وادی کشمیر کو قدرت نے بے پناہ حسن اور ہریالی سے آراستہ کیا اس لئے اس دلکش وادی کو دنیا میں جنت کا لقب ملا۔ پانچ لاکھ کی آبادی پر مشتمل یہاں کے لوگ دشمنوں کی تکلیفوں کے باوجود بہت اچھی اور خوش باش زندگی گزار رہے تھے ۔گرمیوں کا موسم شروع ہوتے ہی یہاں کی رونقیں بڑھ جاتی ہزاروں سیاح مختلف ممالک سے اپنی زندگی کے بے رنگ لمحوں کو رنگین اور یاد گار بنانے کے لئے اس خوب صورت وادی کا رخ کرتے تھے ۔ یہاں کے سر سبز و شاداب پہاڑ چشموں کا صاف و شفاف اور ٹھنڈا پانی تازہ ہوا خوشگوار ماحول یقینن انسان کو اک روحانی سکون بخشتا تھا۔ مگر ایک منحو س صبح نے اس حسن اور خوشیوں کو ہمیشہ کے لئے دھندلا کر دیا ۸ اکتوبر ۲۰۰۵کی صبح حسب معمول ہر انسان اپنی معمول کی زندگی پر چل نکلا ننھے منھے پھول جیسے پیارے بچے اپنے روشن مستقبل کے خواب لے کر اسکولوں اور کالجوں میں پہنچ گئے ۔آج کسی کو آنے والے لمحوںکے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ پل بھر میں اس جنت کا نقشہ بدلنے والا ہے اپنے بچھڑنے والے ہیں اک قیامت برپا ہونے والی ہے سب کچھ ختم ہونے والا ہے ۔ اچانک ۸بج کر ۵۲منٹ پراک خوفناک آواز آئی زمین نے منہ کھولا اور ہر چیز خاک میں مل گئی پہاڑ پگل گئے گھڑیاںاس قیامت خیز منظر کی گواہی کے لئے وہیں ساقت ہو گئی۔ ایک بار تو پوری وادی کلمہ طیبہ اور استغفراللہ کے ورد سے گونج اٹھی نفسا نفسی کا عالم تھا جو کچھ لوگ باہر تھے وہ اپنے ہوش حواس کھو بیٹھے کیونکہ اچانک جہاںتک نظر جاتی ہے وہاں تک علاقے کا نقشہ بدل چکا تھا لوگ اپنے اپنے گھر ڈھونڈنے لگے ہر طرف چیخ وپکارتھی سب کچھ زمین بوس ہو چکا تھا دیکھنے والی آنکھیں یہ دیکھ کر بھی یقین نہیں کر پا رہی تھی ہر طرف ملبے کے نیچے سے اللہ اکبراللہ اکبر اور بچائو بچائو کی آوازیں آرہی تھی مگر یہ چند لوگ جو یہ منظر کو دیکھنے کے لئے زندہ بچ گئے ان سب کو نکالنا ان کے بس سے باہر تھا بے بسی کے عالم میں کھڑے یہ لوگ اپنے پیاروںکی چیخوں کو سن رہے تھے جو کہ ان کے سامنے تڑپ تڑپ کر جان دے رہے تھے ۔قیامت کا منظر کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے سب کچھ تہس نہس ہو چکا تھا چیخیں زمین میں دبتی گئی اور ا س طرح ایک ہنستی بستی اور خوبصورت وادی جس میں کبھی خوشیوں کا مسکن تھا اور ننھے منھے بچوں کی پیاری شراتوں سے گونجا کرتی تھی آج وہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی ۔غم کی حکمرانی شروع ہو چکی اپنے بچھڑ گئے کوئی ملبے کے نیچھے کوئی موت کی آغوش میں کوئی زخموں سے چورچور خواہ ہر کوئی بے یار و مدگار اللہ کو پکار رہا تھا۔ مگر آج اللہ کی مرضی کے سامنے کسی کی کچھ نہ چل سکھی ورنہ یہ انسان جو کہ اپنے بچے کی ایک آہ پر پوری پوری رات جاگ کر گزارتے تھے مگر آج وہ بچہ چیخ چیخ کر دم توڑ گیا اور والدین کچھ نہ کر سکے ہزاروں معصوم اور جوان زندگیاں چند سیکنڈوں میں سینکڑوں من مٹی میں دب کر اس بے وفا زندگی کی قید سے ہمیشہ کے لئے آزادہو گئیں۔