جمعہ کا دن بڑی مصروفیت کا دن ہوتا ہے۔ کچھ عرصے سے کچھ لوگوں پہ بھاری بھی گزر رہا ہے۔خیر یہ تو ان کے کرتوتوں کے سبب ہے۔جس کا بھگتان وہ بھگت رہے ہیں اور اس کے لئے جمعہ سے بہتر کونسا دن ہوگا۔سنا ہے حشر بھی جمعہ کے روز بپا ہوگا۔شاید اسی بہانے بے دھڑک کھل کھیلنے والوں کو مالک محشر کا کوئی خوف ہی آجائے۔وہاں تو کوئی لاہور ہائی کورٹ بھی نہ ہوگی ۔ضمانت نہ شفاعت۔ہاں جسے وہ اجازت دے۔وہ مالک الملک جسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔فعال لما یرید۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ جمعہ کے روز کالم لکھنا اس لئے بھی دشوار ہوتا ہے کہ اس دن کی فضیلت کے حوالے سے کئی اضافی معمولات میں کوتاہی ہوجاتی ہے۔حصول رزق حلال کی فضیلت اگر جمعہ سے زیادہ نہ ہوتی تو یہ کوتاہی بڑی کوفت میں مبتلا کرتی۔الحمد للہ ،جس نے رزق حلال کے دروازے کھولے اور اسے مقدم رکھنے کی توفیق دی۔رمضان المبارک کی ابتدا میں ارادہ تھا کہ کوئی کالم اس ماہ مبارک سے مخصوص کیا جائے لیکن سیاسی جھمیلوں نے جان ہی نہ چھوڑی اور دیکھتے ہی دیکھتے رمضان کریم کا آخری جمعہ آن پہنچا۔آج کسی اور موضوع پہ لکھنے کا دل ہی نہیں چاہا۔کیا ہم ان ہی جھمیلوں میں،کارزار سیاست میں،کاروبار معیشت میں،عالمی سیاست کے اتار چڑھاو میں الجھے رہیں گے اور کسی دن ہمارے زندگیوں کا آخری جمعہ،جمعۃ الوداع آن پہنچے گا اور ہمیں خبر بھی نہ ہوگی۔دیکھا جائے تو ایسا ہی ہوتا بھی ہے۔ہم سے پہلے جانے والوں کا کوئی نہ کوئی آخری جمعہ رہا ہوگا۔ہمارے ساتھ بھی یہی ہوگا لیکن نہ انہیں علم ہوا نہ ہمیں ہوگا۔یہی بے خبری زندگی ہے۔ہم جو خود کو اس دنیا اور اس کے کاروبار کے لئے بہت ہی ناگزیر خیال کرتے ہیں، اک روز نہیں ہونگے اور ہمارا تذکرہ بھی لوگوں کی گفتگو سے محو ہوجائے گا۔ میں رو ز ادھر سے گزرتا ہوں کو ن دیکھتا ہے۔میںجب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا، کہنے والے مجید امجد جیسی حقیقت پسندی بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔جن میں پائی جاتی ہے ان کے پائوں زمین پہ ٹکے رہتے ہیں اور دماغ بھی مناسب مقام پہ ہوتا ہے۔عدل ہر شے کو اس کے مقام پہ رکھنے کا نام ہے۔ خود شناس لوگ عادل ہوتے ہیں۔وہ خود کو کسی غیر معتدل مقام پہ رکھتے ہیں نہ اپنے کسی ممدوح کو۔ انہیں دونوں کی حقیقت کا علم ہوتا ہے۔ مرشدی یوسفی لکھتے ہیں:خود کو indispensable (ناگزیر ۔بے بدل) سمجھنے والوں کے مرنے سے جو خلا پیدا ہوتا ہے، وہ درحقیقت دو گز زمین میں ہوتا ہے جو ان ہی کے جسد خاکی سے اسی وقت پر ہوجاتا ہے۔مرشدی جیسا سفاک قلم کہاں سے لائیں جو سفاک تر خیال کو دام میں باندھے اور قاری کے سامنے ڈال دے۔تاریخ کے سرسری مطالعے نے اس پہ اتنا اضافہ ضرور کیا ہے کہ اکثر اوقات خود کو بے بدل سمجھنے والوں کے مرنے سے جو خلا پیدا ہوتا ہے وہ دوگز زمین میں بھی نہیں ہوتا کہ انہیں وہ بھی نصیب نہیں ہوتی۔