ہمارا کالم’’گیلیلو سے ڈاکٹر عطاء الرحمن تک’’پڑھ کر ہمارے ایک سائنس داں قاری نے بہ ذریعہ ای میل ہمیں اپنی ایک ایجاد سے مطلع کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس ایجاد و اختراع کے لئے انہیں ایک لیبارٹری درکار ہے تاکہ ان کے تجربے کی تصدیق ہو سکے ان کے مطابق انہوں نے اپنے اس سائنسی کارنامے سے مغرب کے سائنس دانوں سے بذریعہ ای میل خط و کتابت کی ہے اور جواب میں ان شخصیتوں نے اعتراف کیا ہے کہ مغرب کی سائنس کے لئے بھی یہ نئی اختراع ہے۔ ہمارے یہ قاری جناب عمر فاروق ہیں۔ پہلے ان کا خط ملاحظہ کیجئے۔ ’’جناب ڈاکٹر طاہر مسعود صاحب‘ چند یوم پہلے آپ کا ایک کالم یہ عنوان ’’گیلیلو سے ڈاکٹر عطاء الرحمن تک‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ بے شک آپ نے بہت اچھا لکھا لیکن اگر آپ ملک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترویج کے لئے ایک عملی کام بھی کر سکیں تو قوم اور ملک کا اتنا بھلا ہو جائے گا کہ ابھی اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس ملک میں اس قسم کے کام پریس یا عدلیہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہوتے۔ اس لئے آپ سے رجوع کر رہاہوں۔ میں نے وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے نام ایک انتہائی اہم سائنسی تجربے کی لیبارٹری ٹیسٹ کی درخواست لکھی ہے۔ خود یہ تجربہ بہت سادہ ہے لیکن اس کے نتیجے میں انرجی اور فورس سے متعلق سائنسی تصورات کے ایک بڑے حصے کی تبدیلی ناگزیر ہے۔ آپ اتنا کرم فرمائیں کہ اس درخواست کو اپنے کالم میں شائع کر دیں۔ اگر حکومت اس تجربے کا لیبارٹری ٹسٹ کر کے اس کی فائنڈینگس کا عالمی سطح پر اعلان کر دے تو ملک کی زبردست نیک نامی ہو جائے گی آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس نیک نامی کے اثرات کیا ہوں گے۔ میں یہ تجربہ متعدد انٹرنیشنل سائنسی فورمز پر رپورٹ کر چکا ہوں۔ سینکڑوں ہائی کوالیفائڈ غیر ملکی سائنس داں اس تجربے کی رپورٹ کو لفظ بہ لفظ پڑھ چکے ہیں کیمبرج یونیورسٹی کی ایک ویب سائٹ پر اس تجربے کے متعلق میں سائنس دانوں کے ایک گروپ کے ساتھ زبردست بحث بھی کر چکا ہوں اس بحث کے نتیجے میں یہ بات صریحاً واضح ہو چکی ہے کہ اس تجربے کے نتائج سائنسی حلقے کے لئے بالکل نئے ہیں۔ جلد ہی کوئی نہ کوئی سائنس دان یا سائنسی ادارہ اس تجربے کو دہرا کر اس تجربے کی تصدیق اور اس کا اعلان کر دے گا لیکن اس صورت میں نیک نامی متعلقہ ملک کی ہو گی پاکستان کی نہیں۔ دیگر آپ بہتر سمجھتے ہیں متعلقہ دستاویزات منسلک ہیں۔ مخلص عمر فاروق ہمارے معزز قاری کے خط سے معلوم ہوا ہے کہ ان کا تجربہ انجینئرنگ‘ فزکس اور الیکٹریکل انجینئرنگ کے شعبے سے تعلق رکھتا ہے اور ان کے تجربے کا عنوان ’’ایک مستقل مقناطیس اور ایک برقی مقناطیس کے درمیان قوت دفع‘‘ چونکہ ہمارا عمر بھر کا مطالعہ ادب شاعری تاریخ سیاسیات اور کسی قدر فلسفے وغیرہ کا رہا ہے اس کے باوجود ہمیں سائنس و ٹیکنالوجی کی اہمیت و افادیت کا پورا احساس ہے اور ہمیں بہ حیثیت مسلمان اس بات کی شرمندگی بھی ہے کہ پچھلی کئی صدیوں سے مسلمانوں نے سائنس کی دنیا میں ایک سوئی بھی ایجاد نہیں کر سکے نہ کوئی سائنسی نظریہ ہی پیش کر سکے ہیں۔ اس کی وجہ وہ فکری اور علمی جمود ہے جو مسلم دنیا پر طاری ہے،ایک آدھ سائنس داں نے اپنی ذاتی محنت و کاوش سے اگر سائنس یا فزکس کی دنیا میں نوبل انعام جیت لیا ہے تو اس سے مسلم دنیا کی فکری برتری کا نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی نئی ایجاد نئی دریافت نیا نظریہ ہمارے وجود میں کوئی ہلچل نہیں مچاتا۔ ہم یہ ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں کہ مغرب زوال آمادہ ہے اور پھر اس کے لئے بھی بطور ثبوت ہم وہاں کے مفکروں کے اقوال نقل کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ دیکھیے صاحب فلاں مفکر نے ’’زوال مغرب ‘‘ جیسی تصنیف میں مغرب کے زوال کی پیش گوئی کر دیتی ہے۔ ہم نے مغربی تہذیب اور مغربی تعلیم کو تو آنکھیں بند کر کے بغیر سوچے سمجھے اپنا لیا ہے لیکن جو چیز یعنی علم و تحقیق مغرب کی ترقی کی بنیاد ہے اسے ہم کیوں اختیار نہ کر سکے۔ بے شک ہمارے ہاں سائنس کی تعلیم دی جاتی ہے اور ہمارے ملک میں سائنس پر کام کرنے والے کئی اچھے ادارے موجود ہیں ہمارے درمیان ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی‘ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی اور سب سے بڑا نام ڈاکٹر عبدالسلام کا ہے لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ یہ سارے نام پرانے نظام تعلیم کی پیداوار ہیں۔ نئے اور انگریزی ذریعہ تعلیم نے ہمیں کتنے سائنس داں کتنے محققین دیے؟ ظاہر ہے یہ میدان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے توسط سے ایٹم بنانے کے باوجود آج بھی خالی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی عمرفاروق جیسا سائنس داں کوئی نیا تجربہ کرتا ہے تو حکومت اور سول سوسائٹی کا کیا فریضہ ہے۔ یہی نا کہ اس کی حوصلہ افزائی کی جائے اس پر ہمیں مادام کیوری جو غالباً واحد خاتون سائنس دان گزری ہیں۔ انہیں جب ان کی سائنسی خدمات پر نوبل انعام سے ایک نہیں دو بار نوازا گیا۔ تو جب ایک مرتبہ انہیں ایوارڈ کے ساتھ خطیر رقم دی گئی تو انہوں نے کف افسوس ملتے ہوئے کہا تھا کہ کاش! مجھے رقم انعام میں دینے کے بجائے میرے لئے ایک ایسی تجربہ گاہ بنا دی جاتی جس سے مجھے اپنے کام میںآسانی ہو جاتی۔ ہمارا ملک بھی ابھی اسی دور سے گزر رہا ہے جس سے مغرب گزر چکا ہے ہر معاشرے کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ ہماری ترجیح میں علم ‘ تحقیق‘ تجربہ و مشاہدہ سرے سے آتے ہی نہیں۔ شاید ہم اس کی اہمیت کو بھی نہیں سمجھتے۔ نئی حکومت نے جو اب نئی بھی نہیں۔ ایچ ای سی کی گرانٹ میں کٹوتی کر دی ہے۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن اس کا الزام ایچ ای سی کے چیئرمین پر دھرتے ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم کے نام اپنے خط میں چیئرمین ایچ ای سی کے غیر علمی اور غیر تحقیقی رویے کی شکایت کی ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں تحقیق کے لئے اساتذہ اور یونیورسٹیوں کے لئے جو وطائف رکھے تھے تاکہ ملک میں تحقیق کا رجحان بڑھے لیکن موجودہ چیئرمین نے وہ سارے وظائف بند کر دیے ہیں اور جب وائس چانسلروں کی ایک میٹنگ میں کسی وائس چانسلر نے چیئرمین ایچ ای سی کی توجہ اس جانب دلائی تو موصوف نے شانے اچکا کر بے نیازی سے جواب دیا کہ اگر ڈاکٹر صاحب کو ایسی کوئی شکایت تھی تو انہیں وزیر اعظم کے بجائے مجھ سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔ اتنا کہہ کر انہوں نے اس موضوع پر گفتگو کا باب بند کر دیا۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں علمی معاملات تحقیق بھی سیاسی معاملات کی طرح ذاتی جھگڑوں اور تنازعوں کا شکار ہیں تو کیسے توقع کی جائے کہ کوئی تبدیلی آ سکے گی؟ کیا تبدیلی نعروں سے آتی ہے؟ یا یہ کہہ دینے سے آتی ہے کہ تبدیلی آ نہیں رہی‘ آ چکی ہے۔ یہ قریب اور حقیقت کو مسخ کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