وہ وادی جس کو دیکھنے کے لئے ہر آنکھ بے تاب تھی جس کی تصویریں ہر البم کی زینت ہوتی تھی جس کے حسن اور دلکشی کے وجہ سے اس کا نام دنیا میں جنت رکھا گیا ہے۔مگر اس تباہ کن زلزلے کے بعد یہ جنت نظیر وادی، وادی موت میں بدل گئی اب یہاں ہر طرف انسانی لاشیں اور ہڈیاں نظر آتی ہیں اس ہولناک زلزلے میں ایک لاکھ سے زائد لوگ اپنی جانیں کھو بیٹھے اور اسی ہزار سے زائد لوگ زخمی ہوئے۔ کئی لاشیں اب بھی اپنے گھروں کے ملبے تلے ہیں یوں اپنے گھر ہی اپنے مدفن بنے ۔سکول اور کالج ہزاروں بچو اور بچیوں کے اجتماعی قبرستان بنے۔ شہر مٹی کے ڈھیر بن گئے زندگی بے رونق ہو گئی حسرتیں دم توڑ گئی اور کشمیر ویران ہونے لگا۔دریائوں کا میٹھا پانی لاکھوں لوگو ںکے آنسوں سے نمکین ہو گیا ،ہوائوںسے خون کی بو آنے لگی خوبصورت سر سبز پہاڑ وں سے مٹی اور دھول اڑنے لگی ۔ ہر آنکھ اشکبار تھی اپنے کھو گئے ہزاروں لوگوں کی خدمت کرنے والے مہمان نواز آج امداد کے منتظر تھے۔ زلزلے کے بعد کئی نئے رشتوں نے بھی جنم لیا ،کوئی بے کس کوئی بے سہارا کوئی یتیم کوئی بیوہ کوئی مجبور کوئی معذوراور کوئی لا وارث کہلانے لگا،۔ زندگی نے نیا رخ اختیار کرلیا ۔زلزلے لگاتار آرہے تھے بچے کچے گھروں میں رہنا خطرے سے خالی نہیں تھا ،مگر کھلے آسمان تلے سخت سردی میں رہنا موت کو دعوت تھی یہ سب کچھ کوئی شوق نہیں بلکہ اک بہت بڑی مجبوری تھی،بے بس انسان نہ چاہتے ہوئے بھی سب کچھ برداشت کر رہا تھا اور وہ کرتا بھی کیا ،یہ حکم الہٰی تھا یا قہر خداوندی یا پھر اللہ عزوجل کی طرف سے انسانیت کا کڑا امتحان۔ کشمیر کے مکینوںنے سکھ کا دن کیوں نہیں دیکھا ان کے آشیانے سلامت کیوں نہیں رہتے ۔ کبھی آندھی کبھی دشمن کی گولیاںتوکبھی زلزلہ انہیں بکھیر دیتا ہے ۔ غموں کو یہاں کی خوشیاں ذیادہ دیر برداشت کیوں ہوتی۔ ان مائوں کے آنسوں خشک کیوں نہیں ہوتے یہ سسکیاں یہ آہیں مسکراہٹوں میں کیوں نہیں بدل سکتی؟ کیاہمارے اعمال ا س چیز کے ذمہ دار ہیں کیا انسان ہی انسان کا دشمن ہے ۔ جب اللہ کی طرف سے کو ئی مصیبت آتی ہے تو رنگ نسل مذہب اور دشمنیوں کو بھلا کر سب ایک انسانیت کا نعرہ لگاتے ہیں ایک دوسرے کے دکھ میں شریک ہو کر آ نسوں بہاتے ہیں اور ہمدردیاں جتاتے ہیں اور ہر مذہب میںاپنے طریقے صرف امن کی دعائیں مانگی جاتی ہیں اور جب اللہ رب العزت کسی کی سن کر سب کو معاف کر دیتا ہے تو پھر انسان ایک دوسرے کومعا ف نہیں کرتے ایک دوسرے کی خوشیاں برداشت نہیں کرتے کیوں؟ کیوں ایک دوسرے کو تکلیف دیتے ہوئے بے رحم ہو جاتے ہیں۔ کاش یہ انسانیت اور یہ محبت سدا انسان کے دلوں میں ہوتی کاش یہ جنگیں یہ نفرتیں یہ قتل و غارت ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتی کائنا ت پر امن ہو ۔ایسا ممکن ہے اگر ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ ہم کسی کو کوئی تکلیف نہیں دینگے یہ زمین جس کے لئے ہم لڑتے ہیں خون کرتے ہیں یہ ہماری ہمیشہ نہیں ہے۔