معروف فلاسفر نیطشے نے کہا ہے کہ نئی منازل کی تخلیق کے لئے اپنی موجودہ جگہ سے منزل تک پل بنانا پڑتا ہے۔یہ پل خود کی مرضی سے ہی تخلیق ہو پاتا ہے جس کی بنیاد ذہن کی آزادی سے ہی اٹھائی جا سکتی ہے۔نیطشے نے غلامی کی بہت سی اقسام بیان کرتے ہوئے جسمانی غلامی کو کم تر اور ذہنی غلامی کو بدترین قسم قرار دیا۔عمران خان نے نئی منازل تخلیق کرنے کے لئے اپنی موجودہ حد سے بڑھ منزل تک پل بنانے کی کوشش کی۔ مداخلت ہوئی تو جلسے میں عوام کے جذبات ابھارنے کے لئے نعرہ مستانہ بلند کرتے ہوئے خواص سے ایک معصومانہ سا سوال بھی کر دیا ’’ہم کوئی آپ کے غلام ہیں‘‘؟ خواص نے جسارت کا انتظام عمران خان کو گھر بھیج کر اقتدار’’ تجربہ کاروں‘‘ کو سونپ دیا۔یہ جاننے کے لئے کہ جو منزل عمران خان تخلیق کرنے کی سوچ رہا ہے اس کی کوئی رمق باقی تو نہیں رہی۔ امریکی ٹی وی چینل کی اینکر بیکی اینڈرسن نے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سے انٹرویو میں کچھ سوالات پوچھے پہلے تو نشان عبرت بنائے گئے عمران خان کا نام لے کر یہ احساس دلایا ،پھر سوال کیا کہ سابق حکومت روس سے سستی گندم اور تیل خریدنے جا رہی تھی ۔کیا یہ سچ ہے؟ مسلم لیگ ن جو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30روپے اضافہ کرنے کی وجہ سے عمران خان کے اس دعوے کو جھوٹ کا پلندہ قرار دے رہی تھی کہ وہ عوام کو ریلیف دینے کے لئے روس سے 30فیصد سستا پٹرول اور گندم خریدنے جا رہے تھے اسی مسلم لیگ کے وزیر خزانہ نے جواب دیتے ہوئے یہ ’جرم‘ تسلیم کیا کہ گزشتہ حکومت کے روس سے پٹرول اور گندم خریدنے کے لئے معاملات چل ہے تھے۔ اعتراف جرم کے بعد بیکی انڈرسن نے نئی حکومت کے ارادے بھانپنے کے لئے اگلا سوال داغا کہ آپ بھی روس سے گندم اور پٹرول خریدنا چاہیں گے ساتویں ایٹمی طاقت کے وزیر خزانہ نے ہمت جتا کر کہا کہ پاکستان کو سستا پٹرول ملے تو ضرور خریدنا چاہے گا مگر روس پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان کے لئے ایسا کرنا ممکن نہیں۔ رہی بات سستی گندم خریدنے کی تو پاکستان کو روس اور یوکرائن سے گندم خریدنے میں خوشی ہو گی۔بیکی اینڈرسن کو انٹرویو میں وزیر خزانہ نے جس طرح پاکستان موقف بیان کیا اس پر شاعر کا یہ شعر صادق آتا ہے: بلا وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں! کچھ باغباں ہیں برق وشرر سے ملے ہوئے باغباں برق و شرر سے ملے ہوئے نہ ہوتے تو 30فیصد سستا تیل نہ خرید سکنے کا جواز روس پر امریکی پابندیوں کو نہ بناتے۔ ان امریکی پابندیوں کے باوجود ناصرف بھارت روس سے سستا تیل خرید رہا ہے بلکہ روس کے خلاف یوکرائن کو اربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے والے نیٹو اتحادی بھی روس سے گیس اور تیل خرید رہے ہیں۔امریکہ جن ممالک کو روس کا تیل خریدنے کے لئے استثنیٰ دے رہا ہے وہ کوئی بھارت جیسے بڑے اور طاقتور جوہری ملک ہی نہیں بلکہ یورپ کے غیر معروف اور کمزور ممالک ہنگری‘ سلواکیہ چیک ریپبلک ‘ بلغاریہ اور کوروشیا جسے ماضی میں روس کے بلاک میں شامل ممالک ہیں۔ امریکہ کے پرانے یورپی اتحادی فرانس اور جرمنی روس کے تیل اور گیس پر پابندی کے محرک ہونے کے باوجود 2022 ء کے آخر تک روس سے تیل خریدنے کی بات کر رہے ہیں۔بلجیم کے وزیر اعظم نے تو یورپی یونین کمشن کی سربراہ کو ملاقات میں روس پر مزید پابندیاں لگانے میں’’ وقفہ‘‘ لینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ نیٹو اور یورپ روس پر لگائی گئی پہلی پابندیوں کے دنیا بالخصوص یورپ پر ’اثرات بد‘کا ا چھی طرح سے جائزہ تو لے لیں؟امریکہ کے یہ اتحادی روس پر مزید پابندیوں کے حامی ہونے باوجود روس سے تجارت اس کی محبت میں نہیں اپنے عوام کی بھلائی اور خوشحالی کے لئے کر رہے ہیں۔ پاکستان کے وزیر خزانہ روس سے 30فیصد سستا تیل اور گندم نہ خرید پانے کا جواز امریکی پابندیاں بتاتے ہیں مگر سوال یہ کہ ہے کہ بھارت سمیت یورپ کے مذکورہ بالا ممالک کس طرح روس سے تیل خرید رہے ہیں ؟یہاں تک کہ اب تو روس نے بھی امریکی پابندیوں کے مقابلے میں ڈالر کے بجائے روبل میں گیس اور تیل بیچنے کی شرط عائد کر دی ہے۔ دوسرا سوال یہ پابندیاں ہیں کیا اور امریکہ خلاف ورزی کرنے والے کو کیا سزا دے سکتا ہے؟ تو پہلے پابندیوں کی بات کر لیتے ہیں۔ امریکہ جب بھی کسی ملک پر معاشی پابندی عائد کرتا ہے تو اس پابندی پر عملدرآمد کے لئے سوئفٹ(swift) امریکی مالیاتی نظام کا سہارا لیتا ہے۔سوئٹ سوسائٹی فار ورلڈ وائڈ انٹر بنک فنانشل ٹیلی کمیونیکیشنز(swift) ایک عالمی بنکنگ ٹرانسفر میکانزم ہے جو 1973ء میں شروع ہوا اور عالمی تجارت میں ادائیگیاں اسی نظام کے تحت ہوتی رہی ہیں۔ امریکہ نے جب سوئفٹ نظام کو اپنے سیاسی ایجنڈے کے لئے استعمال کرنا شروع کیا تو یہ مالیاتی نظام سیاست زدہ ہو گیا ۔امریکہ نے روس ، ایران ،ترکی، کیوبا، شمالی کوریا سمیت ہر اس ملک کے خلاف پابندیاں لگانا شروع کر دیں جو امریکی اہداف میں رکاوٹ بن رہا تھا۔امریکہ کی اس تانا شاہی نے عالمی برادری کو امریکی مالیاتی نظام سے بیزار اور متبادل نظام تشکیل دینے پر مجبور کیا۔ 2014ء میںکریمیا پر تنازعے کے بعد جب امریکہ نے روس پر پابندیاں لگائیں تو پوٹن نے اس امریکی شکنجے کو توڑنے کی ٹھان لی اور بہت ہی کم عرصہ میں روس نے دنیا کو SPFS نامی متبادل عالمی مالیاتی نظام فراہم کر دیا جو اب نہ صرف تیار ہے بلکہ عالمی ادائیگیوں کے لئے استعمال بھی ہو رہا ہے۔ روس کے مرکزی بنک CBAکی سربراہ ایلویرا نیبولینا کے مطابق یوکرائن جنگ سے پہلے روس کی 18فیصد تجارت SPFSسسٹم پر منتقل ہو چکی تھی۔ دنیا کے کئی ممالک بشمول ایران اس نظام سے منسلک بھی ہو چکے ہیں۔ امریکی بلیک میلنگ سے ایران روس اور شمالی کوریا ہی نہیں چین بھی عاجز آ چکا ہے اس لئے چین نے بھی CIPSکے نام سے عالمی مالیاتی نظام تشکیل دیا ہے۔ یوکرائن جنگ کو جواز بنا کر امریکہ جہاں روس کو کمزور کر نے اور یورپ پر اپنی گرفت مضبوط کر رہا ہے وہاں اشیاء میں چین کے خلاف جنگی محاذ بنا کر ایشیائی ممالک کو بھی اپنے استعماری شکنجے میں جکڑنا چاہتا ہے،جس کی تفصیل انسٹی ٹیوٹ آف امریکن اسٹڈیز، چائنا انسٹی ٹیوٹ آف کنٹیمپریری انٹرنیشنل ریلیشنز کے اسسٹنٹ ریسرچ فیلوڈونگ چنلنگ نے اپنے مضمون میں بیان کر دی ہے۔ (جاری)