اقوام متحدہ کے بچوں کے متعلق ادارے یونیسف کے مطابق پاکستان میں 2کروڑ 30لاکھ بچوں میں سے صرف 77لاکھ بچوں کی پیدائش کا باقاعدہ اندراج کروایا گیا ہے۔کوئی ملک بھی سول رجسٹریشن کے مربوط نظام کے بغیر خوشحال اور ترقی کی منزل نہیں پا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں پیدائش کے وقت ہی بچے کی کلائی میں پن کوڈ مائیکرو چپ انجکٹ کر دی جاتی ہے، یہ پن کوڈ بچے کا شناختی کارڈ اور انکم ٹیکس نمبر ہوتا ہے۔ جس کے ذریعے بچے کا بلڈ گروپ ،تعلیمی کوائف، صحت کے متعلق تمام معلومات ایک کلک سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس نظام کی وجہ سے ان ممالک کی حکومتوں کو ملکی آبادی کے بارے میں درست اعداد و شمار میسر آتے ہیں جن کی مدد سے حکومت مستقبل کی منصوبہ بندی کرتی ہے ۔ حکومت کوعلم ہوتا ہے کہ 25سال بعد ملک میں کتنے ہسپتالوں تعلیمی اداروں مکانات اور روزگار کے نئے مواقعوں کا انتظام کرناہے اسی طرح بچے کے تعلیمی کوائف سکول انتظامیہ کو اس کی صلاحیتوں اور اعلیٰ تعلیم کے لیے شعبہ جات کے تعین میں مددگار ہوتے ہیں اس کے برعکس پاکستان میں سول رجسٹریشن کے ناقص انتظام کی وجہ سے ہی ہمارے ہسپتالوں میں ایک بستر پر 3,3مریض لیٹنے پر مجبور ہیں جبکہ تعلیمی اداروں کی کمی کی وجہ سے لاکھوں طلباء و طالبات پرائیویٹ کالجز میں بھاری فیسیں ادا کر کے داخلہ لینے پر مجبور ہیں جو مہنگی ڈگریاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ بھی بے روزگاروں کی فوج میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستانی قوم کے بیشتر مسائل کی جڑ سول رجسٹریشن کے ناقص نظام کو قرار دینا غلط نہ ہو گا ۔بہتر ہو گا حکومت ملک میں سول رجسٹریشن کا مربوط اور موثر نظام مرتب کرنے کے ساتھ ڈیٹا کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال کو بھی یقینی بنائے تاکہ تمام شہریوں کو یکساں سہولتیں مل سکیں۔