ایک زمانہ تھا "سماجی کارکن" سنتے ہی پردہ تصور پر عبدالستار ایدھی، انصار برنی اور اسی طرح کی کچھ مزید شخصیات جھلملانے لگتی تھیں۔ نائن الیون نے "سماجی کارکن" کا حوالہ ہی بدل کر رکھدیا۔ اب یہ ٹائٹل سن کر اس وطن فروش موم بتی مافیا کے سوا ذہن میں کچھ آتا ہی نہیں جو تین گروپوں میں تقسیم ہو کر تین مختلف اہداف کو نشانہ بنا رہی ہے۔ بظاہر وہ یہ باور کراتے ہیں کہ ان کا مقصود پاکستان کو ایک جدید سیکولر ریاست بنانا ہے لیکن درحقیقت ان کے ان تینوں اہداف کے حصول کے بعد پاکستان ہی باقی نہیں رہتا اور یہی وجہ ہے کہ اس مافیا کے سرغنے پیشگی جیبوں میں گرین کارڈ سنبھالے بیٹھے ہیں جبکہ ان کے پیادوں کو ہنگامی صورتحال میں چند مخصوص مغربی ممالک "سیاسی پناہ" کی چھتری فراہم کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ اگر آپ ان کے کرتوتوں اور چلن پر غور کریں تو منافقت آپ کو صاف نظر آئے گی۔ یہ بات انسانیت کے مذہب ہونے کی کرتے ہیں لیکن آواز صرف اپنے جیسے منافقین کے لئے اٹھاتے ہیں۔ سوشل میڈیا سے غائب 9 لوگ ہوتے ہیں یہ بات صرف 4 کی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سماجی کارکن نہیں بلکہ "سماجی منافق" کہا جائے گا۔ سماجی منافقین کا پہلا ہدف پاکستان کا آئین ہے۔ اس آئین سے انہیں یہ شکایت ہرگز نہیں کہ یہ پاکستان کے شہریوں کے حقوق کو کما حقہ یقینی نہیں بناتا۔ ہم نے نہیں دیکھا کہ کبھی انہوں نے اس حوالے سے کوئی سمینار منعقد کیا ہو۔ انہیں یہ شکوہ بھی نہیں کہ اس آئین پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ ہم نے نہیں دیکھا کہ انہوں نے کبھی اس حوالے سے کوئی مظاہرہ کیا ہو۔ انہیں یہ گلہ بھی نہیں ہے کہ یہاں آمر تو آمر جمہوری حکمران بھی آئین شکنی کرتے ہیں اور ہم نے نہیں دیکھا کہ کبھی یہ مافیا ان سانحوں پر بھی موم بتی موم بتی کھیلی ہو۔ انہیں تو بس ہمارے آئین کی اس بنیادی ساخت سے غرض ہے جو لبرلزم کے دور میں ایک "اسلامی جمہوریہ" کی روح بنا ہوا ہے۔ سماجی منافقین کے پہلے گروپ کا ہدف اس روح کو قبض کرنا ہے۔ کمرشل لبرلز یا سماجی منافقین کا دوسرا ہدف اسلامی تعلیمات اور اسلام کا نظام قانون یعنی شریعت ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ اسلام بطور نظامِ ریاست سب سے بہترین اور سب سے منصفانہ نظام ہے تو اس نظام کی تمام اینٹیں اور گارہ شریعت فراہم کرتی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ملک آئینی طور پر اسلامی ہے لیکن عملا چل بڑی حد تک سیکولر رہا ہے اور یہی خرابی کی جڑ ہے۔ سماجی منافقین سے ہماری کشمکش ہی یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ملک چل تو سیکولر رہا ہے لیکن روح اس کی اسلامی ہے، اگر روح بھی سیکولر کردی جائے تو ملک ترقی کرے گا جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ روح اسلامی ہے بس ملک کو باعمل بنانے کی ضرورت ہے، جس دن اس ملک نے عدل اور سماجی انصاف کو اپنا عمل بنا لیا یہ ترقی کرے گا۔ ہماری نظر میں ریاست کا "عمل صالح" یہ ہوتا ہے کہ وہ رعایا کو انصاف، تعلیم، صحت اور اسباب معیشت ان کی دہلیز پر فراہم کرے۔ ہمارا مقدمہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان مسلمان تو ہے ہی بس باعمل بن کر عوام کو ان کے حقوق فراہم کرنا شروع کردے جبکہ کمرشل لبرلز یعنی سماجی منافقین کی جد و جہد یہ ہے کہ ریاست سے اس کا اسلام چھین لیا جائے اور یہ جد و جہد ہے بھی کمرشل۔ اس سلسلے میں دو متوازی کوششیں ہو رہی ہیں۔ پہلی کوشش سماجی منافقین کی جانب سے شریعت کے مذاق اور اس کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈے کی صورت ہو رہی ہے جبکہ نائین الیون کے بعد ایک اور رخ پر بھی کام شروع کیا گیا ہے اور وہ رخ یہ ہے کہ ایک "دوشیزہ" قسم کی خانہ زاد شریعت تیار کی جائے جو دکھنے میں شریعت ہو لیکن ہو شریعت نہیں۔ اس مقصد کے لئے ایک سکالر اور ان کا گروپ کام کر رہا ہے چنانچہ آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ کمرشل لبرلز یعنی سماجی منافقین خود شریعت مخالف ہونے کے باوجود اس سکالر کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے اور صاف نظر آتا ہے کہ دونوں فطری اتحادی ہیں۔ ہمارے تعلیمی نصاب میں اسلامی تعلیمات کے خلاف ہونے والا کام بھی یہ دونوں اتحادی مل کر کر رہے ہیں۔ تیسرا ہدف پاکستان کے دفاعی ادارے ہیں۔ "سماجی منافقین" کا تیسرا گروپ ان اداروں کے خلاف سرگرم ہے۔ اس سلسلے میں یہ اس حد تک چلے گئے کہ نائن الیون سے عین قبل اسلام آباد میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا باقاعدہ جلوسِ جنازہ بھی نکالا گیا۔ یہ ہدف دو وجوہات کے تحت چنا گیا ہے۔ پہلی یہ کہ ملک کا دفاع ان اداروں کے ہاتھوں میں ہے۔ اگر یہ مضبوط فوج موجود رہتی ہے تو پاکستان محفوظ رہتا ہے۔ دوسری اور سب سے اہم یہ کہ یہ دنیا کی واحد فوج ہے جو برملا کہتی ہے کہ ملک کی "نظریاتی سرحدیں" محفوظ رکھنا بھی اس کی ذمہ داری ہے اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ نظریاتی سرحدوں سے ملک کا "اسلامی تشخص" مراد ہے۔ آپ نے مین سٹریم اور سوشل میڈیا میں "ملا ملٹری الائنس" کے عنوان سے ہونے والا پروپیگنڈہ دیکھا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ ملا اور ملٹری کا یہ الائنس بنتا کس تناظر میں ہے ؟ اس الائنس کو رات آخری پہر جاگتے دو انسانوں نے قائم کر رکھا ہے۔ ایک وہ ملا جو رات کے اس آخری پہر اپنے رب کے سامنے کھڑے ہو کر اس ملک کی حفاظت کے لئے اس کی مدد مانگتا ہے اور دوسرا وہ سپاہی جو عین اسی لمحے ملک کی سرحد پر گن سنبھالے دشمن کے مورچے پر نگاہ جمائے بیٹھا ہوتا ہے۔ ملا کی رب سے وہ دعااور سپاہی کی دشمن پر یہ نگاہ ان دونوں کو ملکی سلامتی سے جوڑ دیتی ہے جبکہ وہ سپاہی جغرافیئے کے ساتھ ساتھ جس نظریاتی سرحد کے تحفظ کی بات کرتا ہے اس کی تعمیر ملا کا ہی کام ہے اور یہی ملا ملٹری الائنس ہے۔ دلِ یزداں میں چبھتا یہ ملا ملٹری الائنس درحقیقت ملک کے دفاع کے لئے "شب زندہ داری" نے قائم کر رکھا ہے۔ سماجی منافقین کے نزدیک ملا فقط وہ نہیں جس نے کسی وفاق المدارس قسم کے ادارے کی سند لے رکھی ہو بلکہ ہر وہ شخص ہے جو ملک کے اسلامی ہونے پر یقین رکھتا ہے اور اس کی دعوت دیتا ہے۔ اب اگر آپ سماجی منافقین کے مذکورہ تینوں اہداف کا جائزہ لیں تو صاف نظر آئے گا کہ تینوں مقامات پر یا تو ان کی راہ میں ملا کھڑا ہے یا ملٹری اور یہی ان کی اصل تکلیف ہے !