پاکستان اور امریکہ کے دوطرفہ تعلقات آج کل خاص طور پر پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کے دورہ روس کے باعث تناؤ کا شکار ہیں۔ عمران خان کی حکومت کو ہٹانے کے لیے نام نہاد سفارتی کیبل کا تنازع نے ایک اضافی عنصر کے طور پر پہلے سے تناؤ کا شکار باہمی تعلقات پر مزید منفی اَثر ڈالا ہے۔اگرچہ دوطرفہ تعلقات،جو سیاسی،اقتصادی،ثقافتی اور دفاعی تعاون سمیت کثیر الجہتی رہے ہیں،میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے ہیں۔ اَپنی مخصوص نوعیت کی بنیاد پر، پاکستان اور امریکہ کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو عام طور پر" اَرینجڈ میرج"کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔کچھ اسکالرز نے چینی اور جاپانی اقوال کا استعمال کرتے ہوئے،اِسے اِیک اَجنبی جوڑے کے طور پر پیش کیا ہے ۔ شجاع نواز کے الفاظ میں، پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ایک حقیقی "خرابی" رہے ہیں جو ایک بری بریک اپ کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن دونوں فریقوں کی خاطر اسے بچانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ کا امریکہ کا تین روزہ پہلا سرکاری دورہ ، پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو دوبارہ استوار کرنے کی ایک کوشش معلوم ہوتا ہے،جو بائیڈن انتظامیہ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے جمود کا شکار ہیں، خاص طور پر پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خاں کے دورہ روس کے بعد جس کی ٹائمنگ خطے میں عام طور پر بدلتی ہوئی سیاسی تبدیلی اور خاص طور پر مشرقی یوکرین پر روسی حملے کے تناظر میں اہم بن گئی۔تاہم،مسٹر بھٹو زرداری نے سابق وَزیرِ اَعظم عمران خان کے ماسکو کے دورے کا دفاع کیا جس دن روس نے یوکرائن پر حملہ کیا جبکہ "پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کی اہمیت پر زور دیا"۔پاکستان میں سابق حکومت کی تبدیلی کے لیے نام نہاد ڈپلومیٹک کیبل تنازعہ کو بھی پاکستان امریکہ تعلقات پر اضافی تناؤ کی فوری وجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔تاہم،تعلقات اب بھی برابری،باہمی احترام اور خاص طور پر علاقائی استحکام سے متعلق مشترکہ مقاصد کی بنیاد پر دوبارہ استوار کیے جا سکتے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق،امریکی وزیر خارجہ انٹونی جے بلنکن اور پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے "آب و ہوا اور موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز، تجارت، سرمایہ کاری، صحت اور عوام سے عوام کے رابطوں میں شراکت داری کو بڑھانے" سمیت "علاقائی امن، انسداد دہشت گردی، افغان استحکام، یوکرین کی حمایت اور جمہوری اصولوں پر امریکہ پاکستان تعاون کی اہمی"پر تبادلہ خیال کیا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ نے 18مئی 2022 کو ہونے والے گلوبل فوڈ سیکیورٹی کال فار ایکشن پر اقوام متحدہ کے وزارتی اجلاس اور 19 مئی کو بین الاقوامی امن کی بحالی پر سلامتی کونسل کی کھلی بحث میں شرکت کی۔ یوکرائن اور روس کے مابین جنگ کے مسئلے کی وجہ سے ممکنہ غذائی بحران کے تناظر میں بلائے گئے خوراک کی سلامتی سے متعلق ہونے والے اقوام متحدہ کے وزارتی اجلاس، جس نے پوری دنیا میں خوراک کی سپلائی پر روس کے حملے کے اثرات کو اجاگر کیا ہے،میں پاکستانی وزیرِ خارجہ کی شرکت، گزشتہ حکومت کی روس یوکرائن تنازعہ میں غیر جانبدار رہنے کی پالیسی میں نمایاں تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان موجودہ دوطرفہ تعلقات پاکستان سے بائیڈن انتظامیہ کے بلاجواز مطالبات کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ رہے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں،پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات ایک محدود حد تک ٹرانزکشنل لیول کے تعلقات رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا اعلان بھی کیا جو پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی مسئلہ ہے۔ جوزف بائیڈن کے 46 ویں امریکی صدر کے طور پر اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوطرفہ تعلقات کے مستقبل کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں۔تاہم،دونوں ممالک کے درمیان موجودہ تعلقات افغانستان اور چین کے عوامل کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔ امریکہ اور پاکستان قریبی تعلقات کی بحالی میں کامیاب کیوں نہیں ہو رہے؟ یہ وہ سوال ہے جسے علاقائی اور بین الاقوامی سیاست کی موجودہ حرکیات کی بنیاد پر جانچنے کی ضرورت ہے۔ امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق افغانستان اور چین جیسے فیکٹرز پاکستان اور امریکہ کے درمیان قریبی تعلقات کی بحالی میں دو اہم رکاوٹیں ہیں جبکہ پاکستان کی روس یوکرائن کے معاملے پر غیر جانبدار رہنے کی پالیسی ایک اضافی عنصر تھی۔ تاہم، حالیہ سفارتی کیبل تنازع کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کم ترین سطح پر پہنچ گئے۔ پاکستان خطے میں ایک مثبت کھلاڑی کے طور پر امریکیوں کے ذہن میں ابھرنا چاہتا ہے اور وہ بڑی طاقتوں کی دشمنی کا شکار نہیں بننا چاہتا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ نے بجا طور پر پاکستان کی موجودہ صورتحال کو "عالمی جغرافیائی سیاست کے کراس ہیئرز میں پھنسا ہوا" قرار دیا ہے۔ افغانستان کی صورتحال گزشتہ تین دہائیوں سے گڑبڑ کا شکار ہے جسے افغان معاشرے کے سیاسی، معاشی اور سماجی تانے بانے اور سیاسی اور نسلی تقسیم کو مدنظر رکھتے ہوئے مستحکم بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ اور پاکستان کے درمیان قریبی دوطرفہ تعلقات کے قیام میں چین کا عنصر ایک اضافی اور اہم رکاوٹ ہے۔ یقینی طور پر، پاکستان، امریکہ کے ساتھ اپنے "ٹرانزکشنل سطح" کے تعلقات پر چین کے ساتھ اَپنی "ہمہ وقتی اور آزمودہ دوستی" کو قربان نہیں کر سکتا۔ تاہم، پاکستان کو امریکہ اور چین کی باہمی عداوت میں ملوث ہونے سے بچنے کے لیے ایک واضح اور محتاط انداز اپنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو کسی بھی قسم کی سیکیورٹی پر مبنی بلاک سیاست سے گریز کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اِسے اَپنی خارجہ پالیسی میں جیو اکنامکس کو ترجیح دینی چاہیے جس پر وہ پہلے ہی عمل پیرا ہے۔