ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان میں شدت پسندی غالب آ رہی ہے اور سیاسی مخالفین نہ تو ایک دوسرے کی شکل دیکھنا چاہتے ہیں اور نہ ایک دوسرے سے بات کرنا چاہتے ہیں۔دوسرے اور تیسرے درجے کے سیاسی لیڈر مخالف سیاسی رہنمائوں کو تُو اور تم کہہ کر مخاطب کرتے ہیں اور اپنے آقائوں سے داد پاتے ہیں۔بدقسمتی سے بدتمیزی ہی سکہ رائج الوقت ہے اور جو سیاسی کارکن مخالفین کے لئے جتنی زیادہ بدتمیزی کی زبان استعمال کرتا ہے اتنا ہی وہ اپنی لیڈر شپ کے قریب ہو جاتا ہے۔جھوٹے الزامات لگانے پر کوئی پابندی نہیں ہے اور اپنے اوپر لگے الزامات کا جواب دینا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کے جواب میں مخالفین پر سنگین تر الزامات لگائے جاتے ہیں،کب تک آخر کب تک یہ روش برقرار رہے گی۔کوئی بھی یہ سوچنے کے لئے تیار نہیں کہ اس میں پاکستان کا کس قدر نقصان ہو رہا ہے۔پاکستان کی سلامتی اور پاکستان کی معیشت کسی سیاسی جماعت کی ترجیح نظر نہیں آتی۔ خدا کا شکر ہے کہ مدینہ منورہ کے واقعہ پر جس شدت سے ایف آئی آر درج کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا،وہ کسی حد تک تھم گیا ہے۔خواجہ آصف جیسے لیڈر بھی مشورہ دے رہے ہیں کہ یہ معاملہ اللہ کی عدالت پر چھوڑ دیا جائے۔پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے بھی اس روش کی مخالفت کی ہے۔اگر کسی کے سمجھانے پر بھی یہ پسپائی کی گئی ہے تو یہ ایک صائب قدم ہے۔مذہبی جذبات ابھارنے سے کسی کا بھی بھلا نہیں ہو گا، تقریباً سب سیاسی جماعتیں اس کا مزہ چکھ چکی ہیں۔گورنر سلمان تاثیر کا اپنے گارڈ کے ہاتھوں قتل اور ماڈل ٹائون کے قتل عام کے واقعات ابھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔جاوید لطیف پر ہجوم کا تشدد اور خواجہ آصف کے منہ پر سیاہی پھینکنے کا واقعہ بھی بہت پرانا نہیں ہے۔اگر ہمارے ملک میں بھی اس طرح کے پرتشدد واقعات ہوں گے تو مودی کے بھارت اور پاکستان میں کیا فرق رہ جائے گا۔ ایک دوسرے کے خلاف مذہبی جذبات بھڑکانے سے سب کا نقصان ہو گا۔ جہاں تک موجودہ حکومت کی مقبولیت کا تعلق ہے، اس میں غور طلب بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے ذمہ داران عوام کے سامنے آنے سے گریزاں ہیں۔عیدالفطر کی نماز بھی اپنے اپنے گھروں میں ہی پڑھی گئی۔صرف صدر مملکت نے فیصل مسجد میں نماز ادا کی۔جناب وزیر اعظم نے نماز جاتی امرا میں ہی پڑھی اور اخبارات میں ان کی تصویر وزیر اعلیٰ پنجاب سے عید ملتے ہوئے شائع ہوئی ہے۔یعنی گھر کی بات گھر میں ہی رہی۔حکومت کے لئے یہ کوئی نیک شگون نہیں ہے۔اتنے تجربہ کار لوگوں سے اس سے بہتر رویے کی توقع ہے۔وزیر اعظم کے سعودی عرب کے دورے کے دوران بھی ایسی ہی غلطیوں کا مظاہرہ کیا گیا۔عدالتوں کے مفرور اور برطانوی شہریت کے دعوے دار عزیز و اقارب کو سرکاری وفد کا حصہ بنایا گیا۔جو لوگ عدالتوں کی طلبی پر یہ عذر پیش کرتے تھے کہ وہ پاکستانی شہری ہی نہیں ہیں‘وہ کیسے سرکاری وفد کا حصہ ہو سکتے ہیں۔سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور کا ایک پراسرار کردار فرح گجر بھی آج کل خبروں کی زینت ہے۔وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کہہ رہے ہیں کہ فرح خان کی لوٹ مار کے ثبوت موجود ہیں اور وہ انہیں ہر صورت دوبئی سے واپس لائیں گے۔