکل میں موجود تھی۔ یہ بات شاید میں نے اس وقت کہی تھی جب ضیاء الحق نے شوریٰ بنانے کی کوشش کی تھی کوئی ایک قوت ملک چلا نہیں سکتی نہ کبھی ایسا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں بھی کبھی ایسا نہیں ہوا۔ بھئی کبھی نہیں ہوا۔ بتائے دیتا ہوں ہاں مصر میں بھی ایسا نہیں ہو سکتا۔ اب بھی وہاں جو کچھ ہو رہا ہے یہ ملک چلانے کے مترادف ہے یا کہ ملک بیچنے کے۔ اور یہ مملکت خداداد برائے فروخت نہیں ہے۔ مغرب کے خریدار بھی سن لیں اور اگر کوئی مشرق میں ہے تو وہ بھی سن لے۔ وگرنہ جانے کب کی قیمت لگ چکی ہوتی۔