وہ خلا صرف ان کے دھیان میں ہوتا ہے جو آخری سانس کے ساتھ ہی ایک ایسی حقیقت سے پر ہوجاتا ہے جسے موت کہتے ہیں۔ دنیا کی ہر خام خیالی کو رفع کرنے والی موت۔ دماغ میں بھرے ہر خنا س کا علاج موت۔اسی لئے کچھ مجرموں کی گردن اتار دی جاتی ہے۔ان کا فساد اور ذہنی فتور مو ت ہی رفع کرسکتی ہے۔اسی لئے کچھ عالی ذہن بھی تختہ دار پہ تمغوں کی طرح لٹکا دیئے جاتے ہیں۔اس ترکیب پہ عمل کرنے سے دو انتہائی متضادنتائج برآمد ہوتے ہیں۔ فساد حیرت انگیز طور پہ رفع ہوجاتا ہے اور حق تختہ دار پہ جھولنے کے بعد سرعت سے پھیلنے لگتا ہے۔فساد ختم ہوجاتا ہے نظریات ختم نہیں ہوتے۔ مجرموں کوسزائے موت دینے سے جرائم اور گناہ بڑھتے نہیں ختم ہوتے ہیں۔نظریے کو پھندا ڈال کر لٹکانے سے وہ کم نہیں ہوتا ،پھیلتا چلا جاتا ہے۔یہی حق کی پہچان ہے۔موت اہل حق کی دوست ہے۔ وہ انہیں روئے زمین پہ اہل شر کے شر سے بچانے کے لئے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ اہل حق ہمہ وقت اس لمحے کے منتظرہوتے ہیں۔ انہیں نہ خوف ہوتا ہے نہ غم۔انہیں صرف اعلائے کلمۂ حق کی فکر ہوتی ہے۔ خدائے برحق نے انسانی جان کی حرمت ہر شے سے مقدم رکھی ہے۔آخر مالک روزالست نے اس میں اپنی روح پھونک رکھی ہے۔لیکن یہی مٹی کا پتلا جب زمین میں فساد پھیلانے لگے تو اس کی گردن اتارنے کا حکم بھی اسی کا ہے۔خدا کی زمین میں فساد کا علاج موت ہے۔یہ سزا نہیں علاج ہے۔سزا تو مالک یوم الدین نے اپنے ذمہ لی ہوئی ہے۔موت تو بس اس کا اس دنیا کے اسٹیج سے فیڈآوٹ ہے۔اللہ کی زمین اور اس کی مخلوق کی اس فسادی وجود سے جان خلاصی ہے۔موت تو کوئی سزا ہے ہی نہیں۔سینکڑوں انسانی جانوں کے قاتل کو بھی ایک ہی بار سزائے موت دی جاسکتی ہے۔اس سے آگے انسان بے بس ہے۔ ایسے میں معاملات مالک روز جزا کے ہی سپرد کئے جاسکتے ہیں جو ظلم کا وہ حساب لے گا جس میں کمی ہوگی نہ اضافہ۔ کامل انصاف اور پورا حساب دنیا میں ممکن ہی نہیں۔ آپ جان کے بدلے جان لے سکتے ہیں لیکن جو جان ناحق جاچکی ہے اسے واپس نہیں لاسکتے۔مرنا مقتول کو بھی ہے اور قاتل کو بھی۔دونوں کے ساتھ بندھے رشتے بین کرتے رہ جاتے ہیں۔ انسانی المیے میری اور آپ کی سوچ سے بھی بڑے ہیں۔کہیں موت ان سے نجات دلادیتی ہے اور کہیں خود المیہ بن جاتی ہے۔شدت مرض میں مبتلا کسی دیرینہ مریض کی نجات موت ہے اور کسی کے اکلوتے بیٹے کی ناگہانی موت خود ایک المیہ۔ یہ ہمارے اردگرد ایسے گھومتی ہے جیسے ہم خود اپنی خوہشات کے گرد گھومتے رہتے ہیں۔کبھی ہم انہیں پا لیتے ہیں لیکن موت تو یقینی طور پہ ہمیں وقت مقررہ پہ جالیتی ہے۔ایسی یقینی شے کو ہم بڑی سہولت سے فراموش کئے بیٹھے ہیں۔کئی برس ہوتے ہیں مری کی دو رویہ سبزے سے گھری سڑک سے گزرتے ایک بورڈ پہ نظر پڑی۔ ہم مرجائیں گے تو ہماری اولاد ہماری وارث ہوگی۔جب وہ بھی مرجائے گی تو ان کی اولادان کی وارث۔ایک دن آئے گا جب سب فنا ہوجائے گا۔