اس خاتون کے شوہر نامدار احسن جمیل گجر کہہ رہے ہیں کہ رانا ثناء اللہ کا باپ بھی ہمیں باہر سے واپس نہیں لا سکتا۔ماشاء اللہ کیا طرز گفتگو ہے۔یادش بخیر یہ وہی صاحب ہیں جو ڈی پی او پاکپتن کی وزیر اعلیٰ پنجاب کی موجودگی میں ڈانٹ ڈپٹ کرتے پائے گئے تھے اور ڈی پی او پاکپتن کی فوری ٹرانسفر کا موجب بنے تھے۔کیا انہیں احساس نہیں ہے کہ جب وہ اور ان کی بیوی سنجیدہ الزامات کی زد میں ہیں‘ان کا ملک سے فرار ہونا ان الزامات کو تقویت دے گا۔ عمران خان خود بھی ان الزامات کی چھینٹوں کی زد میں ہیں اور غیر ضروری طور پر اس خاتون کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہیں تو کوشش کرنی چاہیے کہ یہ خاتون فوراً پاکستان واپس آئے اور ان الزامات کا سامنا کرے اور اپنی صفائی پیش کرے۔ عمران خان کو کسی طرح بھی اس کی ذمہ داری نہیں لینی چاہیے اور قانون کو اپنا راستہ لینا چاہیے۔اس طرح کے کردار عمران خان کی سیاست کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ان سے جتنا دور رہا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔عمران خان کو اب تک تو پتہ چل جانا چاہیے کہ کون کون لوگ ان کے زوال کا سبب بنے ہیں۔وہ اب بھی بزدار سندروم کا شکار نظر آتے ہیں۔سیاسی دشمن بنانے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔اب بھی وہ بلاوجہ علیم خان اور ترین پر الزامات لگا رہے ہیں۔اگر ان کے ساتھیوں نے کوئی جرم کیا تھا تو اپنے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں انہیں جرم ثابت کرکے انہیں سزا دلوانی چاہیے تھی۔اب الزامات لگانا انہیں زیب نہیں دیتا۔وہ تو اپنے بدترین مخالفین کو بھی سزا نہیں دلوا سکے حالانکہ بادی النظر میں واضح ثبوت بھی موجود تھے۔نہ چاہتے ہوئے بھی اسے نااہلی ہی کہنا پڑے گا۔غلطی نہیں‘غلطی پر اصرار تباہ کن ہوتا ہے۔اگر عمران خان ڈیڑھ سال مزید حکومت کر لیتے تو شاید اگلے الیکشن میں انہیں بری طرح شکست ہوتی۔ان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کی غیر ملکی سازش اور مداخلت کی تھیوری عوام کے دل میں گھر کر گئی ہے اور وہ آج پہلے سے بہت زیادہ مقبول سیاسی لیڈر بن چکے ہیں۔یہ مقبولیت ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے۔اس مقبولیت کو ووٹ کی طاقت میں بدلنے کے لئے بڑی عقلمندی اور عملیت پسندی کی ضرورت ہے۔یہ نہ ہو کہ ان کی مقبولیت پاکستان کے لئے تباہی کا سبب بن جائے اور ملک انارکی کا شکار ہو جائے۔وہ اپنی طاقت ضرور دکھائیں لیکن بات چیت کا راستہ بند نہ کریں۔میانہ روی ہی بہترین راستہ ہے۔سیاستدان راستہ بند نہیں کرتے‘ راستہ نکالتے ہیں۔ موجودہ حکومت کو اپنی نامقبولیت کا اندازہ ہے۔اس کا حل یہ نہیں ہے کہ عمران خان کو بدنام کیا جائے۔کوئی نہ کوئی درمیانی راستہ نکالنا پڑے گا۔یہ بات چیت کی جائے اور الیکشن کی طرف جایا جائے۔اس سال کے آخر تک الیکشن ہو جائیں تو پاکستان کے لئے بڑا اچھا ہو گا۔عوام کی طاقت کے سامنے کوئی حکمران نہیں ٹھہر سکتا۔مشرقی پاکستان اور انقلاب ایران کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔اپنے اقتدار سے زیادہ ملک کی سلامتی اور خوشحالی کا سوچیں۔