گزشتہ چند روز سے کوئی اچھی خبر سننے میں نہیں آ رہی۔ڈاکٹر عامر لیاقت کی وفات کی خبر سن کر بھی افسوس ہوا ہے وہ اپنی طرز کے واحد آدمی تھے۔ان پر اعتراض کرنے والے بھی بہت ہیں لیکن ان کی صلاحیتوں کے معترف بھی کم نہیں ہیں ۔وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ۔تعلیم کے لحاظ سے تو وہ ڈاکٹر تھے لیکن اپنے کیریئر کا آغاز انہوں نے صحافت سے کیا ا۔ انہوں نے ایک کالم نویس ،براڈ کاسٹر، اسلامی سکالر، سیاستدان اور ٹی وی اینکر کی حیثیت سے اپنا لوہا منوایا۔وہ جنرل پرویز مشرف کی کابینہ میں مذہبی امور کے وزیر مملکت بھی رہے ان کی ذاتی زندگی کے اتار چڑھائو ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوئے جب تک ان کی پہلی بیوی ان کے ہمراہ رہی ان کی زندگی کامیابیوں کی طرف گامزن رہی۔ ان کے بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور اب وہی ان کے وارث ہیں۔وہ بیرون وطن مقیم ہیں اور اپنے والد کی تدفین کے لئے پاکستان آ رہے ہیں۔ دوسری اور تیسری شادی ان کے لئے ذہنی دبائو کا باعث بنی۔ آخری شادی نے تو ان کی شخصیت کو بدل کے رکھ دیا اور طرح طرح کے الزامات ان کے حصے میں آئے ۔وہ یقینا ڈیپریشن کی کیفیت میں تھے اور آخر کار اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے ا۔للہ تعالیٰ ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے اور ان کے بے شمار دینی کاموں اور ان کی پڑھی ہوئی روح پرور نعتوں کو ان کے لئے ذخیرہ آخرت بنا دے۔ شریف خاندان کے سابقہ ملازم ملک مقصود جو تقریباً چار سال سے دوبئی میں مقیم تھے اور کافی پریشان تھے اپنے خالقی حقیقی سے جا ملے ہیں۔ وہ جناب شہباز شریف اور حمزہ شریف کے ساتھ منی لانڈرنگ کے کیس میں شریک ملزم تھے وہ ایک معمولی تنخواہ پر ملازم تھے لیکن ان کے اکائونٹ میں پونے چار ارب روپے موجود تھے ا۔س رقم کی موجودگی نے ان کے طرز زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں کی تھی۔ان کا خاندان کرائے کے کوارٹر میں رہائش پذیر تھا اور آج بھی وہیں قیام پذیر ہے۔اس دوران ان کے بھائی کا انتقال ہوا اور وہ پاکستان نہ آ سکے ان کے بچوں کے رشتے بھی ان کی غیر موجودگی میں طے ہوئے۔ظاہر ہے وہ دبئی میں بھی کوئی خوشحالی زندگی نہیں گزار رہے تھے۔اب وہیں ان کا انتقال ہو گیا ہے اور شاید ہی ان کا جسد خاکی پاکستان لایا جا سکے۔ وہ بڑے آدمی نہیں تھے لیکن اپنے خاندان کے لئے تو وہ اتنا ہی اہم تھے جتنا کوئی حکمران ہو سکتا ہے۔ ان کی بیوی بھی ہے اور بچے بھی ہیں ۔وہ سوچتے تو ہوں گے کہ آخر کار ان کے پیارے کو کس جرم کی سزا ملی ہے۔ امید کرنی چاہیے کہ جو ان کی زندگی نہ بدل سکے ان کے خاندان کی زندگی بدلنے کے لئے کچھ نہ کریں گے اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ۔تیسری دل دکھانے والی خبر کراچی کی دعا زہرہ کی ہے اخبارات میں شائع ہونے والی تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اور اس کا مبینہ شوہر غربت اور کم خوراکی کا شکار چھوٹے بچے ہیں۔انہوں نے اپنے والدین کی منشا کے خلاف نکاح کیا اور کراچی سے بھاگ گئے۔ لڑکی کے والدین نے مقدمہ کروایا اور اپنی بیٹی کی برآمدگی کے لئے خوب دوڑ دھوپ کی/ اخبارات اور سوشل میڈیا نے اس خبر کو خوب اچھالا اور اعلیٰ عدالتوں نے پولیس کو مجبور کر دیا کہ وہ اس کیس میں سنجیدگی دکھائے اور مغویہ کو ہر صورت برآمد کر کے عدالت کے سامنے پیش کرے ۔ اس کیس کا سب سے اہم موڑ اس وقت سامنے آیا جب پولیس نے واقعی اس جوڑے کو عدالت کے سامنے پیش کر دیا۔ دعا زہرہ نے نہ صرف اپنے والدین کے اغوا کے دعوے کو جھٹلا دیا بلکہ اپنے والدین سے ملنے سے بھی انکار کر دیا اس کے والد اور والدہ عدالت کے سامنے روتے دھوتے رہے اور اتنی دعائوں کے بعد برآمد ہونے والی دعا زہرہ کا دل پھر بھی نہیں پسجا اور اس نے اپنے شوہر نامدار کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ اب اس معاشرے کا کیا کیا جائے جہاں والدین کے پاس اپنی اولاد کی تربیت کے لئے وقت ہی نہیں بچا۔وہ اپنی اولاد کو زندگی کی دوڑ میں کامیاب بنانے کے لئے تعلیم تو جیسے تیسے دلا دیتے ہیں لیکن تربیت کرنے میں کوتاہی برتتے ہیں۔چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں ٹی وی کے رومانی ڈرامے دیکھ دیکھ کر بڑے ہوتے ہیں اور باقی کی تربیت اپنے موبائل سے حاصل کرتے ہیں شاید ہی پیمرا نے کسی ڈرامے کو مخرباخلاق قرار دے کر آف ائیر کرنے کی ہدایت کی ہو۔ ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کی تربیت کے لئے وقت نکالیں اور اپنے بچوں کو وہ دوستی اور بھروسہ دیں کہ وہ اپنے ذاتی معاملات اپنے والدین کے ساتھ زیر بحث لا سکیں۔ مائوں کی ذمہ داری اس سلسلے میں سب سے زیادہ ہے۔بچوں کو وقت دینا اور بے جا سختی سے گریز کرنا بہت ضروری ہے۔ اشیائے ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہمارے عوام کو نفسیاتی مریض بنا رہی ہیں۔ پٹرول کی قیمت کے پیش نظر سب چیزوں کی قیمت میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے ہمارے تاجر اس قدر بے رحم ہیں کہ وہ اضافہ کرتے وقت یہ بھی نہیںسوچتے کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ اسی نسبت سے ہونا چاہیے جتنا کہ پٹرول میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ اسے بہانہ بنا کر بے مہابہ اضافہ کرتے ہیں اور ماشاء اللہ حکومت ایسی ہے کہ اسے فرصت ہی نہیں کہ وہ کوئی چیک اور بیلنس کا نظام قائم کرسکے حکومت کو قائم رکھنا ہی ان کا پہلا اور آخری ہدف ہے۔ ان حالات میں کسی عوام دوست بجٹ کی توقع رکھنا تو مشکل ہے لیکن یہ کوشش ضرور ہونی چاہیے کہ ہمارا غریب ترین طبقہ جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھ سکے۔قوم منتظر ہے کہ کوئی اچھی خبر ملے لیکن فی الحال تو دل دکھانے والی خبروں کی یلغار ہے، خدا ہمارے وطن کی حفاظت فرمائے۔